فوج اور سیاست دان .. علی حسن

علی حسن
(گذشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ ہفتہ کے کالم تماش گاہ کے آخری حصہ میں لکھا گیا تھا کہ ’’کیا عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ نہیں تھی کہ انہوں نے فوج کے سربراہ کے سہارے لولی لنگڑی حکومت قبول کی جس کا خمیازہ انہوں نے تحریک عدام اعتماد کی صورت میں بھگتا۔ وہ عوام کیلئے قابل قبول ر ہنما ہو گئے تھے۔ عوام ماضی کی حکومتوں میں رہنے والے سیاست دانوں سے مطمئن نہیں تھی جس کا اظہار عوام نے عمران خان کے جلسوں میں شرکت کی صورت میں بار بار کیا ہے۔ ایسی صورت میں تو عمران خان ہوں یا کوئی اور سیاست داں انہیں کسی کا سہارا ہی نہیں لینا چاہیے، لیکن پاکستان میں سیاست داں ہر معاملہ میں فوجی قیادت کی طرف دیکھتے ہیں۔ تمام سیاست دانوں کو اپنے اس رویہ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ انہیں یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ صرف اقتدار چاہتے ہیں یا ایسااقتدار چاہتے ہیں جس میں وہ فیصلے کرنے میں با اختیار بھی ہوں گے ۔‘‘
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ان کے اعزاز میں دیئے گئے ایک عشائیہ میں بہت ساری باتوں میں کہا ہے کہ ’’ اگر فوج نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اب وقت آچکا ہے کہ سیاست دان معاملات کو اپنے کنٹرول میںلے لیں۔آپ (سیاست دان) ایسے حالات پیدا کر دیں کہ جن میں آپ کو اِن (فوج) کی طرف نہ بھاگنا پڑے۔‘‘ایک اور بات جو صدر علوی نے کہی وہ یہ تھی کہ ’’ انہوں نے آرمی چیف کے ساتھ مسلح افواج کی ’’غیر جانبداریت‘‘ پر بھی بات کی‘‘ ۔ اس موقع پر انہوں نے حاضرین کو ایک مزاحیہ بات سنائی کہ 1990ء کی دہائی میں جب وہ جماعت اسلامی کا حصہ تھے اس وقت پارٹی کے امیدواروں کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے وقت اس سوال کا جواب دینا ہوتاتھا کہ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا نہیں۔انہوں نے واقعہ یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوار نے اقرار کیا کہ وہ شراب پیتا ہے جبکہ ایک اور امیدوار نے کہا کہ بس دو ہفتے قبل ہی پینا چھوڑ دی ہے۔ صدر علوی نے کہا میں نے یہ واقعہ اپنے اْن تمام وردی والے دوستوں کو سنایا ہے تاکہ انہیں یہ بتا سکوں کہ اگر آپ نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اسے آپ نے کل پرسوں ہی چھوڑا ہے، یہ سن کر سب ہنسنے لگے۔نیب کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت تھی، ملک میں کسی کو بھی صرف الزام کی بنیاد پر جیل میں ڈالنا بہت ہی آسان،اداروں اور عدلیہ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ایک سوال کہ کیا عمران خان نے کسی موقع پر جنرل باجوہ کو برطرف کرنے کا سوچا تھا؟ اس پر صدر مملکت نے کہا کہ نہیں میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ تھا، یہ افواہ ہے۔ جب صدر علوی سے یہ پوچھا گیا کہ خان اور جنرل باجوہ کے درمیان تعلقات کب خراب ہوئے تو صدر مملکت نے کہا کہ میں بھی اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں، لیکن شاید گزشتہ سال اکتوبر میں اور اس کے بعد رواں سال اپریل مئی کے دوران ایسا ہوا تاہم، صدر نے کہا کہ جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے سینیٹ میں عمران خان کی مدد کی اور انہوں نے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کی مدد کی، مجھے اِس کا علم ہے۔جب صدر مملکت سے عمران خان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ پر عائد کیے گئے الزامات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگرچہ دوسرے فریق کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ وہ نیوٹرل ہو چکے ہیں اور وہ لوگوں پر دبائو نہیں ڈال رہے تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کسی حد تک دبائو ڈالا جا رہا تھا۔ صدر پاکستان کی رائے تھی کہ ملک کو مشکل وقت کا سامنا ہے اور ہمیں چاہیے کہ ایک نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیں، آئیں ایسا ملک بنائیں جس کے ہم مستحق ہیں۔ انہوںنے افسوس کا اظہار کیا کہ اداروں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، حتیٰ کہ عدلیہ نے بھی نہیں ۔
ویڈیوز اور آڈیوز جاری ہونے پر گہری تشویش اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے صدر پاکستان نے کہا کہ یہ کھیل نہیں کھیلنا چاہیے، آڈیوز اور ویڈیوز کے کھیل کے حوالے سے نئے آرمی چیف سے بات کی ہے،مجھے حیرت ہے کہ یہ سلسلہ کیوں جاری ہے، کسی بھی اخلاقی لحاظ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رہنا چاہیے۔ صدر پاکستان کی گفتگو کی اشاعت کے دوسرے روز ایوانِ صدر اسلام آباد نے تردید کی ہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے غلط بیان منسوب کیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بیان منسوب کیا گیا کہ سابق آرمی چیف اور ٹیم نے سینیٹ اور عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی مدد کی۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ صدرِ پاکستان کے بیان کو سیاق اور سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے بیان کو توڑ مروڑ کر خود بنا کر پیش کیا گیا۔
صدر پاکستان نے جو جو باتیں کی ہیں اور جن جن خدشات کا اظہار کیا ہے، ان پر سیاست دانوں کو غور کرنا چاہئے۔ پاکستان کو سیاسی تجربہ گاہ بہت بنا لیا گیا ہے، جس کی قیمت اس ملک کے عوام بھگت رہے ہیں اور انہوں نے ادا کی ہے۔ عوام کی جو سماجی اور معاشی صورتحال ہے وہ نہایت باعث افسوس ہے لیکن اس ملک کے دولت سیاست دانوں کو ان کی حالت نظر نہیں آتی ہے،عوام نے بھٹو کے پیچھے بھاگ کر دیکھ لیا۔ اب عوام عمران خان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ عوام ہر حال اور ہر قیمت پر تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ اپنے حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں، یہ تبدیلی جتنی جلدی ممکن ہو سکے گی اتنا ہی پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔







