آئینی بحران کیوں؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام 1947میں ہوا اور پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شب و روز محنت سے متفقہ آئین پاکستان 1973میں منظور ہوا۔ اس تاریخی معرکہ آرائی میں بھٹو صاحب کو کامیابی اس لیے ملی کہ باہمی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود تمام سیاسی رہنما اور جماعتیں مملکت خداداد ِ پاکستان کے استحکام کیلئے آئینی و قانونی ضابطوں کی پابند ہو کر ملک و ملت کی ترقی اور خوشحالی کا عملی مظاہرہ چاہتی تھیں۔ دنیا کی تمام ریاستوں میں آئین و قانون کی پاسداری اسی لیے کی جاتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مادر پدر آزاد نہ رہے۔ سب مملکت کی چھتری کے نیچے رہ کر حقوق و فرائض کی ادائیگی کریں، پارلیمانی نظام حکومت میں منتخب حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی ہوتی ہے۔وقت، حالات اور اجتماعی ضروریات کے مطابق ترامیم بھی کی جائیں تاکہ کسی قسم کا آئینی سقم اور بحران پیدا نہ ہو۔ پھر بھی ہمارے ہاں آمریت نے اس آئین کو پامال کر کے اپنی من مانیاں کیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ جائز تھا یا کہ حالات کے مطابق ضرورت تھی؟ اس بات پر گھنٹوں، مہینوں بلکہ سالوں بحث ہوتی ہے لیکن لاحاصل صرف اس لیے ثابت ہوتی ہے کہ جب بھی آئین توڑا گیا اسے بالائے طاق رکھا گیا۔ موجودہ جمہوریت کے کئی ’’چیمپئن‘‘ ادھر سے ادھر کندھوں سے کندھا ملا کر کھڑے دکھائی دئیے جو ان میں شامل نہیں تھے ان کے خاندانوں کی تلاشی لیں تو ان کے بزرگوں سے ملاقات ضرور ہو جائے گی، 1973 کا آئین متفقہ ضرور ہے لیکن وہ آسمانی کتاب ہرگز نہیں، منتخب اور سیاسی لوگوں کی ہمت، محنت اور مفاہمتی کرداررواداری اور برداشت کا شاہکار ہے اس میں ترامیم کا حق بھی ہر حال میں موجود ہے لیکن ڈیمانڈ، آئینی اور قانونی ہے جس کی پابندی حکومت اور اپوزیشن دونوں پر عائد ہوتی ہے اگر آج سے پچاس سال پہلے مملکت اور عوام کے نام پر مخالف
سوچوں اور نظریات کے مالک ایک ہو سکتے ہیں تو پھر پوری قوم کا سوال یہی ہے کہ اس جدید دنیا میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا جبکہ سیاستدان، سیاسی پارٹیاں ہی نہیں، عوام بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ملک آئینی، سیاسی اور معاشی بحران میں مبتلا ہے اور اگر اس کا حل خوش اسلوبی اور مفاہمتی پالیسی سے نہ نکالا گیا تو یہی بحران ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا لیکن کیسی دلچسپ بات ہے کہ ہر دور میں حکمران اپنی اپوزیشن کو غیر ذمہ دار اور آئین و قانون کا مخالف قرار دیتے ہوئے انہیں سکیورٹی رسک، غدار اور غیر ذمہ دار ، مطلب پرست کہتے ہیں۔ نہ اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں نہ ہی اپنی’’منجی تھلے ڈانگ‘‘ پھیرتے ہیں۔ اس لیے کہ اقتدار کا نشہ اور طاقت سوچوں کو محدود کر دیتی ہے اور جونہی وقت سبق سکھانے کیلئے کروٹ لیتا ہے ، الزامات کا ایک نیا طوفان برپا کر دیتے ہیں۔اپنا احتساب اور غلطی کوتاہی کوئی نہیں مانتا، ان کا جواز بھی دوسروں میں ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔لمحۂ موجود میں بھی یہی نظارہ ہے پھر بھی ’’میں نا ں مانوں‘‘ کی تکرار کے ساتھ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آئینی بحران کیوں؟
