ColumnMazhar Ch

سیاسی جنونیت .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

اپنے سیاسی یا مذہبی نظریات کی پاگل پن کی حد تک پرستش جنونیت کہلاتی ہے۔ ایک سیاسی یا مذہبی جنونی اپنے خیالات و نظریات کو دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے کیلئے قوت، طاقت اور تشدد تک کے استعمال کو جائز سمجھتا ہے۔ کسی نہ کسی حد تک سیاسی و مذہبی جنونی تقریبا ہر معاشرے اور ملک میں پائے جاتے ہیں لیکن ریاستی و حکومتی سطح پر اختیار کی جانے والی کچھ ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور قانون اور انصاف کے دوہرے معیارات سے کچھ ممالک میں ایسے جنونیوں کی کثرت ہو جاتی ہے ۔ جنونی عقائد و نظریات رکھنے والے افراد نہ صرف اپنی خوشیوں کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں بلکہ وہ ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی مذہبی و سیاسی جنونیت کی وجہ سے ایک طرف ملک میں کشمکش اور نفرت میں اضافہ کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی جنونیت کے باعث ملک میں فکر اور اظہار رائے کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ مذہبی و سیاسی جنونیت کی انتہائی صورت ملک میں لمبے عرصے کے لئے خانہ جنگی، سیاسی عدم استحکام، فرقہ واریت، مذہبی بنیاد پرستی اور شدت پسندی جیسے خطرات اور برائیوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ فاشزم اور نازی ازم کے زوال اور جمہوری نظام حکومت کی مقبولیت سے دنیا بھر میں مجموعی طور سیاسی جنونیت کے خطرات کافی کم ہو گئے ہیں لیکن پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے محاذ آرائی اور سیاسی عدم برداشت کی تشویش ناک ہوتی صور ت حال نے سیاسی جنونیت کو پروان چڑھا دیا ہے۔ سیاسی جنونیت کے مقابلے میں مذہبی جنونیت ابھی بھی دنیا کیلئے بلعموم جبکہ مسلم دنیا کیلئے بلخصوص ایک سنگین خطرہ ہے ۔
یوں تو مملکت خداداد پاکستان میں سیاسی و مذہبی رواداری کی صورت حال کبھی بھی مثالی نہیں رہی لیکن گزشتہ چند سالوں سے سیاسی جماعتوں کے مابین رواداری کا دائرہ بتدریج کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے ۔ پہلے میثاق جمہوریت اور بعد ازاں اٹھارویں ترمیم کی منظوری اس بات کا ثبوت تھا کہ نوے کی دہائی میں آپس میں دست و گریبان رہنے والی سیاسی جماعتوں نے سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بالغ النظر ہونا بھی شروع کر دیا تھا۔ سب نے دیکھا کہ نوے کی دہائی میں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہ کر ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے والی جماعتیں اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں بننے والی منتخب سیاسی حکومتوں کو اپنی اپنی مدت پوری کرنے میں تعاون کر رہی تھیں۔ یہ دونوں جماعتوں کی اصولی سیاست کا ہی نتیجہ تھا کہ ( ن) لیگ کی سابقہ حکومت طویل ترین دھرنے اور پاناما کی آڑ میں ہونے والی جلسے جلوسوں کی منفی سیاست کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کر نے میں کامیاب رہی۔ رواداری اور افہام و تفہیم پر مبنی سیاست کا یہ منظر نامہ اگر دس سال مزید چلتا رہتا تو ملک میں جمہوری و سول بالادستی کا خواب بڑی حد تک پورا ہو چکا ہوتا لیکن تحریک انصاف کی صورت میں لائی گئی تیسری قوت نے بہتری کے سارے امکانات ہی معدوم کر دئیے۔تحریک انصاف نے ایک طرف پہلے دھاندلی اور بعد ازاں پاناما کی آڑ میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو دوسری جانب حکومت میں آکر احتسا ب کے نام پر سیاسی مخالفین کو ایسا رگڑا دیا کہ سیاسی رواداری اور افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی۔ تحریک انصاف اگر حکومت میں آکر سیاسی مخالفین کے احتساب پر سارا زور لگانے کی بجائے معیشت کے استحکام اور ترقی کی کوششیں کرتی رہتی تو اپوزیشن جماعتوں کو عمران حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے عدم اعتماد کے آئینی حق کو استعمال کرنے سے تحریک انصاف نے اپوزیشن جماعتوں سے اپنی مخالفت کو نفرت اور دشمنی میں ایسا بدلا کہ سیاسی عدم رواداری اپنی انتہائوں کو چھوتے ہوئے قتل و غارت تک جا پہنچی ۔
