آئین سے آگا ہی عوام کی ضرورت ہے .. علی حسن

علی حسن
پاکستان اپنی تاریخی شکستہ معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کا شکار ہے۔ اسی دوران 1973ء میں تدوین کئے گئے آئین کے پچاس سال ہوئے تو موجودہ حکومت نے اس کے جشن کا اہتمام کیا۔ اس اہتمام کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئین کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانے کی قرارداد منظور کی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئین کو نصاب تعلیم میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ آئین کو مطالعہ پاکستان، تاریخ، اردو اور انگریزی کی نصابی کتابوں میں شامل کیا جائے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ نصاب میں آئین پڑھانے سے نوجوانوں میں شعور پیدا ہوگا، وہ آئین شکنوں کو پہچانیں گے۔ یہ طوالت طلب بحث ہے کہ پاکستان میں مختلف آئین کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ آئین شکنی بار بار کی گئی لیکن اراکین پارلیمنٹ سمیت سیاسی کارکن اور ذرائع ابلاغ تماش بین بنے رہے۔ یہ ایک بہتر کوشش ہے کہ آئین کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ روز آنہ کی بنیاد پر نوجوانوں طالب علموں اور سیاسی کارکنوں سے ساتھ اس معاملے پر سیر حاصل گفتگو ہو تاکہ آئین کے خصوصا ان دفعات کے بارے میں انہیں آگاہی ہو جن کا تعلق ملک کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔ البتہ جو چیز خصوصی اہمیت کی حامل ہے وہ آئین کو اراکین پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ کئی مرتبہ مختلف ٹی وی چینل پر اس طرح کے پروگرام نشر ہوئے ہیں جن میں اراکین سے پاکستان کے بارے میں بنیادی سوالات کئے گئے ہیں ، حیرت ناک افسوس کی کی بات ہے کہ اکثریت کے جواب غیر اطمینان بخش ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کی تاریخ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو مکمل نام، پاکستان کے وفاق میں شامل اکائیوں کے نام، وغیرہ جیسی بنیادی معلوم سے لاعلم اراکین کو کیوں کر علم ہوگا کہ قیام پاکستان کو مقصد کیا ہے۔ منتخب اراکین پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے لئے آئین کے بارے میں خصوصی تربیت ہونا چاہئے۔ انتخابات میں شریک ہونے والے امیدواروں کے لئے اس طرح کی پابندی عائد ہونا چاہئے کہ وہ کسی مستند ادارے سے آئین کے بارے میں ان کی علمیت، آگاہی اور بنیادی معلومات کی دستاویز فراہم کریں تاکہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا جا سکے۔ جب اراکین کو آئین کے بارے میں معلومات ہوں گی تو ہی وہ اپنے ماتحت اور ساتھ کام کرنے والے افسران اور عملہ کو آئینی تقاضوں سے آگاہ کر سکیں گے۔ ایسا کیوں نہیں ہونا چاہئے کہ اراکین کو آئین از بر ہو۔ آئین کے ان حصوں کا خصوصا تفصیلی علم ہو جن کا تعلق عوام کے بنیادی حقوق سے ہے۔ عجیب افسوس ناک بات ہے کہ آئین اپنے شہریوں کو جو حقوق فراہم کرتا ہے، حکومت ان کی فراہمی سے منکر ہوتی ہے۔ عوام کو علم ہی نہیں ہوتا کہ پینے کی صاف پانی کی فراہمی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ روز گار کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالتوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور کسی بھی شہری کو ان تک رسائی کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ تعلیم کیوں کر حکومت کی ذمہ داری قرار دی جاتی ہے جسے پورا کرنے میں پاکستان میں تواتر کے ساتھ حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ آج کل پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے انعقاد ملک بھی میں بحث طلب ہے، حکومت کیوں نہیں آئین کی روشنی میں مسئلہ کا حل پیش کرتی ہے اور قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اراکین کیوں نہیں حکومت کو آئین پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اراکین کو آئین کے تقاضوں سے لا علم رہنا کسی بھی حالت میں تسلی بخش علامت نہیں ہے۔ اگر اراکین پارلیمنٹ آئین کے تقاضوں سے لا علم ہیں تو اس کے نقصانات کو بار بار تجربہ ہوتا رہا ہے۔ زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت کو قران مجید میں درج اللہ سبحانہ تعالیٰ کی گفتگو اور احکامات کے بارے میں ادراک ہی نہیں ہے کہ انہیں با جماعت نماز میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اس کا مطلب اور معنی کیا ہیں۔ لوگ حاصل ثواب کے لئے صبح و شام تلاوت کرتے ہیں لیکن تلاوت کئے جانے والے الفاظ کے معنی کے بارے ہیں انہیں علم ہو تو حصول مقصد قریب تر ہو جاتا ہے۔ حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم نے طالب علموں کو قران مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ ماضی میں بھی ایسے احکامات جاری ہوتے رہے ہیں لیکن ان پر سنجیدگی کے ساتھ کبھی عمل ہی نہیں ہوا ہے۔ قران مجید مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسانوں کے لئے ہر قسم کی ہدایات موجود ہیں ، اگر ترجمہ کے ساتھ قران مجید کی تلاوت کی جاتی ہو تو تلاوت کرنے والے کو آگاہی ہوتی ہے کہ مرد و عورت، شوہر اور بیوی، ماں و باپ اور دیگر رشتہ داروں کے زندگی کے ہر شعبہ اور کاروبار میں کیا حقوق ہیں۔ معلومات کا یہ خزانہ اسی صورت میں کسی بھی شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جب ترجمہ کے ساتھ تلاوت کی سہولت انہیں حاصل ہو۔ حکومت کو چاہئے کہ آئمہ حضرات کو بھی پابند کرے کے وہ نماز میں تلاوت کی جانے والی آیات کو ترجمہ نماز کے بعد سنایا کریں۔ اس عمل سے نماز میں شریک ہونے والوں کو علم ہو جائے گا کہ انہیں جو تلاوت سنائی گئی ہے اس کے معنی و مطلب کیا ہیں۔ اس تماش گاہ میں ایک خبر کا ذکر اس گزارش کے ساتھ کہ ذمہ داران سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غور و فکر کریں، بلوچستان کے سیکرٹری اطلاعات محمد حمزہ شفقات نے شکوہ کیا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کی جانب سے صوبہ بلوچستان کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے شکوہ کیا ’’ بطور سیکریٹری اطلاعات میرا اپنے دفتر میں پانچواں مہینہ ہے۔ ان پانچ ماہ میں بلوچستان حکومت نے اپنے بہترین پراجیکٹس کے کم از کم 20 سے زائد میڈیا پیکیج خود بنا کر بھیجے لیکن کسی بڑے نجی چینل نے ایک بھی آن ایئر نہیں کیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بڑے نجی ٹی وی چینلز پر اوسطاً بلوچستان کو ایک دن میں صرف 34سیکنڈ ملتے ہیں اور وہ بھی صرف منفی خبریں۔ جی صرف 34سیکنڈ۔ اس وقت صرف پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان بلوچستان کو کوور کر رہے ہیں‘‘۔ حکومت بلوچستان کے محکمہ اطلاعات کے سیکرٹری نے تو بر ملا کھل کا اظہار کر دیا ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ سے ایسی قسم کی شکایت کراچی کے علاوہ سندھ بھر کے سیاسی رہنمائوں، سیاسی کارکنوں، طالب علموں وغیرہ کو ہیں کہ انہیں اور ان کے علاقوں کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نظر انداز کئے جانے کی شکایت کا ازالہ تو ذرائع ابلاغ اور ان کی تنظیموں کی ذمہ اری ہے لیکن صحافیوں اور ان کی تنظیموں کو بھی اس پر کام کرنا چاہئے اور خاموش تماشائی نہیں بنا رہنا چاہئے۔







