ColumnRoshan Lal

ٹی وی ڈراموں کے نسوانی کردار .. روشن لعل

روشن لعل

 

سیاست بھی یہاں سماج کے دیگر اجزا کی طرح کا ہی ایک جز وہے مگر اس کے وجود کو باآسانی دیگر تمام اجزا پر حاوی قرار دیا جاسکتاہے۔سیاست کے دیگر تمام اجزا پر حاوی ہونے کی وجہ سے سماج کا جو اہم جزو بری طرح متاثر ہوا وہ ’’ فنون لطیفہ‘‘ ہے ۔ ٹی وی ڈراموں سمیت فنون لطیفہ کے تمام شعبے لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے اصل ذرائع سمجھے جاتے ہیں۔ تفریح کی فراہمی کے اصل ذرائع کو نظر انداز کرکے ہمارے ہاں اکثر میڈیا ہائوسز سیا ست کو کھیل تماشے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی میں سے لطف و سرور کا ہر سامان برآمدکرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا ہائوسز کے اس رویے کی وجہ سے صرف فنون لطیفہ کو ہی نہیں بلکہ سیاست کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔یہاں کس طرح سے سیاست تفریح بہم پہنچانے کا وسیلہ اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبے رنج و الم میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنا دیئے گئے ہیں اس کا اندازہ سرکاری ونجی ٹی وی چینلوں سے نشر ہونے والے ڈرامے دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ان ٹی وی ڈراموں میں المیوں کے ابلاغ کیلئے استعمال کیے جانے والے اکثر نسوانی کردار مضحکہ خیز حد تک نامناسب محسوس ہوتے ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ لفظ ’’ مضحکہ خیز ‘‘ کو مہمل، طفلانہ، حقارت انگیز اور طیش آور وغیرہ کے مترادف تصورکیا جاتا ہے۔
پاکستانی ٹی وی ڈراموں کے متعلق یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ یہاں ان کا آغاز اور ابتدا میں طے کیے گئے ارتقائی مراحل اس قدر شاندار تھے کہ انہیں کسی بھی فورم پر قابل فخر مثالوں کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ افسوس، کہ انتہائی شاندار آغاز کے بعد ہمارے ٹی وی ڈراموں کامثبت راستوں پر آگے بڑھنے کی بجائے معکوس سمت میںاختیار کیا گیا سفرابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔اس جاری معکوس سفرکے دوران جن نسوانی کرداروں کو اب ہمارے ٹی وی ڈراموں میں دکھایا جارہا ہے انہیں دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے وہ موجودہ سماج نہیں بلکہ کسی اور ہی زمانے کے کردار ہیں۔ہمارے ٹی وی ڈراموں میں دکھائے جانے والی نسوانی کرداروں کی وضع قطع اور لب و لہجہ تو موجودہ دور کا معلوم ہوتا ہے مگر ان کے رویے اور صفات دیکھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے جیسے انہیںقدیم ہندوستان میں لکھے گئے کسی ڈرامے سے مستعار لیا گیا ہو۔ قرون وسطیٰ کے ابتدائی دور میں جو ڈرامے قدیم ہندوستان میں تخلیق ہوئے ان میں ایک اہم ڈرامہ شری رام اور ان کی بیوی سیتا کی کہانی رامائن پر مبنی ہے ۔ قدیم ہندوستان میں رامائن سے پہلے بھی ڈرامے لکھے جاچکے تھے مگر یہ صرف شری رام کی کہانی کا خاصہ ہے کہ اس سے ماخوذ ڈراموں کو اب بھی بھارت اور مشرقی ایشیا کے کئی ملکوں میں پرفارم کیا جاتا ہے۔ شری رام اور سیتا کی کہانی میں ویسے توبیسیوںنمایاں کردار ہیں لیکن ان تمام میں سے چار کردار ایسے ہیں جن کی صفات پرغور کرنے سے ایسے لگتا ہے جیسے انہیں بار بار کوئی خالی جگہ پر کرنے کیلئے ہمارے ٹی وی ڈراموں کا حصہ بنادیا جاتا ہے ۔ ان کرداروں میں رام اور راون دومرد جبکہ سیتا اور سورپ نکھا، دو عورتوں کے کردار ہیں۔رامائن ڈرامے میں شری رام اور سیتا کا کردار مثبت جبکہ راون اور اس کی بہن سورپ نکھا کا کردار منفی ترین ہے۔ یہاں تحریر کا عنوان کیونکہ ’’ ٹی وی ڈراموں کے خواتین کردار‘‘ ہے اس لیے بات کو صرف یہاں تک محدود رکھا جائے گا کہ قدیم ہندوستان میں لکھے گئے ڈراموں میں سیتا اور سورپ نکھا کے کرداروں کی جو صفات بیان کی گئی تھیں انہیں کس طرح ہمارے موجود ہ دور کے ٹی وی ڈراموں میں پیش کیا جاتا ہے۔
