ColumnNasir Naqvi

رنگریز .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

مرزا اسد اللہ خاں غالب نے برسوں پہلے کہا تھا:
رنگریز جسم و جاں نے از خمستانِ عدم
خرقہ ہستی نکالا ہے بزنگ احتیاج
اس شعر کو کس نے کس طرح سمجھا اور اس کے کیسے کیسے مطلب نکالے، اس کی تشریحات میں کیا کچھ لکھا گیا، اس سے قطع نظر معروف شاعرہ، کالم نگار صوفیہ بیدار اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعہ کا عنوان ہی’’ رنگریز‘‘ رکھ دیا۔اس مجموعہ کی اشاعت لاہور کے ایک ممتاز اشاعتی ادارے نے کی اور خوبصورت انداز اپنایا۔ اس کا ٹائٹل بھی اپنے نام کی مناسبت سے جاذبِ نگاہ ہے۔ یہ رنگین بھی ہے اور اس میں افسانوی اشارے بھی موجود ہیں۔ کتاب کیلئے صوفیہ بیدار نے چودہ افسانوں کا انتخاب کیا ہے، انہوں نے مختلف کہانیوں کو انتہائی ذمہ داری،الفاظ کے چنائو اور اپنے شاعرانہ رنگ سے سینچا ہے۔ کہانیاں محبت کی ہیں لیکن انداز بہت سوں سے جدا ہے۔ لہٰذا طاہرہ اقبال نے دیباچے میں یہ پھڈا ڈال دیا ہے کہ ادبی پنڈت فیصلہ کریں کہ صوفیہ شاعرہ ہے یا کہ ایک منفرد افسانہ نگار۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی کہانیوں کو افسانوی رنگ دے کر وہ کچھ کہہ دیا جو آج کل علامتی طور پر بھی نہیں کہا جا رہا۔ اب کوئی اس سے خواہ کتنا ہی اختلاف کرے، منکر نہیں ہو سکتا۔ یقیناً یہی صوفیہ بیدار کی ہنرمندی اور چالاکی ہے کیونکہ وہ صوفی نہ بھی سہی بیدار ہے، اس کی ہر کہانی میں لفظوں کی بُنت سے ایسے اتار چڑھائو موجود ہیں جن سے کہانی بجھارت محسوس ہوتی ہے۔ پھر بھی پوشیدہ ہرگز نہیں رہتی۔ اس کا لفظ لفظ ناپ تول کے ساتھ جملہ سازی کے خوبصورت بندھن میں بندھا ہے جس سے اس کی شاعرانہ انداز کی جھلک بھی موجود ہے۔
صوفیہ بیدار نے اپنے معاشرے کو بہت قریب سے دیکھا، پرکھا بلکہ جہاں گردی اور کتاب دوستی ہر راز سے واقف ہے۔ عورت ہونے کے ناطے اپنی معاشرتی بیداری میں اس نے بڑے سلیقے سے ’’حوا کی بیٹی‘‘ کے دکھوں کو نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ ان کے سدھار کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ فلسفے اور لبرل ازم کے ساتھ رجعت پسند رجحانات کا تذکرہ بھی کہانیوں میں موجود ہے لیکن جو کچھ ہے وہ حقیقت کے قریب تر کہا جا سکتا ہے کیونکہ کوئی افسانہ اور کہانی سیدھی سیدھی لفظوں اور محاوروں کی بنیاد پر زبردست نہیں بنائی گئی۔ محبت، عشق زمینی بھی ہے زمانی بھی، ہراسگی، محنت مزدوری اور محدود و لامحدود وسائل کے مسائل بھی تواتر سے زیر بحث لائے گئے پھر بھی ایسی بھرمار نہیں کہ کہیں یکسانیت اور واعظ پایا جائے۔ چند مواقعوں پر مشکل پسندی اور مختلف الفاظ کا استعمال قاری کے ذہن پر بوجھ بھی بنتا ہے لیکن صوفیہ اسے چند لمحوں میں ہی آسان بنا دیتی ہے کیونکہ اس کا قلم عام لوگوں کی نبض سے خاصا واقف ہے۔ اسی لیے ان کی تحریروں میں طنز و تنقید کی چھریاں بھی ہیں اور معاشرتی نشیب و فراز کے رنگ بھی۔ ذرا ملاحظہ کریں۔ غیرت کے نام کی چند سطریں:
