
سی ایم رضوان
گو کہ سیاسی جماعتوں اور اشرافیہ کے مسائل اس وقت طاقت اور اقتدار کی بندر بانٹ کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں لیکن عوام کا مسئلہ آئین، قانون اور الیکشن نہیں بلکہ بھوک، پٹرول کے پیسے، ٹرانسپورٹ کا کرایہ اور مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مستقل مسائل ہیں۔ چاہئے تو یہ کہ حکومت ان مسائل کے ترجیحی حل کے لئے کوئی قابل عمل پلان دے مگر وہ بھی طاقت ور حلقوں کو مخصوص پیغام دینے اور خراب تر حالات دکھانے کے لئے عوام کے مسائل سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات اس وقت پورے ملک کے لئے نزع کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان اسمبلیوں کو بلاوجہ توڑنا بھی تو ایک آئینی جرم ہے مگر تمام سٹیک ہولڈرز اس غیر آئینی و غیر جمہوری عمل کے مجرم کو سزا دینے کی بجائے اس مجرم کی اگلی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی کام کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ بھی اس ٹارگٹ کے لئے استعمال کی جا رہی ہے کہ انتخابات نوے روز میں ہونے چاہئیں لیکن اس نقطے پر غور نہیں کیا جا رہا کہ یہ اسمبلیاں توڑنا بھی ایک جرم تھا اور بمطابق آئین اس کی سزا کا تعین کرنے کی بجائے اس غیر آئینی اقدام کے نتیجے میں دوبارہ انتخابات کے لئے اکیس ارب روپے مزید مختص کرنے کے معاملے پر سارا ملک تماشا بنا ہوا ہے اور ایک نووارد سیاسی مداری گر چند سو لوگوں کو ساتھ ملا کر روزانہ کی بنیاد پر اس تماشے کو نت نئے رنگوں میں پیش کر رہا ہے۔ انتہائی احمقانہ انداز میں پورے ملک میں سوال ایک ہی کیا جا رہا ہے کہ آئین کے مطابق انتخابات کیوں نہیں ہو رہے؟ حالانکہ آئین کے مطابق یہ بھی تو پوچھنا لازمی ہے کہ یہ اسمبلیاں کس آئینی ضرورت اور مجبوری کے تحت توڑ کر دونوں صوبوں کے کروڑوں لوگوں کے حقوق اور ووٹ کا تقدس پامال کیا گیا؟ کیونکہ یہ موزوں سوال کوئی پوچھ نہیں رہا اس لئے پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کا اصرار ہے کہ دونوں گورنر اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آرٹیکل (3)105کے تحت تاریخ دینے کے پابند ہیں۔ اس غیر آئینی تماشے میں پورے کا پورا ملک ہی شدید مہنگائی، بے انتہا بیروزگاری اور بدامنی کا شکار ہے۔ دوسری طرف ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی عرصہ دراز سے جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ جرائم روکنے میں کراچی پولیس ناکام ہوچکی ہے، کراچی میں ڈکیتیوں کے دوران شہریوں کو دن دیہاڑے مارا جا رہا ہے۔ جنوری 2023کے آغاز پر ہی ایک درجن سے زائد شہریوں کو ڈاکوں نے قتل کردیا تھا۔ جبکہ ان دنوں کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی اجارہ داری کی وجہ سے ملک کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ اغوا، قتل اور ڈکیتیاں ہیں جو باقی ملک کی نسبت یہاں سب سے زیادہ ہیں اور کوئی شہری محفوظ نہیں۔ دوسری جانب تمام پاکستانی بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی مستقل طور پر پریشان ہیں اور یہ تینوں اہم مسائل سندھ اور ملحقہ علاقوں کے عوام کا جینا دوبھر کئے ہوئے ہیں۔ ساڑھے نو سال تک پی ٹی آئی کی حکمرانی میں رہنے والا صوبہ خیبر پختونخوا دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہے جہاں انتہا یہ ہے کہ چند ہفتے قبل ایک دہشت گرد پشاور پولیس لائن مسجد میں داخل ہوا، جسے کسی نے چیک نہیں کیا اور وہ مسجد میں خود کو اڑانے میں کامیاب ہوگیا جس سے ایک سو سے زیادہ نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ موجودہ صوبائی نگران حکومت کے آتے ہی یہ ہولناک دہشت گردی ہوئی جو سابقہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں ہونے والے آرمی پبلک سکول کے المناک واقعہ سے کم نہیں تھی۔ دہشت گردی کے دیگر واقعات بھی تواتر کے ساتھ کے پی کے میں ہوتے رہے ہیں۔ صوبے میں جاری یہ دہشت گردی پہلے سے موجود مہنگائی و بیروزگاری جیسے مسائل کو اور زیادہ سنگین کر رہی ہے جبکہ بلوچستان تو پہلے ہی مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے۔ بلوچستان کے وہ اضلاع جو سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے ان علاقوں کے متاثرین بڑی تعداد میں اب تک بے گھر ہیں، یہاں بھی لوگ مہنگائی و بیروزگاری کے ساتھ دہشت گردی اور قدرتی آفات سے انتہائی پریشان ہیں۔ سندھ کے اندرونی اضلاع میں سیلاب و بارشوں سے جو تباہی ہوئی تھی چھ ماہ گزر جانے کے بعد بھی متاثرین کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوا، متاثرہ اضلاع میں ہزاروں افراد بے گھر، کروڑوں روپے کی فصلیں تباہ، ہزاروں گھر اب بھی برباد اور رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ متاثرہ لوگوں نے سردیاں جیسے گزاریں وہ ہی جانتے ہیں جب کہ اندرون سندھ کے لوگ بھی پہلے سے مستقل طور پر موجود مہنگائی و بیروزگاری کے ساتھ ساتھ بجلی و گیس کے مسائل بھی بھگت رہے ہیں۔ پنجاب میں ساڑھے تین سال تک پی ٹی آئی کی حکومت رہی۔ یہ صوبہ قدرتی آفات سے تو تقریباً محفوظ ہے مگر مستقل طور پر مہنگائی و بیروزگاری سے دوچار ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صوبہ کسی حد تک دہشت گردی سے تو محفوظ رہا مگر یہاں پی ٹی آئی دور حکومت میں مالی دہشت گردی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے یہاں اقتدار میں آنے والی صاف، شفاف حکومت کے وسیم اکرم پلس نے اپنوں کو دل کھول کر نوازا۔ پنجاب میں نگران حکومت آنے کے بعد سابقہ حکومت کے کرپشن، گڈ گورننس نہ ہونے کے نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں۔ جہاں تک وفاق کی بات ہے، وہاں بھی پی ٹی آئی حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں جو کرپشن بڑھی، اس کے پول عالمی ادارے کھول چکے ہیں اور آئی ایم ایف کے ذریعے ملک کی جو بد ترین معاشی حالت کی گئی اسی کی وجہ سے آج ملک بھر میں مہنگائی و بیروزگاری کا راج ہے، یہ تحائف بھی عمران خان کی وفاقی حکومت میں ملے جو اب پورا ملک بھگت رہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان جب سے اقتدار سے نکالے گئے ہیں انہیں اور پی ٹی آئی کو ملک و قوم کو درپیش کوئی ایک مسئلہ بھی اہم نظر نہیں آرہا۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی شدید ضرورت صرف قبل از وقت عام انتخابات ہیں اور وہ عام انتخابات کے فوری انعقاد کو تمام تر مسائل کا واحد حل سمجھ رہے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک اس وقت ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہے جب کہ اتحادی حکومت کے قریب وہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واضح طور پر عمران خان اور ان کے ساتھی ملک کو ڈیفالٹ کرانے، آئی ایم ایف سے مذاکرات ناکام بنانے اور وطن عزیز میں مکمل طور پر معاشی تباہی کے لئے دن رات کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر ریکارڈ مہنگا ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں ملک کے عوام مہنگائی و بیروزگاری کا شکار ہیں مگر عمران خان کو ایسے حالات میں عام انتخابات کی جلدی ہے۔ ان کے خیال میں اگلے چند ماہ میں ہونے والی بڑی تقرری کے بعد انہیں انتخابات کا فائدہ نہیں الٹا نقصان ہو گا۔ کیونکہ ریکارڈ گواہ ہے کہ جب سے انہوں نے سیاست کی پچ پر کھیلنا شروع کیا ہے وہ اپنے ایمپائرز کے بغیر بلے کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ پی ٹی آئی کے نزدیک لوگوں کا اہم مسئلہ جلد انتخابات جب کہ حکومت اور اس کے حمایتی تجزیہ کاروں کے نزدیک لوگوں کا اہم مسئلہ بھوک، افلاس، مہنگائی و بیروزگاری اور بدترین معاشی حالات ہیں۔ ان حالات نے ملکی سلامتی تک کو دا پر لگا دیا ہے۔ اقتدار کے لئے عمران خان کی بے تابی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب کے پی کے مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو گورنر کے پی کے مطابق حکومت لاشیں اٹھاتی رہی اور پی ٹی آئی عدالت سے جلد سے جلد عام انتخابات مانگتی رہی۔ کیونکہ عمران خان کو عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں وہ تو جلد وزیراعظم بننے کے لئے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تڑوا کر اور قومی اسمبلی چھوڑ کر اپنے اگلے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے دہشت گردی کے لئے بلائی گئی حکومت کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ شاید ان کے لئے پی ٹی آئی کے چند رہنمائوں کی گرفتاری اور خود عمران خان پر مقدمات دہشت گردی سے زیادہ اہم ہیں جن سے بچائو جلد انتخابات کے بعد ان کی حکومت بننے سے ہی ممکن ہے، خواہ ملک ڈیفالٹ ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن انہیں صرف اقتدار چاہیے۔ اب بھی حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کے متعلق شنید ہے کہ یہ عمران خان کی خواہش پر نہیں ہو رہے بلکہ ان کے چند ایک ایکٹرز وقت گزاری کے لئے طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ افسوس کہ کہ اپوزیشن اور حکومت سمیت کسی بااختیار کو یہ خیال نہیں آرہا کہ وہ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عذاب مستقل سے عوام کی گلو خلاصی کیسے اور کیونکر کروا سکتے ہیں۔







