تاریک مستقبل کے سیاستدان .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
جمہوری ادوار میں سیاست دانوں کا وابستگیاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں۔سیاسی جماعتوں میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اصولوں کی بنیاد پر اپنی ہمدردیاں بدلنے کی بجائے اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ ہوا کے رخ کے ساتھ چلنے والے طالع آزما سیاست دانوں کا مستقبل تاریک ہوتا ہے ۔عہد حاضر کی واحد جماعت تحریک انصاف ہے جسے نوجوان نسل کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔سانحہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی میں درڑایںڈالنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑاورسیاست دانوں پرپابندی کا آغاز ایوبی دور میں ہو گیا تھا۔ ایوب خان نے سیاست دانوں پر پابندی عائد کرکے کنونشن مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرا کر مطلق العنان حکمران بن گئے۔ طلبہ نے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اورپشاور روڈ پر واقع گورنمنٹ پولی ٹیکنیک کالج کے جواں سال طلب علم عبدالحمید کو گولی کا نشانہ بنایاگیا تو تحریک میں اور تیزی آگئی جس کے نتیجہ میںایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی توڑنے کی اپنے تئیں سرتوڑ کوشش کی ۔بھٹو کابینہ کے وزیر مولانا کوثر نیازی سے مل کر پروگرسیو پیپلز پارٹی بنائی جس میں انہیں کامیابی نہیں ہو سکی پیپلز پارٹی چھوڑ کر جانے والے قصہ پارینہ بن چکے ہیں لیکن پیپلز پارٹی قائم ودائم ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ نون کے حصے بخیے کرنے کا آغاز ہوا تو مشرف نے گجرات کے چودھریوں کو اپنے ساتھ ملا کر مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی۔ جنرل مشرف نے مسلم لیگ نون کے سنیئر رہنما راجا ظفرالحق کو بلایا اور اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تو راجا ظفر الحق نے انکار کر دیا۔سابق وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے اور سانحہ نو مئی کے بعد تحریک انصاف کے کئی ایک ارکان پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں ۔عمران خان اقتدار سے ہٹنے کے بعد پہلے سے زیادہ متحرک ہوئے تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے عوام ان کے ساتھ ہو لئے۔عمران خان نے عوام کی تائید سے چاروں صوبوں میں بڑے بڑے جلسے کئے جس نے تیرہ جماعتی اتحاد کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔پنجاب میں ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی نے پنجاب کو اپنا قلعہ سمجھنے والوں کے حواس خطا کر دیئے۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئینی طور پر نوے روز میں الیکشن کا انعقاد ضروری تھالیکن حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی ہوا میں آڑا دیا۔لاہور میں مینا ر پاکستان کے جلسے کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر مقدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ہماری سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما کے خلاف سو سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ اسی دور میں قائم ہوا ہے۔حکومت کچھ بھی کہے عدلیہ آزاد ہے اور کسی دبائو کے بغیر فیصلے کر رہی ہے ورنہ عمران خان کب کے پس زنداں ہوتے۔تیرہ جماعتی اتحاد کو اس بات کی پریشانی لاحق ہے عدلیہ عمران خان کو ضمانت کیوں دے دیتی ہے ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے قانو ن میں جو دفعات قابل ضمانت ہوں عدالتیں خواہ کوئی بھی ہو اسے ضمانت پر رہا کر دیتی ہیں۔عمران خان کو دوران ریمانڈ ضمانت دی گئی تو اتحادی جماعتوں نے شور غوغا شروع کر دیا حالانکہ ضابطہ فوجداری میں قابل ضمانت جرائم میں مزید تفتیش کی ضرورت ہو تو ضمانت دی جا سکتی ہے۔سانحہ نو مئی نے حالات کو یکسر بدل دیا ہے۔حکومت نے اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا ہے سانحہ میں ملوث لوگوں کو پی ٹی آئی کا ورکر قرار دیا جا رہا ہے۔سرکاری تنصیبات اور حساس جگہوں پر گھیرائو جلائو سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے جس سے اندرون اور بیرون ملک ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے ۔ اخبارات میں یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کے پی کے میں نو مئی کو گھیرائو جلائو کرنے والے گرفتار شدگان کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے۔سانحہ نو مئی میں گرفتاریوں کے خوف اور دبائو سے پی ٹی آئی کے رہنمائوںنے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عامر کیانی جن کا تعلق اسلام آباد کے نواحی علاقہ مل پور سے ہے پارٹی چھوڑنے کااعلان کیا ہے۔ عمران خان نے اسے وفاقی وزیر صحت بنایا تھا ان تعلیمی قابلیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ وزارت صحت کے اہل نہیں تھے۔ عمران خان نے دوستی نبھائی اور ایک اہم وزارت سے اسے نوازا تھا۔عامر کیانی کی وزارت کے دور میں ادوایات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا اور عوام بلبلا اٹھے تھے۔ قومی احتساب بیورو نے عامر کیانی کے خلاف مبینہ اٹھارہ ارب کے شکایت پر انکوائری کا آغاز کر دیا ۔ہمیں علم نہیں عامر کیانی کے خلاف نیب میں کوئی انکوائری ہے یا داخل دفتر ہو چکی ہے البتہ عمران خان پر مشکل وقت آیا تو کیانی نے اپنے دیرینہ ساتھی کو چھوڑدیا۔وفاقی دارالحکومت کے ایک صاحب ڈاکٹر امجد ہیں جو نگران وزیر رہ چکے ہیں۔پہلے وہ جنرل مشرف کی جماعت میں تھے اور اب عمران خان کی تحریک انصاف میں جا پہنچے تھے انہوں نے بھی پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔جنوبی پنجاب کے کچھ سابق ارکان صوبائی اسمبلی نے تحریک انصاف سے کنارہ کشی کر لی ہے۔اٹک سے تعلق رکھنے والے امین اسلم نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا وہ نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کے بیٹے عامر علی احمد کے ہم زلف ہیں پی ٹی آئی کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔سندھ سے پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے ۔عمران خان کے بہنوئی اور کالم نگار حفیظ اللہ نیازی کے بقول عمران خان کا مقابلہ پی ڈی ایم سے نہیں اسٹیبلیشمنٹ سے ہے۔عمران خان نے اعلان کیا ہے وہ اکیلے رہ گئے تو بھی حقیقی آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گئے جواتحادی جماعتوں کے لئے چیلنج سے کم نہیں۔ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ سے اس کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا ہے اور مشکل وقت میں پارٹی چھوڑنے والوں سیاسی مستقبل تاریک ہوتا ہے۔







