ColumnImtiaz Aasi

سیاسی جماعتوں میں آمریت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

سیاست دان جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں تاہم ان کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ جمہوریت میں آزادی اظہار پر کسی قسم کی قدغن نہیں ہوتی مگر ہماری سیاسی جماعتوں میں سچ بات کرنے کی پابندی ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی جگہ موروثیت نے لے رکھی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں نام نہاد جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو حق بات کرنے کی اجازت نہیں۔ سیاسی تاریخ شاہد ہے جن رہنمائوں نے جمہوریت اور آئین کی بات کی انہیں تختہ مشق بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، جے یو آئی اور اے این پی کے قیام سے اب تک پارٹیوں کی سربراہی ایک ہی خاندان میں چلی آرہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پارٹی کی قیادت بیگم نصرت بھٹو نے سنبھال لی۔ وہ زندہ تھیں تو پارٹی کی سربراہی ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے پاس چلی گئی۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پارٹی کو جس طریقہ سے یرغمال بنایا گیا وہ بھی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور اب پارٹی کی قیادت انہی کے بیٹے بلاول بھٹو نے سنبھال رکھی ہے۔ مسلم لیگ نون جو آمریت کے بطن سے پیدا ہوئی اپنے قیام سے شریف خاندان کے زیر تسلط ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ مریم نواز پارٹی امور چلا رہی ہیں۔ جے یو آئی کی قیادت مفتی محمود کی رحلت کے بعد انہی کے خاندان کے پاس ہے۔ اے این پی کو دیکھ لیں عبدالولی خان جو جمہوریت کے سب سے بڑے داعی تھے ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان پارٹی کی سربراہ بن گئیں۔ ان کے بعد ولی خان کے بیٹے اسفند یار ولی خان پارٹی کے سربراہ بن گئے۔ اسفند یار ولی کی علالت کے باعث پارٹی امور ان کے بیٹے ایمل ولی خان چلا رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمسایہ ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے بی جے پی کی سربراہی اٹل بہاری واجپائی کے بعد اب مودی کے پاس ہے۔ کانگریس میں کئی مرتبہ انتخابات ہو چکے ہیں، جس کے نتیجہ میں پارٹی قیادت تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ جمہوری ملک برطانیہ کو دیکھ لیں کنزوٹیو اور لیبر پارٹی میں کئی مرتبہ الیکشن ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں سیاسی جماعتوں کا نظام اس حد تک منظم ہے کسی پارٹی کا کوئی ورکر ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل ہو تو اس کی آمد کی اطلاع دوسرے شہر کو کر دی جاتی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں کوئی سیاسی جماعت بنائی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن نے نئی وجود میں آنے والی جماعت سے ورکرز کی تعداد پوچھنے کی زحمت نہیں کی حالانکہ کسی سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لایا جائے تو ایسی جماعت سے ورکرز کی تعداد بارے معلومات کا حصول بہت ضروری ہے۔ جن پارٹیوں کے پاس ورکرز کی تعداد کی فہرست ہو ان میں باقاعدگی سے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہونے ضروری ہیں۔ ملک میں واحد ایک جماعت اسلامی ہے جس میں ہر پانچ سال بعد نئے امیر کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے اراکین خفیہ طریقہ سے حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے امیر کا انتخاب کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ نون کو پارٹی الیکشن کے لئے تحریر کیا تھا جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے جو الیکشن کمیشن کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دراصل ہمارے سیاسی جماعتوں نے پارٹیوں کو لمیٹڈ کمپنیاں بنایا ہوا ہے ۔ ایک ایسے وقت جب ہمارا ملک سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے کوئی سیاسی رہنما آئین اور قانون کی بات کرتا ہے تو اسے پارٹی سے علیحدہ ہونا پڑتا ہے۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی سے ہونے والی زیادتی پر آواز بلند کی تو اسے پارٹی پالیسی کے برخلاف سمجھا گیا اور انہیں پارٹی سے علیحدہ ہونا پڑا۔ حال ہی میں پیپلز لائرز فورم کے چیئرمین سردار لطیف کھوسہ نے آئین کے تحت نوے روز کے اند ر الیکشن کی بات کی تو انہیں پارٹی سے نکال باہر کیا گیا۔ اعتزاز احسن کافی عرصے سے آئین اور قانون کی باتیں کر رہے ہیں دیکھتے ہیں ان کے ساتھ پارٹی کیا سلوک کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی اور خودمختار ادارہ ہے جس کا کام ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔ گزشتہ چار سال سے الیکشن کمیشن نے نہ تو سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کرانے کی طرف توجہ دی اور نہ سیاسی جماعتوں کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز کی طرف توجہ دی۔ ماسوائے تحریک انصاف کے ابھی تک کسی جماعت کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز کے قضیے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ایک تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے ریڈار پر ہے۔ کبھی الیکشن کمیشن کی توہین، کبھی فارن فنڈنگ کیس اور کبھی توشہ خانہ کی گھڑی کے سوا الیکشن کمیشن نے کیا ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز کا فیصلہ ایک ساتھ کرے، ابھی تک الیکشن کمیشن عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کے اختیارات کی بات ہے اگر کسی معاملے میں الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل نہیں ہے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے اختیارات کے حصول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ملک میں جب کبھی انتخابات کی بات ہوتی ہے الیکشن کمیشن کو مردم شماری اور الیکشن اصلاحات کا خیال آجاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد الیکشن اصلاحات کی نوید دی جس پر ابھی تک کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ سیاست دانوں نے اپنی جماعتوں کو جمہوری بنانا ہے تو پارٹی رہنمائوں اور ورکرز کو آزادی اظہار کی مکمل آزادی ہونی چاہیے یہ نہیں پارٹی کا سربراہ جو کچھ کہہ بس اسے ہی حرف آخر تصور کر لیا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں الیکشن کا انعقاد بہت ضروری ہے، جو جماعت الیکشن کرانے میں ناکام رہے اس کی رجسٹریشن منسوخ ہونی چاہیے، سیاسی جماعتوں میں مورثیت کے خاتمہ کے ساتھ پارٹی رہنمائوں کو آزادی اظہار کی آزادی کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ سیاسی رہنمائوںکا حشر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور لطیف کھوسہ جیسا ہوتا رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button