Column

وزیر اعظم، اعتماد کا ووٹ اور ریلوے حادثہ .. روہیل اکبر

روہیل اکبر

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا، مبارک ہو، پی ڈی ایم نے180ارکان کی حمایت حاصل کر لی، اس کے بعد وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مخالفین کو خوب لتاڑا، شیخ رشید کو شیخ حرم بھی کہہ ڈالا مگر انہوں نے محکمہ ریلوے کے اس حادثے کا ذکر نہیں کیا، اس حادثے میں کراچی ایکسپریس کی بوگی میں آگ لگ گئی، سات مسافر جان سے چلے گئے، اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس بوگی میں حکمران خاندان کا کوئی فرد نہیں تھا کیونکہ ان سب کے پاس کروڑوں روپی کی گاڑیاں موجود ہیں جو عوام کے پیسوں سے خریدی گئی ہیں تاکہ ہمارے یہ لیڈر ہمیں ملک میں آسانیاں پیدا کرکے دیں کیونکہ انہیں اقتدار تک جانے کے لیے انہی عوام کے ووٹوں کی ضرورت ہے جو کبھی آگ میں جل کر مر جاتے ہیں تو کبھی بم دھماکوں میں جان دے دیتے ہیں۔ خیر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے، اسی لیے تو کسی بھی میڈیا میں نہیں چلا اور نہ ہی اس پر سنجیدگی دکھائی، صرف سوشل میڈیا پر اس حادثے کی تفصیلات شیئر کی گئی تو پھر کیوں نہ آج ہم بھی سوشل میڈیا کی ہی بات کر لیں کہ اس پر کیا چل رہا ہے کیونکہ ایک طرف سپریم کورٹ ہے دوسری طرف پی ڈی ایم کی حکومت ہے تو تیسری طرف پی ٹی آئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عوام کہیں نظر نہیں آتی جن کی خبریں جلنے اور مرنے کے بعد آتی ہیں وہ بھی اب نہیں آرہی اللہ خیر کرے کہ جب سے الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں گیا ہے تب سے سوشل میڈیا بھی بہت زیادہ گرم ہے یہاں چونکہ اظہار کی آزادی ہے اس لیے ہر کوئی کھل کر اپنے اپنے خیالات کا بیانیہ چلا رہے ہیں۔ اس حوالہ سے مختلف گروپوں میں کیا کیا سیاسی رنگ بکھرے ہوئے ہیں، آج ان کو ہی ہم پڑھتے ہیں، ایک گروپ میں حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے تحریر ہے کہ پاکستان سے پاکستان میں مار کرنے والے میزائل PDM-13کا کامیاب تجربہ جس نے پورے ملک میں تباہی مچا کر رکھ دی، میزائل نے پاکستانی اکانومی کو نشانہ بنایا اور مکمل تباہ کیا، میزائل لانچ کرنے والوں میں خوشی کی لہر۔ ایک اور گروپ میں کسی منچلے نے تحریر کیا50کروڑ سے کم کرپشن والے اسمبلی میں ہوں گے اور 25من سے زیادہ گندم رکھنے والے جیل میں ہوں گے۔ الیکشن کا نام آتے ہی دھماکے کون کرا رہاہے۔ ذرا سوچئے کہیں الیکشن رکوانے کیلئے خون بہانا ضروری تو نہیں ہوگیا اور جو کہتے ہیں ہماری مرضی کے بغیر ملک میں نہ کوئی آ سکتا ہے نہ جا سکتا ہے پھر دہشت گرد کیسے آگئے، مراد سعید اصل نشانہ تھا پختونوں کا، ایک بار پھر خون بہایا جائے گا۔ نگران حکومت کا کام ’’الیکشن‘‘ کی نگرانی ہوتا ہے، یہ پہلی نگران حکومت ہے جو کرپٹ عناصر کی نگرانی پر مامور رہ کر الیکشن سے فرار ہونے میں مدد کرتی رہی اور جمہوریت کی چیمپئن جماعتیں الیکشن سے بھاگ رہی ہیں۔ فردوس عاشق اعوان سے کمپنی کے لوگوں کی خفیہ ملاقاتیں، کچھ دن بعد عمران خان کے خلاف لانچ کیا جائیگا۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے چیزیں مہنگی ہوگئیں لیکن پشتونوں کا خون آج بھی2007کے نرخوں پر ہی فروخت ہو رہا ہے۔ انڈیا نے ایک چارجنگ پر850کلو میٹر چلنے والی کار بنالی ہے اور پاکستان میں ابھی تک صرف ایک پلیٹ بریانی کی خاطر ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑتے ہوئے نظر آئیں گے، ایک گروپ میں تحریر ہے کہ عوام کے پیسے سے اربوں روپے مالیت کی ٹیکنالوجی خریدی جاتی ہے کہ دشمن ملکوں کی جاسوسی کی جاسکے لیکن پاکستان میں اس ٹیکنالوجی سے وزیراعظم، چیف جسٹس، ججز فیمیلیز کی جاسوسی کی جاتی ہے کہ وہ کیا باتیں کرتے ہیں۔ معروف ٹی وی اینکر صابر شاکر نے آصف علی زرداری کے اس بیان پر کہ میرے بعد بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری آگے آئیں گے لکھا ہے کہ ماشاللہ باقی غلاموں کے لیے اپنے جیتے جی زرداری کا پیغام۔ ن لیگ کا ٹکٹیں جہاز سے پھینکنے کا فیصلہ، جو پکڑے وہی الیکشن لڑے۔ عمران ریاض خان کی تحریر ہے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل تقریباً99دن، خیبرپختونخوا اسمبلی کے تقریباً95دن ہوگئے، آئین کہتا ہے90دن میں الیکشن ہونگے مگر نہیں ہوئے جس کا مطلب ہوا آئین ٹوٹ چکاہے، آئین اور قانون کا جنازہ ہے۔ میرا خیال ہے آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو یہ بھی ہضم نہیں ہو گا، اب کچھ باتیں ان سرکاری ملازمین کی جو عرصہ دراز سے اپنے ہی افسران کے ناروا رویوں کا شکار ہیں۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ کے کچھ افسران عرصہ دراز سے ترقیوں کے منتظر ہیں، انکی فائلیں ایک جگہ سے دوسری جگہ گردش تو ضرور کرتی ہیں مگر ان پر کارروائی نہیں ہورہی، اسی طرح محکمہ تعلیم کے اساتذہ ہیں جو تقریباً15سال سے ترقیوں کے منتظر ہیں اور انکی کہیں شنوائی نہیں ہورہی۔ پنجاب کے نگران وزیراعلی محسن نقوی اس حوالہ سے بہت کام کر رہے ہیں خاص کر ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی جو حالت ہو چکی تھی انہیں ٹھیک کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں، ہر روز کسی نہ کسی شہر کے ہسپتال میں جاتے ہیں مریضوں سے ملتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں، اسی طرح اگر محکمہ تعلیم کے اساتذہ کے مسائل کے حل پر بھی توجہ دیں تو یہ ان معمار وطن پر احسان ہوگا جن کے ہاتھوں سے وہ بھی پڑھ کر اس منصب پر فائز ہوئے ہیں، اگر ہمارے اساتذہ خوشحال ہونگے تو وہ محنت اور لگن سے بچوں کو پڑھائیں گے ویسے تو ہمارے استاد کسی بھی معاشرے کے استاد سے بہتر ہیں لیکن معاشی پریشانی کی وجہ سے کچھ استاد بچوں پر اتنی توجہ نہیں دے پاتے خاص کر ہمارے سرکاری سکولوں میں کیونکہ ایک تو تنخواہ کم اور اوپر سے ترقیاں نہ ہونے کے برابر اور رہی سہی کسر ہمارے ان افسران نے پوری کر رکھی ہے جو محکمہ تعلیم کا حلیہ بگاڑنے میں مصروف ہیں، محسن نقوی جس طرح محکمہ صحت اور دوسرے اداروں کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں بالکل اسی طرح محکمہ تعلیم پر بھی توجہ دیں تو ہماری آنے والی نسلیں بہت کچھ کرنے کی ہمت کر پائیں گی۔

جواب دیں

Back to top button