Column

مزدور، محنت کش اور یوم مئی

چودھری فہیم ارشد

آج کل مملکت خداداد پاکستان میں آئین و قانون کی پاسداری اور1973ء کے دستور کی گولڈن جوبلی کے سائے میں اداروں کی ایک دوسرے کے ساتھ مڈبھیڑ اور ایک دوسرے پر اختیارات سے تجاوز و اپنے اپنے دائرے میں رہنے کی تلقین کا دور دورہ ہے، ایسے میں کسی کو یوم مزدور کہاں یاد رہے گا۔ آئین پاکستان کی متعدد بنیادی شقیں محنت کش و مزدور کے حقوق کی بابت وضاحت کرتی ہیں جیسا کہ مناسب اجرت، کام کی تلاش و شعبے کے انتخاب کی آزادی، جبری و چائلڈ لیبر کی ممانعت، خواتین کے لیے مناسب ماحول، انتظام و احترام وغیرہ لیکن موجودہ حالات میں جہاں ملکی معیشت زوال پذیر ہے وہاں صنعت کا پہیہ بھی جام ہوتا جارہا ہے۔ جب مزدوری نہیں ہے تو کہاں کے حقوق؟ اس ملک میں مزدوروں کے تو برے حالات ہیں ہی لیکن لوئر مڈل کلاس، تکنیکی افراد، پڑھے لکھے نوجوان یعنی قوم کے دماغ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ امسال پاسپورٹ بنوانے اور ملک چھوڑنے کا تناسب گزشتہ کئی دہائیوں سے زیادہ ہے۔ لوگ کسی بھی حال میں ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے دبئی میں ایک رہائشی عمارت میں آگ لگنے سے ایک ہی خاندان کے تین چشم و چراغ جان کی بازی ہار گئے۔ ملکی حالات سے مایوس ہوکر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک منتقلی آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ اپنا گھر بار، عزیز رشتے دار خاص طور پر ماں باپ، بیوی بچوں کو چھوڑ کر پردیس میں محنت مزدوری کرنا مجبوری کہلاتی ہے انتخاب نہیں۔ یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جو ان حالات سے گزرا ہو یا گزر رہا ہو۔ پردیس میں جب کسی پیارے کی وفات کی اطلاع پہنچتی ہے تو بندے کا دل رک سا جاتا ہے اور اس کا بس نہیں چلتا کہ اڑ کر اپنے وطن واپس پہنچ جائے لیکن وقت اس بندے کے لیے انتہائی بے رحم ہوجاتا ہے اور سسکیوں، آہوں میں فلائٹ بکنگ و دیگر ضروری امور میں مصروف رہتا ہے لیکن اس ساری تگ و دو کے باوجود شاذ و نادر ہی اتنا خوش قسمت ہوتا ہے کہ اپنے پیارے کا آخری دیدار کر سکے لیکن دوسری طرف اگر پردیس میں کوئی اللہ کو پیارا ہوجائے تو وطن میں اس کا پورا خاندان کرب و الم کے اس دور سے گزرتا ہے اس کا اندازہ ہم اور آپ نہیں کر سکتے۔ یوم مئی کے حوالے سے لکھنے بیٹھا تو بار بار میرے ذہن میں تین خوبصورت وجیہہ نوجوانوں کی تصاویر گھوم رہی ہیں جو آپس میں بھائی اور کزن تھے۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے، بہتر مستقبل اور پیسہ کمانے کی غرض سے دبئی گئے۔ ان میں سے ایک تو بوڑھے ماں باپ اور یتیم بھتیجوں کا اکلوتا کمانے والا تھا۔ ان کے گھر کے کہرام کی کیفیت ہم کبھی بھی نہیں سمجھ سکتے۔ یہ واقعہ تو چلیں بلڈنگ کے مالک کی غفلت، ڈیزائن کی خرابی، بجلی کا نظام یا کسی اور تکنیکی خرابی کے ذمے ڈال سکتے ہیں لیکن بیرون ملک کام کرنے والے مزدوروں کا حقیقت میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے لیے تعمیرات کے دوران جو کچھ مزدوروں کے ساتھ ہوتا رہا وہ بہت کم میڈیا کی زینت بنا، کئی کہانیاں، دُر گھٹنائیں ویسے ہی دبا دی گئیں۔ اب کرتے ہیں اپنے وطن عزیز کی بات تو بات حد سے گزر چکی ہے بلکہ یوں کہیے کہ پانی پلوں پر سے گزر چکا ہے، مزدور کی حالت دگرگوں ہے، انڈسٹری بند ہوتی جارہی ہے، مزدور بے چارہ سڑک پر آچکا ہے جس کے نتیجے میں گلی محلوں میں مانگنے والوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ ہماری اشرافیہ کو اپنے حقوق اور اداروں کے اختیارات کی فکر ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 1977ء کے بعد ہماری پارلیمنٹ میں لیبر پالیسی پر کوئی بحث نہیں کی گئی لیکن یکم مئی یوم مزدور منا کر حق ادا کر دیا جاتا ہے۔ آج کا مزدور سڑک کنارے بیٹھا روزگار کی تلاش میں ہے، اسے مزدوری نہیں ملتی، اسے سر چھپانے کے لیے حکومتی پناہ گاہ بھی میسر نہیں۔ یوم مزدور پر نہ اسے چھٹی ہے اور نہ اس کے لیے کوئی روزگار۔ سونے پے سہاگہ تو یہ ہے کہ بے چارہ مزدور طبقہ اپنے حقوق سے بھی ناواقف ہے۔ آج غریب مزدور و محنت کش کی حالت زار ہی اس حقیقت کی ترجمانی کر رہی ہے کہ یو م مزدور منا کر اس کی محرومی و غریبی کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت مزدوری کی شرح 57.2 ملین ہے جس میں43 فیصد زراعت سے،20فیصد صنعتی شعبے میں اور 36فیصد مختلف شعبوں میں مزدوری کر رہے ہیں جبکہ گھروں، ہوٹلوں، بھٹوں پر کام کرنے والوں کے بارے میں قابل اعتبار رپورٹ موجود نہیں ہے۔ سڑکوں پر اشیاء فروخت کرنے والے اور گلی محلوں میں مختلف سامان فروخت کرنے والے ، گھروں میں کام کرنے والے بچے یا ماسیاں اس کے علاوہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک کی بیشتر خواتین یا تو گھروں میں کام کرتی ہیں یا گھریلو صنعت کا حصہ ہیں، ایسے میں انہیں ٹھیکیدار کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے جو ان کا مالی اور کبھی جنسی استحصال سے بھی نہیں کتراتا۔ اس مملکت خداداد کے آئین کے مطابق جبری مشقت اور بیگار لینا جرم ہے لیکن یہ دونوں کام جاری و ساری ہیں اور حکومتی ادارے ان ٹھیکیداروں اور پتھارے داروں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ یہ بے حس لوگ معمولی قرض کے عوض بیگار کراتے ہیں یہاں تک کہ ان کی نسلیں بھی قرض کی ادائیگی کے لیے جبری مشقت و بیگار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ معدنیات کی کانوں کے مزدوروں کے حالات سب سے بدتر ہیں جو بے چارے زمین کے اندر سیکڑوں فٹ نیچے کام کرنے پر مجبور ہیں، اگر کان بیٹھ جائے یا کوئی اور حادثہ پیش آجائے تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ بچوں سے جبری مشقت کی بات کی جائے تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ یوں تو پاکستان دنیا کو مین پاور سپلائی کرنے میں10 ویں نمبر پر ہے جو مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں کام کر ر ہے ہیں مگر ہمارے سفارت خانے ان کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ مزدوروں کے حقوق کے بارے میں وضع کردہ پالیسی اگر ہے تو صرف کاغذات کی حد تک ہے۔ آج اس عہد کی تجدید کی ضرورت ہے کہ دن منانے کی بجائے عملی طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ مزدور کو روز مرہ کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں جس سے انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام مل سکے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘ لیکن یہاں پر حالات اس کے الٹ ہیں، مزدور بے چارہ مزدوری بھی کرتا ہے اور اس کے بعد اجرت کے حصول کے لیے دھکے بھی کھاتا ہے جبکہ اس کی ہنر و محنت پر عیش مل مالک اور سرمایہ دار کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس کی یوں منظر کشی کی ہے:
حکمِ حق ہے لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَاسَعیٰ
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

جواب دیں

Back to top button