آزادی صحافت، پاکستان مزید خطرناک

محمد ناصر شریف
ایک کہاوت ہے کہ معلومات میں طاقت ہے اور صحافی آپ کو وہ طاقت دیتا ہے، 1993میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں ہر سال 3مئی کو آزادی صحافت کا دن منایاجاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی آج 3مئی آزادی صحافت کا عالمی دن ورلڈ پریس فریڈم ڈےکے طور پر منایا جارہا ہے۔اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافتی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز،ریلیوں اور مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جائے گا۔ آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کا مقصد پیشہ ورانہ فرائض کی بجا آوری کیلئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مشکلات ، مسائل،دھمکی آمیز رویہ اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا،آزادی صحافت کے بنیادی اصولوں پر اعتماد کا اظہار اور تشہیر ،دنیا میں آزادی صحافت کی موجودہ صورتحال، آزادی صحافت پر حملوں سے بچائو اور صحافتی فرائض کے دوران قتل، زخمی یا متاثر ہونے والے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہیاس کے باوجود اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں، سال 2022 میں پاکستان میں صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور مختلف میڈیا تنظیموں پر حملوں اور انہیں دھمکیاں دینے کے واقعات مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان 63 فیصد بڑھ کر 140 ہوگئے جو 22-2021 میں 86 تھے۔ فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ میں زیر جائزہ مدت کے دوران پاکستان میں کم از کم 5 صحافیوں کے قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔پاکستان میں صحافیوں کے خلاف حملوں اور دھمکیوں میں 60 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ11 مہینے میں صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے 140 واقعات ہوئے۔جو کہ ہر ماہ اوسطاً 13 کیسز ریکارڈ کئے گئے۔اسلام آباد کو پاکستان میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 40 فیصد خلاف ورزیاں ( کل 140 کیسز میں سے 56) اسی شہر میں ریکارڈ کی گئیں۔ پنجاب 25 فیصد خلاف ورزیوں(35کیسز) کے ساتھ دوسرے اور سندھ 23 فیصد ( 32 کیسز) کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جو اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ ہر سال پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں اور صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے ان واقعات کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لئے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت پر حملے معلومات تک رسائی کے عمل کو روکتا ہے خصوصاً جب سیاسی اور اقتصادی بحران میں عوام کو درست معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔اقبال خٹک نے کہا کہ پاکستان ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں سال 2021 میں صحافیوں کے تحفظ کے بارے میں قانون سازی کی گئی مگر ڈیڑھ سال بعد بھی وفاق اور سند ھ میں مذکورہ قانون پر عمل درآمد ہوسکا نہ ہی کسی ایک صحافی کی بھی مدد کی گئی جس کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر حملوں کے 51کیسز ریکارڈ کئے گئے جن میں 21 حملوں میں صحافیوں کے آلات، ان کے گھروں یا دفاتر کو نقصان پہنچا، قتل کی دھمکیوں سمیت آن لائن یا آف لائن دھمکیوں کے 14کیسز ریکارڈ کئے گئے۔ رواں سال کے دوران سب سے زیادہ پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں 26صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا جبکہ ڈیجیٹل میڈیا کے 15صحافیوں کو دھمکیاں دی گئی۔ علاوہ ازیں خواتین میڈیا پروفیشنلز بشمول ایک خواجہ سرا خاتون صحافی سمیت 8خواتین صحافیوں اور میڈیا پرفیشنلز کو بھی نشانہ بنایا گیا جن میں ایک خاتون صحافی کو سیاسی جلسے کی کوریج کے دوران مارا گیا۔ مبینہ طور پر میڈیا کو نشانہ بنانے والے سب سے بڑے سنگل سورس تھریٹ سیاسی جماعتیں تھیں، جن پر 140 واقعات میں سے 21 فیصد میں متاثرہ صحافیوں یا ان کے اہل خانہ کو شبہ تھا۔یکساں طور پر ریاستی اہلکار دوسرے نمبر پر تھے، جن میں کل کیسز میں سے 19 فیصد میں مشتبہ ملوث تھے۔ باقی دو اہم خطرے ملٹی سورس اور دیگر نجی افراد تھے جن سے 27 فیصد کیسز منسوب تھے اور 24 فیصد کیسز کے ساتھ ملٹی سورس ’’ نامعلوم‘‘تھے۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے اداروں بالخصوص پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافی اور دیگر کارکن اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، عامل صحافیوں و دیگر میڈیا ورکرز کے حالات کار اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے بین الاقوامی اور ملکی قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے، 2018ء کے بعد سے ہزاروں صحافی اور دیگر کارکن بے روزگار کر دئیے گئے ہیں، تاہم جو برسر روزگار ہیں، ان کی قلیل تعداد ہی ریگولر ملازم ہے، جو وقتاً فوقتاً ریٹائرمنٹ کے سبب بتدریج کم ہوتے جارہے ہیں، بیشتر ملازمین کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں، جن کی اکثریت کے پاس تقرر نامے ہیں نہ وقت پر انہیں تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں، وہ قریباً 10سال پرانی تنخواہوں پر کام کرنے کے لیے مجبور ہیں، جنہیں علاج کی سہولت تک میسر نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے ذرائع ابلاغ کے اداروں میں کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ سسٹم ختم کرکے تمام ملازمین کو ریگولر کیا جائے، ان کے حالات کار بہتر بنائے جائیں، مہنگاءی کے تناسب سے تنخواہیں مقرر اور وقت پر ادا کی جائیں اور انہیں بے روزگار کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔دنیا کو معلومات و اطلاعات سے آگاہی فراہم کرنے والوں کو خود بھی اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہی کی ضرورت ہے۔ انہیں سوشل میڈیا کے اس پرفتن دور میں جہاں غلط معلومات کی فراہمی ایک عام چلن بن چکا ہے میں مستند معلومات فراہم کرنے کیلئے مزید محنت کرنی ہوگی۔ اِس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میں بہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔ لیکن ایک مقدس پیشے کی آبیاری کے لیے اہل صحافت کو بڑی محنت کرتے ہوئے اپنے اسلاف کی قربانیوں کا امین بننا ہوگا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ 2نومبر 2022کو اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں کیے گئے اپنے وعدے کو فوری طور پر پورا کریں، سیفٹی کمیشن کو فعال ، صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔سندھ حکومت بھی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ دیگر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021کے تحت اپنے صوبائی سیفٹی کمیشن کو وسائل سے آراستہ کرنا چاہیے کیونکہ ممتاز قانون دان رشید اے رضوی کی سربراہی میں کمیشن صحافیوں کی مدد کر سکتا ہے ۔







