الیکشن کرائو، ملک بچائو .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
اس بات سے کسی کا انکار ممکن نہیں کہ پارلیمانی نظام میں الیکشن اہم ترین عمل ہے لہٰذا سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے مقبول ترین لیڈر ہونے کے دعویدار خان اعظم عمران خان نیازی نے ایک نئی سیاسی جذبے کی تحریک ’’الیکشن کرائو، ملک بچائو‘‘ مہم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مطلب الیکشن کی تیاری، حکومت پر دبائو بڑھانا اور عوامی آگاہی ہے۔ ’’لانگ مارچ‘‘ کی طرح اس مہم میں بھی عوامی ردعمل کوئی اچھا نہیں ملا۔ عمران خان کے ’’فالورز‘‘ متوقع امیدوار، جیتے ہارے سابق امیدواران اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے علاوہ عام آدمی اس احتجاج سے بھی دور رہے۔ اس کی وجوہات ہیں اوّل تو عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا سپر سٹار سیاسی رہنما اس مہم کی قیادت نہیں کر رہا۔ دوم ایک بیچارہ عمران خان زخمی حالت میں شہر، گائوں اورعلاقائی تحریک میں جگہ جگہ کیسے جا سکتا ہے؟ یقیناً یہ راز وہ خود بھی جانتے ہوں گے لیکن ایسا انہوں نے اپنے پیاروں کا امتحان لینے کیلئے صرف اس لیے کیا کہ جنرل الیکشن سے پہلے ہی پتا چل جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے؟ اس سے پہلے بھی حضرت اپنی دو نمبر یعنی ’’سیکنڈ اینڈ کمان‘‘ اسد عمر، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی جیسے سیاسی کمانڈرز سے لانگ مارچ کی قیادت کرا کے نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔پیغام سب کو مل گیا کہ ’’عمران نئیں تو کجھ نئیں‘‘ پھر یہ تینوں قائد کی نااہلی پر متبادل بننے کے خواہشمندر ضرور ہیں حالانکہ انہیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے تھا کہ نواز شریف کے بعد جاوید ہاشمی مسلم لیگ نون کے قائد بنے تھے، متوالوں نے ان کا والہانہ استقبال اور پذیرائی ’’ایک بہادر آدمی، جاوید ہاشمی ‘‘ کا نعرہ لگا کر کی اور اس پذیرائی کے ردعمل میں انہیں غلط فہمی ہو گئی کہ وہ بے حد مقبول ہیںلیکن جب وہ آپے سے باہر ہوئے تو بھی باہر نہیں رہے۔ قیدوبند مقدر بنا، برسوں کی قید کاٹ کر رہائی ملی تو متوالوں نے سنٹرل جیل کوٹ لکھپت سے ایک تاریخی جلوس میں انہیں گھر پہنچایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھے مقبولیت کا نشہ وقت اور حالات نے ہرن کر دیا اور سب نے دیکھا کہ ان کی رونمائی پی ٹی آئی میں ہوئی لیکن وہ سکہ بند سیاست دان ہونے کے حوالے سے تحریک انصاف میں جگہ نہیں بنا سکے کہ وہاں روایتی سیاست تھی نہ ہی سیاسی رہنما، وہاں تو سلیکٹرز اور کوچ کا بول بالا تھا لہٰذا ان کی قربت کے باوجود عمران خان کے سامنے ان کا’’دیا‘‘ نہیں جلا اور ان پر سیاست سے زیادہ فالج نے گرفت مضبوط کر لی، یوں سینئر اور صاحب بصیرت ہونے کے باوجود وہ بیکار ہوکر رہ گئے اب کبھی کبھار باسی کڑی میں ابال آتا ہے لیکن بڑی سے بڑی بات پر بھی کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔
بات چل رہی تھی کہ ’’الیکشن کرائو، ملک بچائو‘‘ مہم کتنی ضروری ہے؟ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی ملکی سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے واحد نتیجہ الیکشن کو قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ تجویز دیتے ہیں، بغیر اصلاحات کے الیکشن لڑائی جھگڑے اور منفی نتائج کے سوا ملک و ملت کو کچھ نہیں دے سکیں گے یعنی عمران خان کے سابق اتحادی بھی موجودہ دور میں بنا اصلاحات الیکشن کے مخالف ہیں اس اہم راز سے حکومت بھی واقف ہے۔ وہ سیاسی اور معاشی بحران کے حل کیلئے عمران کو مذاکرات کی دعوت دیتی ہے تو عمران خان الیکشن تاریخ کے بغیر مذاکرات کیلئے تیار نہیں جبکہ حضرت مولانا فضل الرحمن ہر لحاظ سے عمران خان کو بے اعتبار سمجھتے ہیں اس لیے وہ عمران خان کے سوا ہر کسی سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے تمام حامی نہ صرف بروقت صاف و شفاف الیکشن چاہتے ہیں بلکہ دعویدار ہیں کہ پارلیمنٹ کو آئینی و قانونی مدت بھی پوری کرنی چاہیے۔ ان کا یہ مؤقف بھی انتہائی مضبوط ہے کسی بھی توڑ جوڑ سے کبھی اورکسی حال میں بھی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے حالانکہ اتحادی حکومت میں اتنی گنجائش موجود ہوتی ہے کہ اگر بھاری اکثریت نہ ہو تو کسی بھی گروپ کی ادھر سے ادھر ہجرت پر اقتدار یعنی حکومت دھڑام سے گر جاتی ہے اور ایسا ہی عمرانی دور کے اختتام پر ہوا۔ دنیا بھر میں یہ مشق آئینی اور قانونی ہے لہٰذا وہ جمہوریت کے پہلے اصول رواداری اور برداشت سے بھی واقفیت رکھتے ہیں اسی لیے اکثریت ختم ہونے پر فوراً اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن عمران خان صاحب کی ڈکشنری میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ اکثریت ختم ہونے پر اقتدار چھن گیا تو اسمبلی بھی چھوڑ کر باہر آ گئے جن کے استعفے منظور کر کے ضمنی الیکشن کرائے گئے تو ہیلی کاپٹر، ہیلی کاپٹر کھیل کر سب جیت لئے، حکومت
منہ تکتی رہ گئی بلکہ ابھی تک منہ دیکھ رہی ہے کہ عمران خان کس نشست سے حلف اٹھائیں گے کیونکہ باقی نشستوں پر الیکشن تو کرانے ہیں جبکہ عمران خان مختلف تجاویز اور اشاروں کے باوجود پارلیمنٹ میں جانے کی بجائے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑ کر حکومت پر دبائو بڑھانے کی فکر میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سے زیادہ ہردلعزیز کوئی دوسرا بازار سیاست میں موجود نہیں،ان کا یہ خیال بھی ہے کہ الیکشن آج ہوں کہ حکومتی تاخیری حربوں میں سال بعد جیت ان کے قدم چومے گی۔ انہیں یہ یاد ہی نہیں کہ سلیکٹرز اب جانور میرا مطلب ہے نیوٹرل ہو چکے ہیں الیکشن جب ہوں گے عوام قدم کیا منہ بھی نہیں چومے گی اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ ملک کے معاشی اور سیاسی موجودہ بحران میں ان کا حصّہ بھی ہے مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ضمنی الیکشن کی عمرانی کامیابیاں بھی کسی منصوبہ بندی کا شاہکار ہیں۔ انہیں غلط فہمی کا شکار کرنے کیلئے مسلم لیگ نون اور اتحادی حکمرانوںنے اپنا الیکشن رنگ دکھایا ہی نہیں کیونکہ ملتان اور کراچی کی جس سیٹ پر سنجیدہ الیکشن لڑا گیا پیپلز پارٹی جیت گئی توقع ایسی ہی خیبر پختونخوا میں فضل الرحمن سے بھی کی جا رہی تھی لیکن حکومتی مشینری نے ان کی چلنے نہیں دی۔
اس صورت حال میں عوامی رائے یہی ہے کہ عمران خان نے نااہلی اور ناتجربہ کاری سے نہ صرف مہنگائی کی بلکہ پاکستانی تاریخ کے ریکارڈ قرضے لے کر قوم کا بوجھ بڑھایا لیکن ان کی اکثریت چھیننے والے اتحاد نے بھی وعدہ کر کے مہنگائی سے جان نہیں چھڑائی۔ ہر طرف سے ملک کے دیوالیہ ہونے کا شور ہے۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ یہ ایک ایسی خواہش ہے جو عمران خان اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائیں گے وہ ڈیفالٹ کی ہنگامہ آرائی کر کے پاکستان کی ریٹنگ کو دنیا بھر میں خراب کر رہا ہے۔ اس وقت مل بیٹھ کر معاملات طے پانے چاہئیں لیکن عام آدمی یہی جانتا ہے کہ قبل از وقت انتخاب سے ملکی خزانے پر بوجھ تو پڑ سکتا ہے خزانہ بھر نہیں سکتا پھر بھی اقتدار چھیننے پر عمران خان کو انتخاب انتخاب جلد از جلد انتخابات کا دورہ اس لیے پڑا ہے کہ حکومتی تاخیری حربے تحریک انصاف اور عمران خان دونوں کیلئے نقصان دہ ہیں۔ لوگوں کا اندازہ یہ بھی ہے کہ عمران خان اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمات سے بھی خوفزدہ ہیں ابھی ایک میانوالی سے نااہلی ہوئی ہے فارن فنڈنگ، توشہ خانہ کیس کے باعث پارٹی کی سربراہی سے بھی چھٹی ہو سکتی ہے ویسے بھی 2023ء الیکشن کا سال ہے لہٰذا انہیں بھی سیاسی پرندوں کی اڑان برداشت کرنی پڑے گی، اس کے باوجود خان اعظم مطمئن ہیں کہ انہیں اگر جلدی الیکشن مل جائیں تو کامیابی یقینی ہے جو کہ فی الحال مشکل لگ رہا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی کی سرتوڑ کوششیں بھی رائیگاں گئیں پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے،کچھ اہم کھلاڑی اسٹیبلشمنٹ اور طاقت وروں سے رابطہ کی بحالی چاہتے ہیں۔ شیخ رشید ایسے میں مایوس ہو چکے ہیں لیکن ڈیوٹی فل فواد چودھری پتا نہیں کیوں پْرامید ہیں تاہم حقیقت یہی ہے کہ ’’الیکشن کرائو، ملک بچائو‘‘ مہم قیادت کے بغیر پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی اور پنجاب میں بھی عمران خان اپنے رویوں سے پرویز الہٰی کا اعتماد بحال نہیں کر سکے۔ اس لیے چند دنوں میں سب کچھ سامنے آنے والا ہے۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں جو بھی ہو ملک و قوم کیلئے اچھا ہو۔







