پاکستان کی سیاسی قوتوں کو چین کا مشورہ .. علی حسن

علی حسن
چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے، سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں تاکہ پاکستان معاشی اور داخلی سطح پر ہمارے ساتھ آگے بڑھ سکے۔ ہر معاملے پر آپ کی مدد کرتے رہیں گے، عالمی اقتصادی دبائو کم کرنے کیلئے اسلام آباد کی مدد کرینگے، سی پیک کے تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ، پاکستان کی ترقی عوام کی خوشحالی میں ہے۔ پاکستان کی ترقی استحکام، اور عوام کی خوشحالی میں ہے، کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔ چین کی تشویش اور مشورہ اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ سی پیک کی صورت میں چینی کمپنیوں کا بہت بڑا سرمایہ پاکستان کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر لگا ہوا ہے۔ جس ملک میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہو اور وہاں سیاسی طور پر خلفشار ہو تو دنیا کا کوئی بھی ملک تشویش میں تو ضرور مبتلا ہوگا۔ خود پاکستان کے سرمایہ کار اور سرمایہ دار موجودہ سیاسی صورت حال سے اس لحاظ سے اذیت میں مبتلا ہیں کہ ان کے لگائے ہوئے سرمایہ کا خاطر خواہ منافع نہیں نکل رہا ہے۔ سیاسی رہنمائوں کے علم میں تو ضرور ہوگا کہ پاکستان سے بہت بڑے پیمانے پر تعلیم یافتہ لوگ مختلف ممالک کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔ اور سرمایہ دار اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں۔ جو لوگ با خبر ہیں وہ تشویش میں مبتلا ہیں اور اپنے سرمایہ کو محفوظ بنانے کے لئے بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے مخالف پاکستان تحریک انصاف کے درمیان بد اعتمادی کی خلیج طویل سے طویل ہو رہی ہے۔ جسے ہر حالت اور کسی بھی حالت میں پر ہونا چاہئے ۔ یہ ہی بات تو چین کہہ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ کچھ عناصر پارٹی قیادت اور ساتھ ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو غلط معلومات فراہم کر رہے ہیں تاکہ دونوں کے درمیان خلیج پیدا کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کچھ لوگ انہیں مارنے کی سازش کر رہے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے اہم کھلاڑیوں کو یہ غلط معلومات فراہم کی جا رہی ہیں کہ جیسے ہی عمران خان اقتدار میں آئے تو انہیں عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ دونوں کے درمیان رابطوں کے فقدان کی وجہ سے کچھ عناصر دونوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کیلئے ڈٹ گئے ہیں۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک جوابی بیان میں کہا ہے کہ وہ حکومت اب نہیں آئے گی جس نے چار سال معیشت تباہ، مہنگائی اور بے روزگاری کی۔ وہ حکومت اب نہیں آئے گی جس نے ملک کو خارجہ محاذ پر تنہا کیا، سی پیک بند کیا، ملکی ترقی روکی۔ الیکشن ہو گا لیکن فارن ایجنٹ گھڑی چور اور ٹیریان کا والد سڑکوں پہ روئے گا، چیخے گا اور پیٹے گا۔ فارن فنڈڈ ایجنٹ تم توشہ خانہ ، فارن فنڈنگ اور ٹیریان کیس سے بچنے کیلئے سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہو ۔ اگر پاکستان میں حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم پاکستان میں حکمرانی کرنی ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی فضا کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک کرنا ہوگا۔ الزامات اور جوابی الزامات کی سیاست سے بلند ہو کر معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ ویسے ہی بہت تا خیر ہو چکی ہے۔ حکمران ہوں یا ان کے مخالفین، انہوں نے اب تک کوئی تجویز یا طریقہ کار ، حکمت عملی طے نہیں کی ہے کہ اس ملک پر جو قرضی ہیں وہ کس طرح ادا ہوں گے۔ آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے لئے مذاکرات کئے گئے جو اب تک بے نتیجہ دور ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ آئی ایم ایف سے جو قرضہ ملے گا وہ ترقیاتی کاموں پر لگے گا یا آئی ایم ایف کے قرضے پر سود کی ادائیگی کی جائے گی۔ ایک بڑی اشاعت والے اخبار میں ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے حالات سری لنکا سے بھی بْرے ہو چکے لیکن ہماری لڑائیاں اور ہماری سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مہنگائی میں سری لنکا سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے بلکہ پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے کمزور اور غذائی اشیاء بھی اْس ملک سے مہنگی ہیں جو ڈیفالٹ کر چکا اور جس کی مثالیں دے دے کر ہمارے حکمراں بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دیں گے اور یہ کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 1964کے بعد سب سے زیادہ ہے یعنی مہنگائی نے 58سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ یعنی پاکستان کے معاشی حالات ڈیفالٹ سے پہلے ہی اتنے بْرے ہو چکے ہیں کہ ہم نے سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو پھر اندازہ لگا لیں کہ ہمارے حالات کس قدر تشویش ناک ہو سکتے ہیں۔ مہنگائی جو پہلے ہی بہت زیادہ بڑھ چکی اور عوام کا حال بہت خراب ہو چکا، ڈیفالٹ کی صورت میں یہاں حالات کیسے ہو سکتے ہیں سوچ کر ہی بندہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ توقع تھی کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور تحریک انصاف کے بیچ شروع ہونے والے مذاکرات سے کچھ بہتر نتیجہ نکلے گا لیکن افسوس ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ حکمراں جلد الیکشن کرانے پر تیار نہیں تو تحریک انصاف ستمبر اکتوبر تک انتظار کرنے پر راضی نہیں۔ یہ سیاسی کشمکش دراصل اقتدار کی جنگ ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوام اور پاکستان کے نام پر سیاست کرنے والوں کو معیشت کی کوئی فکر نہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ معیشت پر سب مل کر میثاق کر لیں، اس پر سیاست سے باز رہیں لیکن معیشت کیلئے یہ دونوں فریق کبھی اکٹھے نہیں بیٹھے۔ بیٹھے ہیں تو الیکشن کی تاریخ کیلئے یعنی ایک فریق اقتدار سے کسی بھی حالت میں چمٹا رہنا چاہتا ہے تو دوسرا اْسے باہر نکالنے کے در پے ہے اور جلد از جلد خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا خواہاں ہے۔







