فوج اور سیاست دان .. علی حسن

علی حسن
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سابق آرمی چیف کے حوالے سے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی ومعاشی بحران اورمیری حکومت گرانے کے واحد ذمہ دار جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ ہیں۔ میرے لیے یہ تصور محال ہے کہ کوئی ملک کو اتنا نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے جنرل (ر) باجوہ کے خلاف اس لیے بات نہیں کی تھی کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ مجھ پر بھی آرٹیکل 6 لگا دیں گے۔ خارجہ پالیسی پر ہمارے اختلافات شروع ہوئے تھے۔ آئندہ انتخابات جیتنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں اقتدار سے علیحدگی کے بعد سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے شروع نہیں ہوا۔ سقوط ڈھاکہ کے فوری بعد جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار میں لائے تھے۔ گل حسن کے کچھ بھی عزائم نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ بھٹو کی مدد نہ کرتے لیکن بھٹو نے اقتدار میں آنے کے فوری بعد ہی جنرل گل حسن کو جس انداز میں بر طرف کیا ،وہ ناپسندیدہ قدم تصور کیا گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم بھی جنرل کی بے جا مداخلت کے شاکی رہتے تھے۔ کشیدہ تعلقات ہی جونیجو حکومت کے خاتمہ کا سبب بنے تھے۔ نواز شریف بہت کھل کر فوجی قیادتوں پر الزام لگاتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے فوج کے تمام ہی سربراہوں سے انہیں شکایت ہی رہی ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو ،جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دینے کے باوجود شاکی رہیں۔ ان کی حکومت کے خاتمہ کے سلسلے میں انہیں اسلم بیگ سے شکایت ہی رہی۔ انہیں تو 1988کے انتخابات کے بعد جب حکومت سونپی گئی تو پہلے سے اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان اور فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے ان سے بعض شرائط قبول کرا ئی تھیں۔ یہ وہ موقع تھا کہ انہیں پیشگی شرائط نا منظور کر دینا چاہیے تھیں۔ انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ عوام میں مقبول تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ان کے ہی نامزد کردہ ظفر اللہ جمالی کے تعلقات بھی خوشگوار نہیں رہے تھے۔
مختلف اسباب کی بنا ء پر فوج کے سر براہان اور وزرائے اعظم کے تعلقات میں رخنہ ہی رہا۔ عمران خان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اور سویلین حکومت کے کردار میں توازن لانے کی ضرورت ہے، اگر سویلین حکومتوں کو اتھارٹی نہ مل سکی تو وہ کبھی ڈیلیور نہیں کر سکیں گی۔ فوج اور حکومت وقت کے درمیان افہام و تفہیم کے علاوہ تعلقات میں توازن کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ قومی احتساب بیورو کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھاکہ نیب جنرل ریٹائرڈ باجوہ کے کنٹرول میں تھاجس کی وجہ سے میں کچھ نہیں کر سکا،میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ یہ میری ناکامی ہے،انہوں نے میری مخالفت کے باوجود سب کو این آر او دیا۔ کیا یہ عمران خان کی غلطی نہیں تھی کہ جو ادارہ ان کے عملاً ماتحت ہی نہیں تھا اس کے کئے گئے فیصلوں کی وکالت کیوں کرتے تھے۔ انہیں ڈٹ کر جنرل باجوہ کو مداخلت سے روکنا چاہیے یا کھل کر بات کرنا چاہیے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کے خاتمہ سے 3ماہ پہلے تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے لیکن پھر خارجہ پالیسی پر ہمارے اختلافات شروع ہوئے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کئی اعتبار سے تنازعہ کا سبب بنتی رہی ہے۔ معاشی معاملات میں بھی مشاور ت ضروری ہوتی ہے کیوں کہ فوج کی ضروریات زیر بحث آنا ضروری ہوتا ہے۔
کیا عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ نہ تھی کہ انہوں نے فوج کے سربراہ کے سہارے لولی لنگڑی حکومت قبول کی جس کا خمیازہ انہوں نے تحریک عدام اعتماد کی صورت میں بھگتا۔ وہ عوام کیلئے قابل قبول ر ہنما ہو گئے تھے۔ عوام ماضی کی حکومتوں میں رہنے والے سیاست دانوں سے مطمئن نہیں تھی جس کا اظہار عوام نے عمران خان کے جلسوں میں شرکت کی صورت میں بار بار کیا ہے۔ ایسی صورت میں تو عمران خان ہوں یا کوئی اور سیاست دان انہیں کسی کا سہارا ہی نہیں لینا چاہیے۔ لیکن پاکستان میں سیاست دان ہر معاملہ میں فوجی قیادت کی طرف دیکھتے ہیں۔ تمام سیاست دانوں کو اپنے اس رویہ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ انہیں یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ صرف اقتدار چاہتے ہیں یا ایسا اقتدار چاہتے ہیں جس میں وہ فیصلے کرنے میں با اختیار ہوں گے۔ عمران خان کو یاد ہوگا کہ جب سپریم کورٹ نے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ سے فیصلہ کرائیں تو عمران خان نے کیوں ایسی قانون سازی کرائی جس کے تحت توسیع پر توسیع رکھی گئی تھی۔ وہ تو تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی وگرنہ عمران حکومت تو جنرل باجوہ کو ملازمت میں مزید توسیع دیتی۔ کیا وزیر اعظم عمران خان کو یہ احساس نہیں تھا کہ مدت ملازمت میں توسیع کئی خرابیوں کا سبب بنتی ہے۔ جنرل ندیم انجم نے تو اپنی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ مارچ کے مہینے میں جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کی مزید توسیع دینے کی پیش کش کی تھی۔ جنرل باجوہ کے ساتھ اختلافات تھے تو یہ پیش کش کیوں کی گئی تھی۔ اگر آپ کی نظر میں آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو پھر اسے توسیع کی پیشکش کیوں کی گئی تھی۔ قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد ٹھیک نہیں ہے۔ 1958 میں پہلے مارشل لاء سے قبل کے آخری سیاسی وزیر اعظم فیروز خان نون سے اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کو زبر دستی مدت ملازمت میں توسیع دلائی تھی اس توسیع کے بعد ہی ایوب خان حاوی ہوتے چلے گئے تھے۔
تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری اسد عمر کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت کہہ چکی ہے کہ فوج کا ادارہ ملکی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گا اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے۔ ہم صرف عوام کی طرف دیکھ رہے ہیں ہم نہ کسی قوت نہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیکھ رہے ہیں۔ فوج کی ملکی سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی جنرل باجوہ نے کرائی تھی۔ اس سے قبل آئی آیس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے آئینی کردار تک محدود رہیں گے۔ عمران خان یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست دانوں کو اپنی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے فوج کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے ،جب سیاست دان بار بار فوج کے سربراہ سے ہی مدد طلب کریں گے تو نتیجہ وہ ہی نکلے گا جس کی عمران خان اب شکایت کر رہے ہیں۔







