ColumnImtiaz Aasi

حکومتی اتحاد کو خطرہ ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی ریکوڈ ک معاہدے کے خلاف صوبے بھر میں اتوار کو احتجاج کرے گی اس سلسلے میں بی این پی کے صدراختر مینگل نے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں حکومت سے علیحدگی کے معاملے پر بھی غور ہوگا۔بدقسمتی سے رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے عوام قیام پاکستان سے اب تک اپنے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔سیاست دان آئین اور قانون کی باتیں کرتے نہیں تھکتے عملی طور پر آئین اور قانون سے ہر ممکن دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔بلوچستان کا معاملہ سیدھا سادہ ہے نہ تو آئینی طور پر اس میں کوئی ابہام ہے اور نہ قانونی طور پر کوئی رکاوٹ ہے اس کے باوجود وفاقی حکومت غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے کرتے وقت آئین اور قانون کو بھلا دیتی ہے۔ملکی آئین صوبوں کومعدنی وسائل کی ملکیت کا حق دیتا ہے تو کسی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں وہ آئین سے ہٹ کر کسی صوبے کے حقوق سلب کرے۔آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ معدنی وسائل صوبوں کی ملکیت ہوں گے جبکہ آئیڈرو کاربن میں صوبوں اور وفاق حکومت کا نصف حصہ ہوگا جس کے بعد اس معاملے پر کسی قسم کے تنازعے کا سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔آئین نے صوبوں کی سمندری حدود بھی واضح کر دی ہیں جس میں بیس لائن سے بارہ ناٹیکل صوبوں کی ملکیت ہو گی تاکہ کسی قسم کا کوئی تنازعہ پیدا نہ ہونے پائے۔ اس کے باوجود گوادر میں مچھلیاں پکڑنے کا کنٹریکٹ وفاقی حکومت نے دے رکھا ہے جس کی آمدن سے صوبے کو کچھ نہیں مل رہا۔خان آف قلات اور قائد کے درمیان معاہدے کی رو سے بلوچستان کی اراضی کی فروخت خان آف قلات کی اجازت سے مشروط ہے اس معاملے میں بھی صوبے کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔آئینی طور پر ریکوڈک کا تیس ہزار اسکوئر کلو میٹر رقبہ صوبے کی ملکیت ہے ۔اصل تنازعہ تو یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ ریکوڈک پر کام کرنے والی بین الاقوامی کمپنی کو منصوبے کی آمدن کا پچاس فیصد ملے گا اور 25 فیصد وفاق اور بلوچستان کو دیا جائے گا۔

خبروں کے مطابق وفاقی حکومت نے بلوچستان کے اعتراض کے پیش نظر اس کے شیئر کو 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کر دیا ہے لیکن بلوچستان تو آئینی طور پر اپنا حق مانگ رہا ہے جس کے مطابق کمپنی اور بلوچستان دونوں کا پچاس فیصد شیئر بنتا ہے۔ ریکوڈک کے نئے معاہدے کے خلاف بی این پی ،جے یو آئی اور بلوچستان کی دیگر جماعتوں کا اجماع ہے۔ان کا ایک ہی مطالبہ ہے بلوچستان کو ریکوڈک کا نصف شیئر ملنا چاہیے جو آئینی طور پر صوبے کا حق ہے۔مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی بلوچستان میں اچھا خاصا ووٹ بنک رکھتی ہے اس لیے بی این پی کے ساتھ مل کر احتجاج جے یو آئی کی مجبور ی ہے۔بلوچستان کا بڑا مسئلہ لاپتا افراد کی بازیابی کا بھی ہے۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کے بڑے بھائی کو لاپتا ہوئے عشرے گذر نے کے باوجود اس کا کوئی اتاپتانہیں۔بی این پی کے مطالبات پر سنجیدگی پر غور نہ کیا گیا تو حکومتی اتحاد سے بی این پی کی علیحدگی وفاقی حکومت کیلئے بڑا مسئلہ بن سکتی ہے۔اختر مینگل کا ایک بڑا مطالبہ بلوچستان میں قیام پذیر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی ہے۔پی ٹی آئی دور میں بی این پی اور تحریک انصاف کے درمیان انہی معاملات کے حل نہ ہونے پر اختر مینگل اور عمران خان کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں جوبعد ازاں حکومت سے علیحدہ ہونے کی صورت میں سامنے آئی تھیں۔
بلوچستان کا سب سے پرانا مطالبہ جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور خان آف قلات میر احمد یار خان کے مابین طے پانے والے معاہدے پرعمل درآمد ہے ۔قائد اور خان آف قلات کے درمیان معاہدے میں خارجہ، دفاع اور کرنسی وفاق کے زیر کنڑول تھے جب کہ دیگر امور پر صوبے کاکنٹرول تھا ۔قائد اعظم اور خان آف قلات کے درمیان ہونے والے معاہدے پر شہید وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور وائسراے لارڈ ماونٹ بیٹن کے بھی دستخط موجود ہیں۔حکومت پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ نون یا کوئی اور حکومت ہو اسے آئین کے تحت صوبوں کے حقوق کو تسلیم کرنا آئینی ضرورت ہے۔تاسف ہے ملک میں ایک طویل عرصے تک مارشل لاء نافذ رہا اور سیاسی حکومتیں حکمرانی کرتی رہیں اس کے باوجود آئین میں صوبوں کو دیئے گئے حقوق کی طرف کسی نے توجہ دینے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے بلوچستان جیسا بڑا صوبہ ابھی تک پسماندہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ شروع سے وفاقی حکومت کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان حصول روز گار کیلئے در بدر ہیں ۔اگرچہ وفاق میں صوبے کا کوٹہ ضرور ہے جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔جے یو آئی جو اس وقت حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے جس کے پاس وفاق میں کئی وزارتوں کے ساتھ خیبر پختونخوا کی گورنر شپ بھی ہے بی این پی کے حکومت سے نکل جانے کی صورت میں جے یو آئی کیلئے حکومت سے علیحدگی اس کی مجبوری بن جائے گی کیونکہ بلوچستا ن میں جے یو آئی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔بلوچستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائےتوپاکستان کے قیام کے وقت وہاںکے سرداروں نے قائد کے ساتھ اپنی اپنی ریاستوں کے الحاق کا معاہدہ کرتے وقت کوئی مطالبہ نہیں رکھا تھا جو ان کی آزاد مملکت سے محبت کا عکاس تھا۔اس وقت بلوچستان کے بہت سے سرکردہ لوگ جلا وطن کی زندگی گذار رہے ہیں وفاقی حکومت کو چاہیے ایسے لوگوںکو واپس لا کر قومی دھارے میں شامل کرے، جیسا کہ خان آف قلات نواب سلیمان دائود اس وقت لندن میںسیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں آئے روز ہونے والے دہشت گردی کے ہونے والے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت اور دیگر ذمہ دار اداروں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم حق تعالیٰ سے دعا گو ہیں وہ ہمارے وطن کو امن کا گہوارہ بنا دے تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے۔

جواب دیں

Back to top button