ColumnQadir Khan

کیوں شبنم فشاں ہوں میں .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

 

آئندہ انتخابات میں ابھی وقت باقی ہے لیکن اس ضمن میں ملک کے قافلہ انتشار کے طائر ان ِ پیش رس ابھی سے پَر تول رہے ہیں، عام انتخابات کے قبل از وقت ہونے کے امکانات کتنے ہیں، اس کے متعلق اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ سیاسی جماعتوں کے بلند آہنگ دعاوی کے کھوکھلے پن کے متعلق سر دست کچھ کہنا نہیں چاہتا، تاہم اقتدار کے مسند تک پہنچنے کیلئے ایک مشینری وضع ہے کہ لوگ اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ یہ نمائندے نظم و نسق ِ مملکت کے متعلق فیصلے کریں گے، چونکہ یہ عوام کے نمائندے قرار دئیے جاتے ہیں اس لیے ان کے فیصلے بالواسطہ خود عوام کے فیصلے سمجھے جائیں گے۔ یوں لوگ خود اپنے فیصلوں کی پابندی کریں گے، یہ سوال خود مغربی ممالک میں بھی زیر بحث چلا آرہا ہے کہ جن لوگوں کو عوام کے نمائندے کہا جاتا ہے کیا وہ فی الواقعہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، اور کیا ان کے فیصلے واقعی خود عوام کے اپنے فیصلے کہلا سکتے ہیں؟۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے متعدد ممالک کی مثالیں موجود ہیں کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف عوام احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں یہاں تک کہ ان میں اشتعال اور ریلیاں پر تشدد ہوجاتی ہیں۔ پارلیمان میں کن امور پر کس انداز میں گفتگو ہوتی ہے اور اس کے موافق یا مخالف کیا کیا دلائل دئیے جاتے ہیں، اس کے مظاہر قریباً سب دیکھتے چلے آ رہے ہیں، اس بحث میں الجھنے کے بجائے مطمع نظر یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو لوگ عوام کے نمائندے بن کر شریک حکومت ہوتے ہیں، کیا وہ فی الواقعہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں؟۔
یہ امر سمجھنے کیلئے ایک مثال کو فرض کرتے ہیں کہ ایک حلقہ ِانتخابات میں دو کارخانے ہیں اور ووٹر بیشتر ان کار خانوں میں کام کرنے والے مزدور۔ ان کار خانوں کے مالک ایک نشست کیلئے بطور امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں ایک کامیاب ہو جاتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا اس کارخانے کا مالک ان مزدوروں کا نمائندہ کہلا سکتا ہے جن کے ووٹوں سے یہ منتخب ہوا ہے؟ مزدور کا نمائندہ کارخانے کا مالک کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ان کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہے؟ کارخانے کے مالک اور مزدوروں کے مفادات آپس میں ٹکراتے ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ کارخانے کا مالک اپنے مفادات کو قربان کرکے مزدوروں کے مفاد کا تحفظ کرے گا؟۔ اگر یہ اعتراض سامنے آئے کہ ان مزدوروں نے اسے ووٹ کیوں دئیے، وہ اگر اسے ووٹ نہ دیتے تو دوسرا بھی کارخانے کا مالک ہی تھا، اسے ووٹ دیتے تو وہ بھی یہی کچھ کرتا۔ ان مزدوروں کیلئے ، اس کے سوا چارۂ کار ہی نہ تھا کہ وہ ان دونوں سے کسی ایک کو ووٹ دیتے۔ کہاجاسکتا ہے کہ یہ مزدور خود اپنے میں سے کسی کو بطور امیدوار کھڑا کر سکتے تھے، یہ ٹھیک ہے کہ وہ ایسا کر سکتے تھے، لیکن، بہ حالات موجودہ، کیا یہ ممکن تھا کہ یہ مزدور امیدوار، کارخانے مالک کے مقابلے میں کامیاب ہو جاتا؟ غیر یا نیم ترقی یافتہ ممالک تو ایک طرف، اس کا امکان تو ہنوز ان ممالک میں بھی نہیں جہاں عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے اور وہ اپنی روٹی کیلئے بالا دست طبقہ کے اس قدر دست نگر بھی نہیں۔
