ColumnImtiaz Aasi

مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابات کے انعقاد پر بات چیت کا آج آخری دور ہوگا۔ فریقین کے مابین بات چیت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار سیاست دانوں کی سیاسی بصیرت پر ہے آیا وہ ملک سے سیاسی بحران کے خاتمے میں کس حد تک مخلص ہیں۔ سیاسی جماعتیں ملک سے انتشار کا خاتمہ چاہیں تو یہ با ت مشکل نہیں لیکن اقتدار کے حصول نے سیاست دانوں کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ عمران خان بجٹ سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کے خواہاں ہیں جب کہ حکومت بجٹ کے بعد اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے پرعزم ہے۔ عجیب تماشا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات جاری ہیں عمران خان اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف بیانات پر بیانات دئیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ فریقین کے درمیان جب مذاکرات ہو رہے ہیں تو دونوں فریقوں کو بیان بازی سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ دونوں اطراف سے بیانات نے ماحول میں ارتعاش پید ا کر دیا ہے۔ البتہ یہ بات طے ہے انتخابات جب بھی ہوں عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دیا جائے گا جس کے بعد ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران جنم لے گا۔ جہاں تک مقبولیت کی بات ہے عمران خان کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد کھڑی ہے۔ گو مقتدرہ نے سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنے کا عندیہ دیا ہے تاہم مقتدرہ کی مرضی کے بغیر حکومت کی باگ دور کسی جماعت کو نہیں ملے گی۔ تعجب ہے حکومت کی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر رضامند ہیں لیکن پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی سے مذاکرات کے انکاری ہیں۔ اے این پی نے اسلام آباد میں اے پی سے بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کی شرکت کی صورت میں اے پی سے میں شریک ہونے سے معذرت کر لی ہے۔ درحقیقت حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات وقت گزاری ہے ورنہ سیاسی جماعتیں ملک و قوم سے مخلص ہوں تو کوئی وجہ نہیں موجودہ سیاسی بحران کا خاتمہ نہ ہو سکے ۔اگرچہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی مولانا کو منانے کے لئے متحرک ہیں اس کے باجود مولانا کی رضامندی کا بہت کم امکان ہے۔ تحریک انصاف نے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کے سنیئر رہنما فواد چودھری کا اعلان ہے پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک تاریخی ہو گی۔ گزشتہ روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے زمان پارک میں پارٹی ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے آئین کی حفاظت پوری قوم کی ذمہ داری ہے آئین ختم ہو گیا تو طاقت ور جو چاہے کرتا پھر ے گا۔ اس موقع پر انہوں نے پیغمبر اسلام نبیؐ کے اس ارشاد کو حوالہ دیتے ہوئے کہا جس میں نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا عوام جنہیں منتخب کریں وہی ملک پر حکمرانی کے حقدار ہیں۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے افسوس ظاہر کیا جب سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کو بحال کیا تو حکومت نے عدلیہ کے فیصلے کو صدق دل سے قبول کیا جب انہی ججوں نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ عدلیہ کے خلاف ہو گئے جو سیاست دانوں کے دوہرے معیار کا مظہر ہے۔ حیرت ہے ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل جاری ہے اس دوران وہ عناصر جو مذاکراتی عمل کے مخالف ہیں انہی کی ایماء پر چودھری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر حملہ کرکے مذاکراتی عمل کو سبو تاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ گو وفاقی حکومت پرویز الہی کے گھر پر اینٹی کرپشن کے چھاپے کی پیشگی خبر سے انکاری ہے تاہم بعض ذمہ دار حلقوں کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیراعظم کے مشیر عطاء اللہ تارڑ کوسارے معاملے کی پہلے سے خبر تھی۔ مذاکراتی عمل میں پیپلز پارٹی کا کردار بہت مثبت رہا ہے پیپلز پارٹی سیاسی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی حامی رہی ہے ۔ اینٹی کرپشن کی تاریخ گواہ ہے جب کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو اینٹی کرپشن والے کسی کو گرفتار کرنے نہیں جاتے بلکہ وہ ملزمان کو از خود ضمانت کا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ ضمانت منسوخ ہونے کی صورت میں ملزمان کی گرفتار ی میں آسانی ہو۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے اینٹی کرپشن مقدمات میں کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا گیا ہے کہ اتنی بڑی پولیس فورس کے ساتھ کسی ملزم کی گرفتاری کے لئے اینٹی کرپشن نے ریڈ کیا ہو۔ اینٹی کرپشن کی کارکردگی کا یہ عالم ہے ان کے درج مقدمات میں خال خال ملزمان سزا ہوتے ہیں بلکہ زیادہ تر عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں لہذا پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر بکتر بند گاڑی اور ایک بڑی فورس کے ساتھ ریڈ ایک سوچی سمجھی سکیم تھی۔ اب سوال رہا ہے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اگر دونوں فریق سیاسی بحران کا خاتمہ چاہیں تو ایک صورت نکل سکتی ہے حکومت بجٹ کا اعلان ماہ رواں میں کر دے اور اگست میں انتخابات کا اعلان کر دے تو موجودہ سیاسی بحران ختم ہو سکتا ہے ورنہ تو جیسا کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے سنیئر رہنما فواد چودھری نے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ہمارا ملک پہلے سے معاشی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے اس میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ اب یہ سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے وہ ملک سے سیاسی بحران کا خاتمہ چاہتی ہیں یا ملک کو انارکی کی طرف لے جانا چاہتی ہیں۔ فریقین میں مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں کسی فریق کی ہار اور نہ کسی کی جیت ہوگی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی کامیابی ہوگی۔ مذاکرات کی کامیابی کے لئے سیاسی جماعتوں کو ذاتی خول سے نکل کر ملک و قوم کی بھلائی کو ترجیح دینی ہوگی ۔ حکومت نے ستمبر میں الیکشن کرانے پر رضامندی ظاہر کی ہے اگر ایک ماہ اور پہلے الیکشن کرانے پر رضامند ہو جائے تو سیاسی بحران کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button