Column

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی اور مولانا شاہ احمد نورانی

حکیم محمد ابراہیم شیخ حیدرآباد

قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی خاندانی نجابت، رعب و وجاہت اور دنیوی اسباب کی فراوانی کے با وصف ’’الولدسرلائبیہ‘‘ کے مصداق والد مبلغ اعظم شاہ عبدالعلیم صدیقی کا پر تو نظر بلند، فکر عمیق اور درد مند دل کے مالک تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رب کریم جب کسی بندے کو کسی عظیم کام کیلئے منتخب کرتا ہے تو اسکو اس کے صفات لازمہ سے بھی آراستہ کرتا ہے، رب کریم نے مولانا شاہ احمد نورانی کو قوم کی پاسبانی کے سارے اوصاف سے متصف کیا تھا، انہیں مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب کا علم تھا۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ علم میں پیچھے رہ جانے سے قوموں کا کس قدر نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے مولانا شاہ احمد نورانی نے سب سے پہلے مسلمانانِ عالم کو علم کی روشنی میں لانے کیلئے مبلغ اعظم سفیر اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی کے عظیم منصوبہ کے تحت کام کا آغاز کیا۔ مساجد و مدارس، اسلامک سینٹر، عصری تعلیمی ادارے، رفاہی مرکز قائم کیا، یہ ادارے عالمی سطح پر اسلام کے وقار و اعتبار میں اضافہ کا سبب بنے۔ تبلیغ و ارشاد کی وجہ سے آپ کی شخصیت بین الاقوامی طور پر مسلم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے یہ کام ورلڈ اسلامک مشن کے نام سے قائم ادارہ سے کیا، اس طرح ایک مبلغ کی حیثیت سے دنیا کی تقریباً بڑی بڑی یونیورسٹی میں لیکچر دیئے۔ جامعہ ازہر، بغداد یونیورسٹی، صدام یونیورسٹی، لیبیا کی یونیورسٹی سمیت دنیا کی کئی یونیورسٹی کے رکن بھی رہے، عراق، ایران جنگ کے خاتمہ کیلئے مصالحت کیلئے اقوام متحدہ کے امن مشن کے رکن بھی رہے۔
قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ایک ہمہ پہلو اور مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے، وہ علماء حق و مشائخ سے بڑے احترام کے ساتھ پیش آتے، ہر شخص کے مرتبہ کو ملحوظ رکھتے اور ہمہ وقت قوم کی فکر میں مستغرق رہتے ہیں۔ اوصاف آپ کی عظمت و سر بلندی کا راز بھی ہے، مشکلات میں صبر و تحمل سے کام لیتے اور انتشار پھیلتا تو اتحاد و امن کی راہ بناتے۔ عزم و حوصلہ توکل علی اللہ اور انابت الی اللہ میں بڑا مقام رکھتے تھے، مشکلات میں بے خوفی کے ساتھ جست لگانا اور مخالفین کو درگزر کرنا، آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔ قوم نے پہلی بار1970ء میں آپ کو ایوان زیریں ( قومی اسمبلی) میں نمائندگی کیلئے کراچی سے منتخب کیا۔ افسوس1970ء کے نتائج کے مطابق اقتدار اکثریت کے حوالے نہیں کیا گیا جس کا ہمیں شدید نقصان ہوا اور اس طرح پہلی بار10 اپریل 1973ء میں کئی مراحل اور اختلافی آرا کے بعد اتفاق رائے سے آئین منظور کیا گیا۔ قائد ملت اسلامیہ نے بحیثیت ممبر آئین ساز کمیٹی دستور میں بنیادی ترامیم کرائیں، آئین میں مسلمان کی تعریف، اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب اور ریاست کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا۔ آئین کی نمایاں خصوصیات میں پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت اور وزیراعظم کو ملک کا سربراہ قرار دیا گیا۔ صدر اور وزیراعظم کا لازمی طور پر مسلمان ہونا، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا جائے، پہلی سے موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق تبدیل کیا جائے گا تاکہ آئین کی رو سے پاکستانی عوام کو مواقع دیا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بسر کریں۔