کار خانوں سے پیچھے ہٹ کر شہر کے محلوں کی طرف جائیے، وہاں بھی یہی کیفیت نظر آئے گی۔ ووٹ دینے والے عوام غریب ہوں گے اور امیدوار محلہ کے چودھری (جوا ب دولت مند کا دوسرا نام ہے) ان عوام میں کس کی مجال ہے کہ ان کے مقابلہ میں کھڑا ہوجائے یا کھڑا ہو کر کامیاب ہوجائے، محلوں سے بھی کوئی نہ کوئی چودھری ،وڈیرا، سردار، مَلک، خوانین ہی منتخب ہو کر، عوام کے نمائندہ کے حیثیت سے اوپر پہنچے گا۔ شہروں سے باہر نکل کر دیہاتی علاقوں میں دیکھیں تو وہاں حالت اس سے بھی بدتر دکھائی دے گی۔ وہاں ووٹ دینے والے مزارع یا کمزور کاشت کار ہوں گے، امیدوار بڑے بڑے سردار وغیرہ۔ ان کے مقابلے میں کسی مزارع کے سر اٹھا کر چلنے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ الیکشن میں ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہوجائے۔ ا ن مزارعوں اور کاشت کاروں کے نمائندے یہی بڑے بڑے زمین دار ہوں گے جن کے مفاد قدم قدم پر غریبوں کے مفاد سے ٹکراتے ہیں۔
انتخابی اصلاحات اس وقت، مملکت کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے کہ اگر اصلاحات کی بھی جائیں تو کرے گا کون؟ وہی جو، ان ایوانوں میں پشت در پشت آتے ہیں، تو کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایسی اصلاحات کریں گے کہ ان کے پارلیمان میں آنے کا راستہ بند ہوجائے تو آپ آنکھ بند کرکے ایک لمحہ میں جواب دے سکتے ہیں کہ قطعی نہیں، وہ ایسا بالکل بھی نہیں کریں گے ہمارے نظام میں ٹیکنو کریٹس کے بھی نشستیں مختص ہیں۔ کیا، ان کی صلاحیتوں سے کبھی فائدہ اٹھایا گیا اور مشیروں، وزرا ء کو منتخب نمائندوں سے بنائے جانے کا رجحان موجود ہے؟، غیر منتخب اراکین کو وزارت دینے کا رجحان ختم ہو سکتا ہے یا نہیں، تو اس کا جواب بھی آسان ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ فرشتے کہاں سے لائیں، اس کا حل بھی نکالنا ہے لیکن کس طرح؟۔ تاہم اس کی شروعات کر سکتے ہیں، کہ سیاسی جماعتوں میں عہدوں کی تقسیم و مدت کا نیا کلچر متعارف کرانا ہوگا کہ اگر جمہوری نظام میں یہ ممکن ہے یا نہیں۔ پارلیمان میں بنیادی عہدوں کی مدت کا تعین ناگزیر ہے تاکہ جمہوریت اور با دشاہت میں فرق پیدا کیا جاسکے ۔ وزارتوں سمیت صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کی مدت کتنی ہونی چاہیے ،اسے زمینی حقائق اور پاکستانی سیاسی کلچر کی مناسبت سے طے کرنے پر غور وفکر کرنا چاہیے۔ انتخابات میں امیدوار اسی نشست سے کھڑا ہو جہاں وہ رہتا ہے۔ کئی حلقوں سے بیک وقت انتخاب لڑنے پر پابندی ہو۔ جب تک اس امر کی شروعات نچلی سطح سے نہیں کی جائے گی اس وقت تک کسی بھی قسم کی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ اچانک اور یکدم نہیں ہوگا لیکن اس کے تسلسل سے ایک وقت ضرور ایسا آسکتا ہے کہ قوم و مملکت کو ایسی قیادت بھی ملے گی جس کے اپنے مفادات نہ ہو، اور وہ عوا م کا حقیقی نمائندہ ہو۔ گو کہ یہ مشکل امر ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اسے اپنائے بغیر سماجی، سیاسی گنجلک مسائل سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، الیکشن کی وہ خامیاں و خرابیاں جن کا ہم اس قدر رونا روتے ہیں، وقت کے ساتھ خود بخود دورہوجائیں گی۔ کسی بھی عہدے کی مدت کا تعین مورثی سیاست اور اس کے ذریعے چند خاندانوں میں تقسیم کے سلسلے کو روکنے کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے ۔

جواب دیں

Back to top button