اس سوال کا جواب بھی تمام سیاسی رہنمائوں، جماعتوں اور منتخب لوگوں کے پاس موجود ہے لیکن کسی میں حوصلہ نہیں کہ اس کا اعلان برملا کرے اور قوم سے معافی مانگے کہ ہم نے آمریت پر تنقید تو کی کہ اس نے آئین اور قانون توڑا پھر بھی اپنا احتساب نہیں کیا کہ ہم نے آئین پاکستان کے ساتھ منتخب نمائندے ہوتے ہوئے ایساکچھ کیا جو کہ کسی بھی حالت میں نہیں ہونا چاہیے تھا کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ اپنی غلطیاں تسلیم کرے اور آئندہ کیلئے
عہد کرے کہ وہ اسے نہیں دہرائے گا، مملکت کے آئین کے حلف کی سو فیصد پاسداری کرے گا، پارلیمنٹ کی بالا دستی کو ہر حال میں قائم رکھے گا، بظاہر ایسا معلوم ہوتا کسی جانب سے دکھائی نہیں دیتا، اس لیے مسند اقتدار تک پہنچنے والے حقیقی حاکم آسمان والے پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن اس کی مکمل تابع داری کی بجائے خلائی مخلوق، سلیکٹرز اور کوچ کے فرمانبردار بن جاتے ہیں کہ قسمت کی دیوی اگر مہربان ہو گئی اور مالک کائنات نے سن لی ہے تو نیلے آسمان والے نے خود تو نیچے اتر کر نہیں آنا، انعام کسی وسیلے سے ہی ملے گا، لہٰذا نادانی میں اپنے انتخاب، جدوجہد اور اصولوں کو بھول کر ان طاقت وروں کا دامن تھام لیتے ہیں جو بظاہر دکھائی دے رہے ہوتے ہیں اور یہ سہارا عارضی ثابت ہوتا ہے تو شور شرابا، ہنگامہ آرائی کے ساتھ نان ایشو کر ایشو بنا کر اپنے آپ کو بہادر، اصول پرست اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔
بھولی عوام ایک مرتبہ پھر ان کے سبز باغ اور سنہری خوابوں کے جال میں پھنس کر ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے اس لیے کہ اسے تو صرف اپنے مسائل کا حل درکار ہے، سابقہ حکمرانوں نے وعدے نہیں نبھائے اس لیے ان کی تمام تر توجہ نئی قیادت پر ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ سمجھیں لیکن انہیں یہ معلوم ہے کہ منتخب حکومت کا دورانیہ پانچ سال ہے اس لیے اسے اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ اسی طرح رخصتی کے بعد حکمرانوں کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ اگر اسے آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تو تمام معاملات میں بہتری آ جاتی لیکن اس کے خلاف سازش ہو گئی اور یہ سازش حقیقت میں قوم کے خلاف ہوتی ہے کہ جس کے مسائل حل نہیں ہو سکے،میں نے ابھی تک اجتماعی بات کی ہے کسی کا نام نہیں لیا پھر بھی جب یہ سوال اٹھے گا کہ دنیا بھر میں پارلیمانی نظام کامیاب ہے،ہمارے ہاں بھی پارلیمنٹ موجود ہے، پھر آئینی بحران کیوں؟ بس ان ہی دو جملوں میں جواب چھپا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ موجود لیکن اس کی بالا دستی کیلئے دونوںجانب سے حقیقی کردار ادا نہیں کیا جا رہا، پاکستان کی تاریخ میں ایک سے زیادہ مرتبہ منتخب حکومت کو چلتا کیا گیا، ہر مرتبہ فارمولا مختلف رہا، درست ہوا کہ غلط اس سے قطع نظر ’’تبدیلی سرکار‘‘کی چھٹی آئینی انداز میں پہلی دفعہ ہوئی کہ ایوان کی اکثریت کھونے والے کو اقتدر بھی کھونا پڑ گیا۔ اب بات کی جاتی ہے کہ اکثریت کس طرح اقلیت بنی؟ تو اس کا جواب بھی اسی ایوان کی سرگرمی میں موجود ہے۔ جب سے عارضی سہاروں سے مسند اقتدار سنبھالی گئی تو معیار پر پورا نہ اترنے پر گنتی الٹی ہو گئی۔