Ali HassanColumn

حکومت اور سپریم کورٹ .. علی حسن

علی حسن

سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت کے درمیان جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے، اس کو تجزیہ نگار اپنے اپنے طور پر معنی پہنا رہے ہیں۔ حکومت حامیوں کو سب کچھ بہت اچھا لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ نرم پڑی ہے یا اپنے موقف پر جم نہیں سکی یا حکومت کو مجبور نہیں کر سکی کہ اس کا حکم تسلیم کیا جائے۔ حکومت حامی بغلیں بجا رہے ہیں کہ دیکھا چیف جسٹس کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ حکومت مخالف ساری صورت حال کو اس تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے جس طرح کے اقدامات کئے ہیں وہ ان کی نظر میں قابل تعریف اس لئے نہیں ہیں کہ اس سارے معاملہ میں آئین پاکستان کی کیا حیثیت رہی۔ وہ آئین جس کا پچاس سالہ جشن بھی اس پارلیمنٹ میں 10اپریل کو منایا گیا۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لئے از خود نوٹس لیا تھا۔ اور حکم جاری کیا تھا کہ 14مئی کو انتخابات منعقد کئے جائیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے تمام حربے، تمام اقدامات کئے تاکہ عدلیہ کے فیصلہ پر عمل نہ ہو سکے۔ ابتداء میں انتخابی عمل میں براہ راست مداخلت کی گئی تاکہ عدالت کو قائل کیا جا سکے کہ انتخابات کا انعقاد عملا ممکن نہیں ہے۔ عدالت کہتی رہی کہ انتخابی خرچہ الیکشن کمیشن کو جاری کر دیا جائے لیکن عدالت کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ محکمہ دفاع کے تین بڑے افسران چیف جسٹس کے چیمبر میں پیش ہوئے اور انہیں حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا گیا کہ14مئی کو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ عدالت تاریخ دیتی رہی ۔ عدالت سیاسی جماعتوں کو وقت دیتی رہی کہ آپس میں بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالیں۔ عدالت تو آئین کی پاسداری چاہتی تھی۔ لیکن عدالت کی جانب سے دی گئی سہولت کو طرح طرح کے معنی پہنائے گئے۔ کہا جاتا ہی کہ سچ بولنا بہت اچھا ہوتا ہے لیکن سامنے والا سچ بولے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ اب تک کی آخری پیشی جو 27اپریل کو تھی، میں عدالت نے یہ کہہ کر سماعت ملتوی کر دی کہ عدالت کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں فیصلہ کیا گیا۔ عدالت پر تنقید بھی کی گئی کہ عدالت ہے یا پنچایت۔ ہمارا ایک مسئلہ ہے کہ ہمیں ہر وہ بات اچھی لگتی ہے جو ہمارے حق یا مفاد میں ہو۔ ہم مخالف خیال یا نکتہ نظر سے آگاہی چاہتے ہیں نہیں ہیں۔ ہمیں مخالف نکتہ نظر سنتے ہوئے الجھن ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کی شہباز حکومت نے قومی اسمبلی کو بھی چیف جسٹس کے فیصلوں میں رکاوٹ کے لئے بار بار استعمال کیا۔ صرف پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کی بات ہے۔ اگر فرض کا لیا جائے کہ حکومت سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں انتخابات کو اپنے لئے نقصان دہ تصور کرتی ہے تو ایسی کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی کہ آئندہ چار، پانچ یا چھ ماہ میں حالات حکومت کے حق میں تبدیل ہو جائیں اور پنجاب کا ووٹر عمران خان سے متنفر ہو جائے۔ نفرت ایک ایسا نفسیاتی عمل ہوتا ہے جو راتوں رات یا مہینوں میں تبدیل نہیں ہوتا ہے۔ عمران سے مرعوب ہونا ایک طرف رہا لیکن عوام حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔ اسی کا خمیازہ حکومت بھگت رہی ہے۔ چیف جسٹس اور عدلیہ کے بارے میں مختلف افسوس ناک آرا کا اظہار کیا گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب عیدالفطر کی تعطیلات کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خوش دامن اور ان کی دوست جو خود ایک بڑے وکیل کی زوجہ ہیں، کے درمیان ہونے والی گفتگو لیک کی گئی۔ اس کے بعد ایک اور انتہائی حساس معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا۔ اس کے بعد چیف جسٹس کی ان کی زوجہ اور خوش دامن اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ ایک پرانی تصویر سوشل میڈیا پر نمودار ہوئی۔ اس کے ساتھ ایک صاحب کا ایک چھوٹا سا مضمون بھی لکھا ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے ’’ عمر عطاء بندیال کی ساس کا پورا نام مہہ جبین نون ہے اور بیگم کا نام نوین نون ہے۔ ان کا تعلق بھی نور پور نون سرگودھا سے ہی ہے ۔ یہ نور پور نون بھی سرگودھا کا ہی قصبہ ہے۔ چلیں، آپ کو ایک اور مزے کی بات بتاتے ہیں عمران خان اور بزدار کے دور حکومت میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کے چیئرمین کا نام تھا امجد علی نون۔ جی یہ وہی امجد علی نون ہے کہ جس پر کروڑوں کی کرپشن کا الزام ہے۔ مگر یہاں خاص بات یہ ہے کہ امجد علی نون کی گھر والی بندیال کی سگی بہن ہے مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آگے چل کر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امجد علی نون سرگودھا کے قصبے کے باسی انور علی نون کا فرزند ارجمند ہے اور انور علی نون فیروز خان نون کا فرسٹ کزن ہے۔ سابق وزیر اعظم فیروز خان نون ( قادیانی) کا تعلق کس مذہبی اقلیت سے تھا؟ آپ خود تحقیق فرما لیں۔ یہ سب کچھ چیف جسٹس بندیال کو ایک خطر ناک دفاعی صورت حال میں ڈالنے کا عمل ہے۔ ایک مخصوص حلقے نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے بارے میں بھی سوشل میڈیا ہر اسی طرح کا الزام عائد کیا تھا، جس پر ان کے والد کی قبر کا کتبہ شائع کرایا گیا تاکہ کلمہ طیبہ نظر آئے۔ جب وہ آرمی ہائوس میں منتقل ہوئے تو ان کے اہل خانہ نے میلاد شریف کا اہتمام کرایا تھا۔ یہ سن کچھ اس لئے کیا گیا کہ الزام کو دھویا جا سکے اور ثابت کیا جاسکے کہ وہ قادیانی نہیں ہیں۔ قادیانی ہونے کا الزام بمشکل تمام قابل ہضم ہے۔ بڑے بڑے اس الزام کی سولی کا شکار ہونے سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ قیاس کرنا کہ جسٹس بندیال خوف زدہ ہو گئے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے دئیے گئے فیصلے پر عمل در آمد کے لئے تحمکانہ دبائو نہیں ڈالا۔ معروف کالم نویس ایاز امیر نے اپنے تازہ کام میں تحریر کیا ہے ’’ اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم تب چلتا ہے جب باقی سارے ادارے اْس کے ساتھ ہوں۔ سپریم کورٹ کے پاس قلم ہے، مشین گنیں اور توپیں نہیں۔ اگلے بات نہ مانیں’ جیسے نہیں مان رہے‘ تو آپ کا قلم کس کام کا؟ بھلے آپ کہتے رہیں کہ آئین کی پاسداری نہ کی گئی تو نتائج بڑے بھیانک ہوں گے‘‘۔ فیصلہ پر عمل کرنے کے ذمہ داران یقین رکھتے ہیں کہ ان کچھ نہیں بگڑے گا۔ قومی اسمبلی سے قراردادیں منظور کرانا مسئلہ کو الجھانے کے برابر ہے۔ بھٹو دور میں قانون بنایا گیا کہ بیرون ملک سے وکیل کی خدمات حاصل نہیں کیا سکتی ہیں۔ یہ قانون عوام نیشن پارٹی المعروف ولی خان اور ساتھیوں کو بیرون ملک ان لوگوں کے خلاف بغاوت کے مقدمہ میں کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے روکنا تھا۔ جب بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چل رہا تھا تو پیپلز پارٹی بیرون ملک سے وکیل لانا چاہتی تھی لیکن یہ ہی قانون آڑے آ گیا۔ ماضی میں بھی عدلیہ اور حکومتوں کے درمیان مختلف معاملات پر رسہ کشی رہی ہے۔ بھٹو دور حکومت میں اہل اقتدار عدالتوں سے اکثر خائف رہا کرتے تھے۔ عدالتیں حکومت کے مطعون افراد کو ضمانتیں منظور کر لیتی تھیں جو بھٹو حکومت کے لئے پسندیدہ قدم نہیں ہوتا تھا۔ جسٹس طفیل علی عبدالرحمان سندھ ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ہوا کرتے تھے۔ انہیں پیغامات بھیجے گئے کہ باز آجائیں ، اپنی مداخلت بند کریں۔ عبدالحفیظ پیرزادہ وفاقی وزیر قانون ہوا کرتے تھے۔ انہیں کچھ کرنے کا حکم ہوا۔ جسٹس کے سر خم تسلیم نہ کرنے پر ان کے گھر کے راستے کی سڑک کھدوا دی گئی۔ انہیں اپنی کار سے اتر کر آدھے میل سے زیادہ راستہ پیدل چل کر گھر پہنچنا ہوتا تھا۔ پنجاب حکومت چودھری ظہور الٰہی کو گرفتار کرنا چاہتی تھی وہ آدھی رات لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق کے گھر پہنچ گئے۔ مولوی صاحب نے اسی وقت عدالت لگائی اور چودھری صاحب کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی۔ جسٹس ایم آر کیانی اپنے دور جو سابق مغربی پاکستان کا دور تھا، کے چیف جسٹس تھے۔ اس وقت کی حکومت کو بھی ان سے یہ ہی شکایت رہا کرتی تھی کہ وہ حکومت کو مطلوب افراد کی قبل از وقت ضمانتیں منظور کر لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو یہاں تک ہوا کہ کسی تقریب میں اس وقت کی حکومت کے ایک وزیر نے جسٹس کیانی سے زیر لب کہا کہ ضمانت دینے میں جلدی نہیں کیا کریں، جواب میں جسٹس کیانی نے کہا کہ آپ ( حکومت ) مقدمہ درج نہ کیا کریں تو ایسا نہیں ہوگا۔ اس تماش گاہ میں ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں یہ آئین ہی حکومت کے لئے ایسا مسئلہ ہوجائے کہ جو گانٹھ ہاتھ سے لگائی گئی تھی، اسے دانتوں سے کھولنا پڑ رہا ہو۔ کوئی آئینی بحران جنم لیتا ہوا حکومت کے کرتا دھرتائوں کو نظر نہ آرہا ہو۔

جواب دیں

Back to top button