Column

نظام انصاف، ایمرجنسی، مارشل لاء .. یاور عباس

یاور عباس

امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ دنیا کا نظام کفر پر تو چل سکتا ہے مگر ظلم پر نہیں۔ ظلم کا نظام ناانصافی کا نظام ہوتا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون جہاں بھی ہوگا وہاں امن ناپید ہوگا، خوشحالی نہیں آسکتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشرے تباہی اور زوال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے جتنے معاشرے مہذب، پرسکون، خوشحال اور ترقی یافتہ ہیں وہاں کا نظام انصاف بھی دیگر ممالک سے بہت ہی اچھا ہو گا۔ پاکستانی قوم 75سال سے معاشرتی مسائل کا شکار رہی، کرپشن، بے روزگاری، غربت، مہنگائی اور لاقانونیت یہاں کے بہت بڑے مسائل ہیں، ہم اسی بحث سے نہیں نکلے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یا پھر جمہوریت بھی آمریت کی چھتری تلے ہی چلتی آرہی ہے۔ جب کہ ہم نے نظام انصاف کی طرف کتنی توجہ دی ہے اس پر آج تک کسی نے شاید توجہ ہی نہیں دی۔ پارلیمنٹ کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی ، خوشحالی کے لیے قانون سازی کرنا ہوتا ہے مگر مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ میں نے اپنی 35سالہ پارلیمانی تاریخ میں کوئی ایسا قانون بنتے نہیں دیکھا جو عوام کی فلاح کے لیے ہو۔ یہاں جتنی قانون سازیاں ہوتی ہیں وہ صرف حکومتوں کی سہولت کے لیے ہوتی ہیں۔ عوام کی آنکھیں بھی کھل چکی ہیں کہ پاکستان میں عوام کے ووٹ لے کر عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکمران کیا کرتے ہیں۔ ہر حکمران ماضی کے حکمران کو چور کہتا رہا اور قومی خزانہ خالی کرنے کا الزام لگاتا رہا، ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کا الزام ہم نے نہیں لگایا بلکہ سیاستدان خود ایک دوسرے پر لگاتے رہے اور ان کے ثبوت عدالتوں کو پیش کرتے رہے مگر نظام انصاف دیکھیں کہ کرپشن کیسز کے باجود تمام سیاستدان لوٹی ہوئی رقم بڑی آسانی سے ہضم کر جاتے ہیں اور کیس بھی ختم کروا لیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ سرکاری بینکوں سے کروڑوں ، اربوں روپے کے قرض لے کر معاف کروا لیتے ہیں۔ ایسے حالات میں ملک بدحالی کا شکار ہی ہوگا اور سیاستدانوں کے اثاثے بھی بڑھیں گے ، بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار بھی بڑھیں گے ۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کے سسٹم کو کبھی مضبوط ہی نہیں ہونے دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ مضبوط سے مضبوط کرپشن کیس ہونے کے باوجود کبھی کسی ملزم سے رقم برآمد کروائی جا سکی اور نہ ہی کوئی خاطر خواہ سزا دی جا سکی ہے، بلکہ کیس بھگتنا اور حوالات میں رہنا ایک سیاسی ڈگری سمجھی جاتی ہے ۔
پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات نہ کروانے کی حکومتی ضد نے پارلیمنٹ کو عدلیہ کے سامنے لاکھڑا کر دیا اور 13جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل حکومت نے عدالتی حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے، 14مئی کا دن گزر گیا مگر الیکشن نہ ہوئے سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ دیتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر حکومت نے پی ٹی آئی سربراہ، سابق وزیر اعظم عمران خاں کی سیاست کو دفن کرنے کے لیے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ملک بھر میں مقدمات درج کروا کے شاید کوئی ریکارڈ بھی قائم کیا ہوا، ان مقدمات کا مقصد عمران خاں کی عوامی رابطہ مہم پر اثر انداز ہونا اور قانونی معاملات میں الجھائے رکھنا، روزانہ عدالتوں کے چکر لگوانا اور پھر اسی دوران گرفتار کرنا تھا، گرفتاری کا شوق حکومت نے تو پورا کرلیا مگر سپریم کورٹ نے حکومت کے طریقہ کار پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریلیف دیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی تاریخ ساز ریلیف دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ واحد اپوزیشن لیڈر ہوگا جس کے خلاف ریاستی جبر کی انتہا ہوئی، تمام پارٹی کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا۔ حکومتی مخالفت کے باوجود عدالتوں سے ریلیف ملنا بھی ایک تاریخ ساز کارنامہ ہی ہوگا۔ عمران خاں کے رہا ہوتے ہی ملک میں امن و امان تو قائم ہوگیا ، احتجاج کی فضا ختم ہوگئی مگر پی ٹی آئی کے لوگ توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کے الزامات میں گرفتار ہونا شروع ہوگئے۔ عدالتی ریلیف پر حکومت اور پی ڈی ایم جماعتیں بھی سیخ پا ہوگئیں حالانکہ ماضی میں یہی ریلیف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو ملتا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف عدالتی ریلیف کے بدلے ہی جیل سے بیرون ملک گئے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی عدالتی ریلیف کے نتیجے میں ہی قائم ہوئی تھی اور مسلم لیگ ن کے رہنما مریم نواز کے بارے میں عدالتوں نے حکم دیا تھا کہ نیب نے گرفتاری سے 10روز قبل بتانا ہے۔ خیر عمران خاں کو عدالتی ریلیف پر حکومت غصہ بھی تھی اور پریشان بھی۔ وزیراعظم نے ایک ہی دن میں دو دفعہ کابینہ کا اجلاس منعقد کیا، پہلے اجلاس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب پی ٹی آئی کی حمایت کی مذمت کی اور پھر عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کی گئی، ایمرجنسی لگانے کے بھی مشورے دئیے گئے۔ سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے تو پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے خلاف احتجاجی دھرنے کا اعلان یوں کیا جیسے کوئی اعلان جنگ کر دیا ہو۔ عمران خاں نے عدالتی احاطہ میں عوام کو جہاں امن کی فضا قائم کرنے کا پیغام دیا وہاں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کو بھی پیغام بھیجا کہ میرے بارے آپ کو غلط بریفنگ دی جارہی ہے، میں منتخب ہوکر بھی آپ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہوں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاک فوج کی جانب سے وضاحت آگئی کہ فوج جمہوریت کے ساتھ ہے اور ملک میں مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیاستدانوں کی لڑائیوں میں آنے والا ہفتہ فیصلہ کن ثابت ہوگا، سپریم کورٹ میں انتخابات نہ کروانے کے حوالے سے توہین عدالت کا کیس بھی چلے گا، نیب ترامیم کا کیس بھی چل رہا ہے، اگر نیب ترامیم ختم کردی گئیں تو حکومت میں موجود وزیر اعظم سمیت بہت سارے وزراء پھر سے نئی مشکل میں پھنس جائیںگے ۔ پی ٹی آئی قیادت کو رہا کروانے اور جنرل الیکشن کے لیے فضا بنانا عمران خاں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ اداروں سے مفاہمتی پالیسی کے بغیر جنرل الیکشن کا انعقاد شاید آسان نہ ہو۔ مگر اس سارے عمل نے عمران خاں کو عوام میں مزید مقبول کر دیا ہے اور حکومتی جماعتیں الیکشن سے خوف کھا رہی ہیں۔ لیکن ملک میں سیاسی، معاشی بحرانوں کا واحد حل انتخابات ہی ہے ۔

جواب دیں

Back to top button