1973ء کا آئین ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اس آئین میں جمہوریت، مساوات، اسلامی معاشرے کے قیام، اقلیتوں کے مساوی سلوک، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی اور آئین میں تحفظ کی شق بھی شامل کی گئی جو ہماری خواہشات اور ترجیحات کے تحت دستور پاکستان1973تشکیل دیا ہے۔ یعنی آئین کی تیاری کے دوران جے یو پی، پیپلز پارٹی کا رول اہم رہا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے آئین کی تیاری میں دن رات ایک کر دیئے تھے۔ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور ولی خان نے بے انتہا کام کیا۔ اس آئین کی تیاری کا کریڈٹ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو جاتا ہے، اس وقت کی سیاسی مذہبی قیادت نے اپنے اختلافات کو بالا طاق رکھتے ہوئے جمہوری سیاست کی پاسداری کی اور اس طرح وفاقی اکائیوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھا ہے، بلاشبہ 1973کا آئین ہمارے لیے ایک امانت ہے جسکی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری میں شامل ہے، بھٹو صدارتی نظام کے حامی تھی لیکن دیگر جماعتوں کا خیال تھا کہ پارلیمانی نظام ہو۔ بھٹو نے جمہوری فیصلہ قبول کیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی کو پاکستانی پارلیمانی تاریخ کے دونوں ایوان کے رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پہلی دستور اسمبلی کے رکن اور دستور بنانے والی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ یہ منفرد اعزاز اب کسی کے حصہ میں نہیں آئے گا۔1973کے آئین میں آپ نے دوسری ترمیم7ستمبر1974کو منظور کرائی جس کے تحت قادیانیوں اور مرزائیوں کو مکمل طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے20ویں عرس مقدس کے موقع پر آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی(2023-1973) کے حوالے سے جشن منایا جارہا ہے اور بانیان آئین کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے عظیم مذہبی، سیاسی جدوجہد کے ساتھ آئین سازی کی، جمہوریت کی بقا کی خاطر جیل کاٹی، کسی بھی طالع آزما جرنیلوں سے ہاتھ نہیں ملایا۔ اس موقع پر پاکستان کے حصول کے لیے جن زعماء اسلاف اور اکابرین نے اپنے اپنے طریقے سے اپنی صلاحیتیں نچھاور کیں، جان قربان کی، ان شہداء کرام کو بھی یاد رکھنا چاہئے بالخصوص قائد ملت اسلامیہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں بھی ان مشاہیر پاکستان کی فہرست میں شامل کرنا چاہئے۔ وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال میں2018ء کے الیکشن کے نتائج کی وجہ سے برسراقتدار ٹولہ نے پارلیمانی نظام کے خلاف منظم سازش کرکے ایک بار پھر سے صدارتی نظام کی راہ ہموار کرکے1973ء کے آئین کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، ایسے میں پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں جمہوری طریقہ سے تبدیلی لاکر حقیقت میں1973ء کے آئین کو بچایا۔ افسوس50سال کے بعد بھی وطن عزیز کے آئینی ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں، حکومت اور اپوزیشن میں اقتدار کی جنگ جاری ہیں۔ پاکستان کے قیام کو76سال اور50سال کے بعد آئین کے تحت کام کرنا ابھی باقی ہے، تمام مشکلات کی بنیادی وجہ وطن عزیز میں نظام مصطفی ﷺ کا عملی نفاذ ہونا ہے۔ اگر آج بھی مولانا شاہ احمد نورانی کے اس ایک نکاتی ایجنڈا نظام مصطفی ﷺ کو شامل کر لیا جائے تو ملک کے تمام مسائل خواہ قانونی ہو یا آئینی ہو با آسانی حل ہوسکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button