ابھی بھی اقدامات کرنے کا وقت ہے .. علی حسن

علی حسن
قرضہ خواہ مہاجن سے لینا ہو یا آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک، ایک برابر ہے۔ دونوں رلاتے ہیں۔ مہاجن تو اپنے زمانے میں جو قیام پاکستان سے قبل کا زمانہ تھا، صرف اس صورت میں رلاتا تھا یا چکر لگوا تھا کہ قرضہ لینے والے شخص نے پہلے کا قرضہ واپس نہ کیا ہو اور یاد بھی نہ رکھا ہو۔ آئی ایم ایف ماضی میں خوب قرضوں پر قرضے دئے چلا جارہا تھا۔ یہ قرضہ اس لئے ہوتا تھا کہ پاکستان نے جو قرضہ لیا ہوا ہے اس پر لگنے والے سود کی رقم بروقت ادا کر سکے۔ پاکستانی وزرائے اعظم، وزرائے خزانہ، سیکرٹری مالیات، محکمہ مالیات کے اعلیٰ افسران وغیرہ نے کبھی اس بات کو اول تو محسوس ہی نہیں کیا کہ جو قرضہ لیا جارہا ہے اسے واپس بھی تو کرنا ہے۔ دوسرے جو بھی رقم لی جارہی ہے اس کی واپسی ہونا ہے اور اس کی ضرورت کی ترجیحات کیا ہیں۔ پھر ان ہی ذمہ داران لوگوں نے کبھی بھی یہ بات سنجیدگی سے سوچی ہی نہیں کہ ملک میں معاشی بحران آ چکا تھا تو انہیں کیا اقدامات کرنا چاہئے تھے۔ کیا انہیں وہ اقدامات جن کا آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں ذکر کیا ہے، بہت پہلے عمران خان کی حکومت کے دور میں نہیں کر لینے چاہئے تھی۔ لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا، کوئی ہے جو کسی سے پوچھے۔ اگر کوئی پوچھنے والا ہوتا تو پاکستان کا وہ حشر نہیں ہوتا جس کا سے ابھی سامنا ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستان کی حالیہ معاشی ترقی اور خدشات پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں میں تجویز دیتے ہوئے کہا کہ حکومت گاڑیوں کی خریداری بند کرے، پبلک سیکٹر اداروں کی سبسڈی اور قرضوں کی فراہمی ختم کریں۔ پاکستان اعلیٰ اور درمیانے درجے کی سرکاری بھرتیاں اور اجرتیں منجمد کرے اور سرکاری عملے کے اجلاسوں، سفری اخراجات اور پٹرول کا استعمال کم کریں۔ حکومت چوں کہ قرض کے فوری حصول کی خواہاں ہے اس لئے اپنے آپ کو شکنجے میں جکڑا ہوا محسوس کرتی ہے اور اس وقت ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف، جو بھی فرمائش کریں گے، اس پر فوری عمل کریں پر مجبور ہوں گے۔ یہ جو کچھ پیش آرہا ہے یہ کوتاہ نظری ہے۔ پیسیوں کی قدر نہیں کی گئی اس لئے بار بار ہاتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ پاکستان اعلیٰ اور درمیانے درجے کی سرکاری بھرتیاں اور اجرتیں منجمد کر نے کی تجویز آج کی نہیں ہے بہت پرانی ہے لیکن حکومت پاکستان نے کبھی کان نہیں دھرے۔ من پسند بھرتیاں یہ سوچے بغیر کی جاتی تہیں کہ ان کی ضرورت ہے بھی یا نہیں، کی جاتی رہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حجم جتنا بڑا ہے وہ مقروض ملک کو چلانے کے لئے کسی ضرورت کا طابع نہیں ہے۔ سرکاری دفاتر میں گھوم لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ سرکاری محکمہ صفر لوگوں کو کھپانے کے لئے ہیں۔ جہاں ایک فرد سے کام چل سکتا ہے وہاں چار چار افراد بھرتی کئے گئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بھرتیوں کے باوجود بھی سرکاری دفاتر میں کام کاج نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ بھرتیاں فوری طور پر بند کر دی جائیں اور موجودہ اسٹاف کو ہی کام کرنے کی ہدایت کی جائے۔ جس طرح بھرتیاں بند کرنے کی تجویز ( لفظ تجویز نرم ہے لیکن دراصل اسے ہدایت یا حکم سمجھنا چاہئے)۔ بینک نے رپورٹ میں کہا ہے کہ سرکاری عملے کے اجلاسوں، سفری اخراجات اور پٹرول کا استعمال کم کریں۔ راقم نے اسی اخبار میں عمران خان دور سے لے کر بار بار یہ تجویز تحریر کی تھی کہ پٹرول کی راشن بندی کی جائے جس کا اطلاق عام شہریوں پر بھی ہو لیکن کان نہیں دھرا گیا۔ حکومت کرنے والے افسران اپنے ذاتی فائدے کی وجہ سے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے ہیں۔ حکومت کو تمام سطحوں پر پیٹرول کا بند کر دینا چاہئے تھا۔ افسران کے لئے بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنا
کیوں ضروری ہے۔ وہ رکشہ یا چھوٹی گاڑیوں میں سفر کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔ دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام افسران کی حالت وہ ہی ہوتی ہے جو پاکستانی افسران کی اب ہوگی۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں افسران کے لئے شٹل گاڑیوں کیوں نہیں چلائی جاتی ہیں۔ افسران کو دی گئیں گاڑیوں کا پٹرول فوری طور پر بند کر دیا جانا چاہئے تھا لیکن شائد اسی دن کا انتظار تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے انہیں حکم دیں۔ ابھی بھی بند کر دیں۔ افسران کے زیر استعمال1800سی سی سے بڑی گاڑیوں کو نیلام کر دیا جائے۔ ان افسران کی ماتحتی میں کام کرنے والے ڈرائیوروں کی فوج سے بھی حکومت کی جان محفوظ ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان معاشی اصلاحات کے ذریعے پائیدار نمو حاصل کر سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اخراجات کم کرنے کیلئے روایتی رجعت پسندانہ سبسڈی کی فراہمی کم کی جائے، بجلی کی سبسڈی ختم کی جائے، بجلی کی ٹارگٹڈ سبسڈی کی فراہمی بہتر کی جائے۔ بینظیر انکم سپورٹ اور قومی، سماجی، معاشی رجسٹری کے ذریعے گیس کی نقد سبسڈی دیں، پیٹرولیم سبسڈی ختم کریں یا کم کریں۔ اسی طرح ٹیوب ویل سبسڈی ختم کریں، یہ بیجا صرف کی ترغیب دیتا ہے، گندم کی سپورٹ پرائس سبسڈی سے بڑے زمینداروں کو فائدہ ہے۔ کیا اس حقیقت سے حکومت انکار کرے گی کہ گندم، گنے وغیرہ کی سپورٹ پرائس سے صرف زمینداروں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے ۔ کسانوں یا ہاریوں کے حصہ میں تو کچھ نہیں آتا ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت کا سنگل ٹریزری کھاتہ قرض کی ضرورت اور سودی خرچ کم کرے گا، کفایت شعاری سے حکومتی اسٹاف اور آپریشنل لاگت کم کریں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوئی وزارتوں کو مرحلہ وار ختم کریں، نچلی سطح پر ضرورت کے مطابق میانہ روی سے اجرتیں بڑھائیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ نقصان میں چلنے والے سرکاری ادارے ختم کریں، سرکاری اداروں میں طرز حکمرانی بہتر بنائی جائے ، اصلاحات کر کے پینشن اخراجات کم کئے جائیں۔ کئی سرکاری محکموں بشمول ریڈیو پاکستان نے ملازمین کی پینشن بھی بند کر دی ہے۔ سرکاری محکموں میں کبھی اصلاح کر نے کا سوچا ہی نہیں گیا۔ ورلڈ بینک نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو کم کریں، سیلز ٹیکس ایکٹ کا آٹھواں شیڈول ختم کرکے تمام اشیاء پر مساوی ریٹ عائد کریں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ زیرو ریٹنگ فہرست برآمدی شعبے کیلئے مخصوص کریں، درآمدات پر ڈیوٹیز کی چھوٹ ختم کریں۔ سگریٹ پر دو سطحی اخراجات کو ایک کرکے پریمیم ایکسائز ریٹ نافذ کریں۔ ورلڈ بینک رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جائیداد اور زراعت پر ٹیکس بڑھائیں اور بہتر بنائیں یا نئے ٹیکس لگائیں۔







