ColumnRoshan Lal

عمران خان کی گرفتاری کے بعد؟ .. روشن لعل

روشن لعل

پاکستان کی تاریخ میں 9مئی 2023ء کی سب بڑی خبر یہی تصور کی جائے گی کہ اس روز عمران خان کو انتہائی ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا گیا۔ عمران خان کی گرفتار کو ڈرامائی تو کہا جاسکتا ہے مگر ڈرامہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد کنٹونمنٹ علاقوں سمیت پورے پاکستان میں پی ٹی آئی کارکنوں کے جلائو گھیرائو پر مبنی احتجاج کے جو مناظر نظر آئے ان پر ڈرامہ ہونے کا شک ضرور کیا جاسکتا ہے۔ 9مئی کو رونما ہونے والے مختلف واقعات میں سے کس کو ڈرامائی اور کس کو ڈرامہ سمجھا جاسکتا ہے ، اس پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں ایک مزید سول وزیر اعظم کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کر لیا جائے۔ پاکستان میں فوجی راج کی نسبت سول حکومت کو بہتر سمجھنے والے کسی بھی شہری کے لیے ایک سابق سویلین وزیر اعظم کی گرفتاری ناقابل افسوس واقعہ نہیں ہو سکتا مگر اس واقعہ پر صرف اتنا ہی افسوس کیا جاسکتا ہے جتنا خطرناک اور تیز ترین ڈرائیونگ کرنے والے کسی ڈرائیور کے یقینی ایکسیڈنٹ کرنے پر ممکن ہو سکتا ہے۔ عمران خان بلاوجہ رفتار کی تمام حدیں عبور کر کے ایکسیڈنٹ کا شکار تو ہو گئے مگر سنگین ترین غلطیوں کے باوجود ابھی تک زخمی ہونے سے محفوظ ہیں۔ ویل چیئر پر بیٹھ کر عدالت آنے اور اپنے پیروں پر چل کر پولیس وین تک جانے والے عمران خان کے لیے کچھ لوگ ازراہ مذاق یہ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح گرفتاری کے فوراً بعد ان کی مہینوں سے زخمی ٹانگ اچانک ٹھیک ہو گئی اسی طرح انہیں یہ گرفتاری آئندہ بھی راس آسکتی ہے۔
عمران خان کے لیے جس گرفتاری کے راس آنے کی باتیں ہورہی ہیں اسے اکثر لوگ ناممکن سمجھ رہے تھے ا۔ ایسا سمجھنے کی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں عمران خان کے مخالفوں کو جن چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفتار کر کے مہینوں اور برسوں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ان سے بہت زیادہ بڑی باتیں کرنے کے باوجود وہ نہ صرف گرفتاری سے محفوظ رہے بلکہ مزید ایسی باتیں بھی کرتے رہے۔ عمران خان کے گرفتار نہ کیے جانے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں عدالتوں سے ایسی رعایتیں ملتی رہیں جن کا ان کے سیاسی مخالفوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس بات کو کافی عجیب سمجھا جارہا ہے کہ ایسی رعایتوں کے مزید امکان کے باوجود عمران خان کو ڈرامائی انداز میں کیسے گرفتار کر لیا گیا۔ عمران خان کی گرفتاری کو ڈرامائی سمجھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس کیس میں ان کی گرفتاری ہوئی ہے اس کی تفصیلات عرصہ پہلے منظر عام پر آگئیں تھی۔ ان تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ جس کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا وہ ہر گز بے بنیاد نہیں ہے ۔ اس کیس کی بنیاد یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی کابینہ کی منظوری سے وہ 140ملین پونڈ قومی خزانے میں جمع رہنے دینے کی بجائے اس شخصیت کو لوٹا دیئے گئے جس پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا کر برطانیہ نے یہ رقم پاکستان کو واپس کی تھی۔ اس ضمن میں عمران خان پر بڑا الزام یہ ہے کہ جن دنوں برطانیہ سے 140ملین پونڈ پاکستان واپسی کا معاملہ برطانیہ میں عدالتوں کے اندر اور باہر طے ہورہا تھا ان ہی دنوں پاکستان میں القادر ٹرسٹ رجسٹر کرایا گیا جس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی ہیں۔ جس شخصیت کو عمران خان اور ان کی کابینہ نے برطانیہ سے آنے والے 140ملین پونڈ عطا کیے اس شخصیت نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے القادر ٹرسٹ کو اس وقت روحانی یونیورسٹی کے قیام کے لیے 243ملین روپے مالیت کی 460کنال اراضی عطیہ کی جب بھارت میں دھڑا دھڑ آئی ٹی یونیورسٹیاں بنائی جارہی تھیں۔ القادر ٹرسٹ کو بعد ازاں 180ملین روپے کے مالی عطیات بھی وصول ہوئے۔ عمران خان پر قائم ہونے والے مقدمے کی دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ جو تفصیلات سامنے آچکی ہیں ان دستاویزات کی کبھی کسی نے تردید نہیں کی۔ اس کے باوجود عمران خان پر بننے والے القادر ٹرسٹ کیس کو غلط ، بے بنیاد اور سیاسی انتقام کہا جارہا ہے۔ اس کیس کے متعلق چاہے کوئی کچھ بھیک ہے مگر ماضی میں دیکھا جا چکا ہے کہ کسی دستاویزی ثبوت کے بغیر صرف زبانی کلامی الزامات کے تحت لوگوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا تھا ۔ القادر ٹرسٹ سکینڈل کی تفصیلات عرصہ پہلے منظر عام پر آنے کے باوجود کسی ایسی عدالت نے از خود نوٹس لینے میں دلچسپی ظاہر نہ کی جو ماضی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوٹس لے کر لوگوں کو جیلوں میں بھیجنے کا سامان پیدا کر دیا کرتی تھیں۔
عمران خان کو بدعنوانی کے جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا انہیں قطعاً کمزور نہیں کہا جاسکتا۔ عجیب بات ہے کہ بدعنوانی کے الزامات میں عمران خان کی گرفتاری پر ان کے وہ چاہنے والے آپے سے باہر ہوگئے جو دن رات دوسروں کو چور چور کہتے ہوئے یہ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ اس ملک میں ان سے بڑا کرپشن کا مخالف کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ان چاہنے والوں نے آپے سے باہر ہو کر عین وہی کچھ کیا جس کا عندیہ عمران نے اپنی گرفتاری سے قبل یہ کہتے ہوئی دیا تھا کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ان کے حامی وہ کر گزریں گے کہ بگڑے ہوئے حالات قابو کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ عمران خان کی ان باتوں کے عین مطابق ان کے حواریوں نے ملک کی جن اہم اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا ان میں کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ بھی شامل ہے ۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد کور کمانڈر لاہور کی جس رہائش گاہ کو تباہ کیا گیا اسے قائد اعظمؒ کی ملکیت ہونے کی وجہ سے زیارت ریذیڈنسی کی سی حیثیت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ جب زیارت ریذیڈنسی کی تباہی کے بعد بلوچستان لبریشن آرمی نامی تنظیم کے لوگوں پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زیارت ریذیڈنسی اور لاہور قائد اعظم ریذیڈنسی کو تباہ کرنے والوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھا جاتا ہے یا ان کے ساتھ وہی تفریق کی جائے گی جو عمران خان اور علی وزیر کے درمیان کی جاتی رہی۔
کور کمانڈر لاہور کا گھر عمران خان کی کہی ہوئی باتوں کے عین مطابق تباہ ہوا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام لیڈروں نے ان لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا جنہوں نے اتنی دیدہ دلیری سے یہ کام کیا کہ ان کی شکلوں سمیت تمام افعال کیمروں نے ریکارڈ کر لیے۔ یہاں حیرت صرف دیدہ دلیری سے کام کرنے والوںپر ہی نہیں بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ جب یہ کام ہو رہا تھا اس وقت گریژن سکیورٹی فورس کے لوگ کیوں حرکت میں نہیں آئے جسے پاکستان میں بنایا ہی چھائونیوں کی حفاظت کے لیے گیا تھا۔
عمران خان گرفتار ہو چکے اور ان کی کہی ہوئی باتوں کے عین مطابق ان کی حواری وہ کام کر چکے جو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے خلاف ماضی میں ایسے کام کرنے والوں کی طرح ایکشن لیا جاتا ہے یا حسب سابق پہلے سے زیادہ رعایتیں دی جاتی رہیں گی۔

جواب دیں

Back to top button