پاکستان نہیں، دنیا بھر میں یہ جادو چلتا رہتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں پارلیمانی روایت میں فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں ایسا نہیں، لہٰذا آئینی بحران قدم قدم پر ہمارا ستقبال کر رہا ہے اور مستقبل میں بھی کرتا رہے گا ۔ یہ صورتحال بھی بڑی دلچسپ ہے کہ آئین اور اس میں ترامیم کا حق منتخب پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں کو حاصل ہے لیکن یہ سب کے سب پارلیمنٹ سے ایسے لاتعلق ہیں کہ جب بھی پارلیمانی نظام میںآئینی بحران پیدا ہوتا ہے ہم پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کی تشریح کرانے عدالت عظمیٰ کے پاس چلے جاتے ہیں حالانکہ اگر کوئی قانونی ابہام بھی ہو تو اس کی تشریح اسی پارلیمنٹ سے ہونی چاہیے،کیونکہ قانون بننے سے لے کر بحرانی کیفیت تک تمام سیاق و سباق سے جتنی واقفیت پارلیمنٹ کو ہوتی ہے کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتی۔
آئینی بحران سے مستقبل میںبچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور منتخب ارکان پارلیمنٹ اس بات کا عہد کریں کہ انہوں نے منتخب ہونے سے پہلے 1973 کے آئین کو پڑھا کہ نہیںپڑھا؟ منتخب ہونے کے بعد آئین کو ازبر کریں تاکہ پارلیمنٹ میں قانون سازی اور ترامیم کے مراحل میں اپنا حقیقی کردار ادا کر سکیں۔ موجودہ حالات میں تمام کے تمام قانونی ماہرین کے مشوروں کے محتاج ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں وہ کر گزرتے ہیں خواہ مسائل سلجھنے کی بجائے الجھ جائیں۔ ایسے میں شریف الدین پیرزادہ جیسے قانون دان حکومتوں اور پارلیمنٹ کو انگلیوں پر نچاتے ہیں اور پوری قوم محض اس لیے تماشائی بنی رہتی ہے کہ اس کے منتخب نمائندے قانون کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے، معاشی اور سیاسی بحران میں کوئی بھی افہام و تفہیم سے کام لینے کو تیار نہیں۔ مذاکرات میں بھی صرف بیک ڈور حکمت عملی چل رہی ہے، ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنے کیلئے شرائط رکاوٹ بن رہی ہیں۔ حکومت آئینی مدت پوری کرنے کی خواہش مند ہے۔ اپوزیشن قبل از وقت الیکشن کی ضد کر رہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سمیت ذمے دار سیاستدانوں کا خیال ہے کہ سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے الیکشن ضروری ہے لیکن اصلاحات نہ ہونے سے بہتری کی بجائے بگاڑ پیدا ہو گا۔
بحرانی دور میں گورنر پنجاب نے اپنی آئینی اختیار استعمال کیا تو سپیکر پنجاب اسمبلی نے صدر پاکستان کو خط لکھ دیا۔ ماضی میں قاسم سوری اور صدر مملکت غیر آئینی اقدام سے سبکی کا سامنا کر چکے ہیں لیکن کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ آئینی بحران سے ہمیشہ کیلئے نجات کا واحد طریقہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کو تمام سیاسی طاقتیں مل کر استحکام دیں، اور ہر آئینی بحران کا حل پارلیمنٹ میں ہی نکالا جائے۔ اس ’’فائول پلے‘‘ کے خاتمے کیلئے آئین سازی کی جائے کہ کوئی بھی منتخب رکن اسمبلی ایوان سے باہر بیٹھ کر مراعات انجوائے نہ کرے، جیسے موجودہ حالات میں ایک بڑی جماعت اور اس کے منتخب ارکان اپنے ووٹرز کی نمائندگی کی بجائے صرف سیاست سیاست کھیل کر سیاسی بحران کو طول دے رہے ہیں۔میرے خیال میں اگر یہ لوگ پارلیمنٹ کا حصّہ بنتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے اور آئینی بحران پیدا نہ ہوتا۔