رامائن میں سیتا کا کردار ایک ایسی رحمدل ، سادہ اور پاکباز خاتون کا ہے جو ہمدردی میں بھوکے پیاسے فقیر کا روپ دھارنے والے راون کو کھانے کھلانے کیلئے خطرے کی وہ لکیر بھی عبور کر لیتی ہے جو اس کی حفاظت کیلئے لگائی گئی ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ اپنے خاوند شری رام کی اس قدر وفادار دکھائی گئی ہے کہ اس کے سامنے اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کیلئے جلتی ہوئی آگ میں کودنے سے بھی دریغ نہیں کرتی، دوسری طرف راون کی بہن سورپ نکھا کو اس قدر غلیظ، بدبودار اور بے رحم کردار میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ شری رام کے عشق میں پاگل ہو کر یہ بھی نہیں دیکھتی کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہیں۔سورپ نکھا شری رام کو پانے کیلئے کچھ بھی کرنے اور کسی بھی حد تک گرنے کیلئے تیاردکھائی گئی ہے ۔
ہمارے آجکل کے ٹی وی ڈراموں میں عورتوں کو جن کرداروں میں پیش کیا جارہا ہے انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان میں سے کوئی ایک آدھ سیتا جبکہ اس کے ارد گر موجود دیگر تمام عورتیں سورپ نکھا کا کردار ادا کررہی ہیں۔ سیتا جیسا کردار ادا کرنے والی عورت کو اس قدر نیک دکھایا جاتا ہے کہ فرشتے بھی اس سے حسد کرنا شروع کردیں اور سورپ نکھا کے کردار میں نظر آنے والیاں اتنی بدکردار ہوتی ہیں کہ شیطان ان کے شر سے پناہ مانگنے لگ جائے۔ اس طرح کے کرداروں کا حامل ڈرامہ بھارت میںلوگ اب بھی مذہبی تقدس کے تحت دیکھتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ مذہبی تقدس کے تحت رامائن کے کردار دیکھنے والوں کو کسی نہ کسی حد تک تفریح کا احساس بھی ہو جاتا ہو، مگر یہ بات بلاتردد کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں سیتا اور سورپ نکھا جیسے کردار کسی قسم کا مذہبی تقدس نہ رکھنے والے لوگوں کودیکھنے پر مجبورکرنا ہر طرح سے ذہنی اذیت دینے کے مترادف ہے۔ عوامی تفریح کی ضرورت اور اہمیت کے فلسفے سے نا آشنا لوگ یہاں دھڑا دھڑا ایسے ٹی وی ڈرامے بنانے میں مصروف ہیں جن کے مرکزی کرداروں پر تھوڑا سے غور کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی صفات رام، راون ، سیتا اور سورپ نکھا کے کرداروں سے ماخوذ ہیں۔
ہمارے سماج میں عورتوں کا موجودہ کردارکسی طرح بھی سیتا کی ناقابل عمل مثبت صفات اور سورپ نکھا کے ناقابل تصور منفی افعال کا عکاس نہیں ہے۔ آج کے دور کی عورتیںقدیم ہندوستان کے نظام میں نہیں بلکہ موجودہ جدید دور میں رائج نظام کی پیدا کردہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہی ہیں ۔ دور حاضر کی عورتوں کے رویے ، رجحانات اور روزمرہ افعال کسی طرح بھی سیتا اور سورپ نکھا کی صفات کے مماثل نہیں ہو سکتے۔ موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق ہمارے سماج کی عورتوں کا کردار کیا ہوسکتا ہے اور کیا نہیں ہو سکتا ، اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں ٹی وی ڈرامے لکھے اور پیش کیے جانے چاہئیں۔اگر ایسا کرنے سے گریزکرتے ہوئے نسوانی کرداروں کو سیتا اور سورپ نکھا کے روپ میں ہی دکھایا جاتا رہا تونتیجہ پاکستانی ڈراموںسے بیزاری کی شکل میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے لوگ تفریح کے نام پر رنج و الم کا ابلاغ کرنے والے ٹی وی چینلوں سے منہ موڑ کر انٹر نیٹ کے توسط سے تفریح کے متبادل ذرائع کی طرف مائل ہو جائیں۔ ایسا ہونے سے ڈرامہ انڈسٹری کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو یہاں فلم انڈسٹری کا ہو چکا ہے۔

جواب دیں

Back to top button