گزشتہ دنوں القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے مشتعل کارکنوں کی جانب سے کور کمانڈر ہائوس سمیت درجنوں سرکاری و پبلک پراپرٹیز کے جلائو گھیرائو او توڑ پھوڑ نے سیاسی جنونیت کی انتہائی صورت کو سب پر عیاں کر دیا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آپس کی نفرت و دشمنی کے شعلے افواج پاکستان تک پہنچ رہے ہیں۔ ہماری سیاست میں اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیے کوئی نئی بات نہیں لیکن ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کی قانون کے مطابق ہونے والی گرفتاری کے ردعمل میں عملی طور پر اپنی توپوں کا رخ اصلی توپ والوں کی طرف کر دیا ہو۔ ہماری سیاسی تاریخ جھوٹے سچے مقدمات میں جیل جانے والے سیاستدانوںسے بھری پڑی ہے۔ بھٹو شہید سے لے کر بے نظیر تک اور نواز شریف سے لے کر مریم نواز تک سب جھوٹے سچے مقدمات میں جیلوں میں گئے۔ زرداری صاحب تین مختلف ادوار میں دس سال سے زیادہ عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے لیکن انہوں نے کبھی گرفتاری سے بچنے کے لیے کارکنوں کو ڈھال بنانے جیسی گھٹیا اور خطرناک روایت قائم نہیں کی۔ عمران خان اپنے دور میں ( ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو بار بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچاتے رہے لیکن اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے نہ صرف وہ کارکنوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے بل کہ انہوں نے جذباتی قسم کے بیانات جاری کر کے کارکنوں کے نزدیک خود کو ’’ ریڈ لائن‘‘ کا درجہ دلوا لیا۔ عمران خان کی گرفتاری پر پارٹی کے مشتعل کارکنوں اور مشتدد عناصر کی جانب سے سامنے آنے والا شدید قسم کا ردعمل اسی’’ ریڈ لائن بیانیے‘‘ کا ہی نتیجہ تھا۔
سقراط کا کہنا تھا کہ برداشت معاشرے کی روح ہوتی ہے، معاشرے میں جب برداشت کم ہو جاتی ہے تو مکالمہ کم ہو جاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہو جاتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔ تلخ حقائق یہ ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں برداشت اور مکالمہ کم ہونے سے اس وقت وحشت عروج پر ہے۔ پہلے سے مذہبی انتہا پسندی و دہشت گردی کے خطرات سے دو چار ملک اور معاشرے میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی سیاسی جنونیت انتہائی سنگین خطرہ ہے۔ سیاست اور جمہوریت میں ’’ میں نہ مانوں ‘‘ یا ’’ میرے سوا کوئی نہیں ‘‘ جیسی ہٹ دھرمی اور بے لچک رویے کارگر نہیں ہوتے۔ سیاست میں سب کی بات سننا پڑتی ہے اور جمہوریت تو ہے ہی مل جل کر چلنے کا نام لیکن بدقسمتی سے عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی دوسروں سے نفرت اور دشمنی پر رکھی۔ سیاسی رہنمائوں کو کارکنوں کے لیے اچھا رول ماڈل ہونا چاہیے ۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے ’’ پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا لیکن عمران خان نے محض گرفتاری کے معاملے پر سیاسی کارکنوں کا ذہنی و جذباتی استحصال کرکے انہیں انتہائی اقدام اٹھانے پر تیار کیا ۔ نیلسن منڈیلا نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’ سیاست دان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے جب کہ لیڈر کے پیش نظر قوم کا مستقبل ہوتا ہے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button