’’ہاں اور تمہاری آئیڈیل وہ عورتیں ہیں جو شہروں اور دیہاتوں کی دور دراز زمینوں سے رسومات میں گزر بسر کرنے والوں میں سے اپنی پسند کی کہانی اٹھا لیتی ہیں پھر جنسی تشدد کے واقعات کو سڑکوں اور چوراہوں، پبلک پلیس اور کلبوں سے لے کر اخباروں کے دفتروں تک اچھالتی ہیں۔ بتائو۔۔ بتائو۔۔ آج تک ان ہتھکنڈوں سے کتنی کمی آئی ہے اس نوع کے جرائم میںبلکہ بچہ بچہ گینگ ریپ کے نام سے آشنا ہے۔
’’جنسی تشدد دنوں طرح کی عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے، لٹ جانے کے بعد کچھ سڑکوں، چوراہوں پر زہر کے گھو نٹ کو گلے سے اتار لیتی ہیں۔ تمام خاندان کے پینے کے پانیوں میں عصمت دری کا زہر نہیں گھولتیں۔۔۔ مگر انصاف؟؟؟
کونسا انصاف سونیا؟ اب تک کوئی واقعہ بتائو جس میں عورت کو انصاف مل گیا ہو اور اس کے بعد زندگی نارمل گزری ہو یا پھر ان کے والدین کی ان کی بیاہی بہنوں، بن بیاہی بہنوں کی زندگی سہی رہ سکی ہو؟
یہ سچ ہے مگر کیا زندگی اپنے برعکس ہوسکتی ہے۔ کیا زندگی کو اس نظر سے دیکھا جا سکتا ہے کیااس ذلت کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ سونیا سوال پرسوال کئے جا رہی تھی؟
اگر آپ اور میں ان سطور کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو اس ایک پیرے میں حوا کی بیٹی سے ناانصافی، بے جا تشدد اور مجبوری کی داستان کھل کر سامنے آ جائے گی۔ لیکن صوفیہ بیدار کی کاری گری یہ ہے کہ آپ اس کی سادہ مگر ’’بل کھاتی‘‘ تحریروں میں لفظوں اور واقعات کے اتار چڑھائو کو محسوس کرتے ہوئے کہانی کی بجھارت کو بوجھنے کے لیے اس کے اختتام سے پہلے نظریں نہیں ہٹا سکتے۔ یہی ہنر مندی قابل ستائش ہے۔ افسانہ نگاروں کی دنیا میں کسی مستند شاعر کی آمد نئی بات ہرگز نہیں، نئی بات تو صوفیہ بیدار نے ازخود پیدا کرنی ہے کہ وہ اسی
طرح افسانہ نگاری کی دنیا میں رہنے کے لیے کتنا وقت صرف کرتی ہے اگر اسے اپنے دل و دماغ پر مکمل گرفت رہی تو یہ بات آگے ضرور بڑھے گی اور اس کا قلم اس قدر توانا ہے کہ اسے منفرد مقام مل جائے لیکن ذرا سی کوتاہی بھی ہوئی تو شاعرہ صوفیہ اس کا گلا دبا دے گی کیونکہ وہ افسانہ نگار سے نہ صرف سینئر ہے بلکہ اس حوالے سے اس کی اپنی شناخت ہے۔ یہ کم بخت حسد ہر جگہ موجود ہوتا ہے اس سے بچنا بھی ہر شخصیت کے بس کی بات نہیں، ویسے بھی بڑے درخت کے سائے تلے چھوٹے درخت کا پروان چڑھنا مشکل ہی ہوتا ہے۔ اب یہ ذمہ داری صوفیہ بیدار کی ہے کہ وہ احتیاط سے دونوں کے پھولنے پھلنے کے لیے آبیاری کرے۔ ہر دو صورت میں داد و تحسین اسی کا مقدر بنے گی لیکن ہماری روایت ہے کہ کچھ والدین اپنے بڑے پر زیادہ مہربان ہوتے ہیں اور کچھ کو سارا پیار چھوٹے پر آتا ہے یہاں یکساں محبت کا تقاضا ہے، انصاف کا ترازو صوفیہ کے ہاتھ میں ہے اگر اس نے ڈنڈی نہ ماری تے ’’ستے خیراں‘‘، ورنہ یہ لڑائی اس کے اپنے وجود میں در آئے گی کہ صوفیہ بیدار بڑی شاعرہ ہے کہ اچھی افسانہ نگار ، دنیا ئے ادب میں یہ تکرار تو اب رکنے کی نہیں، اسے تنقید اور تعریف کا سامنا رہے گا کیونکہ جہاں مثبت تنقید نہ ہو وہاں تعریف کے راستے بھی بند ہی رہتے ہیں۔ ہماری دعا اور خواہش ہے کہ صوفیہ بیدار اسی ہمت و عزم سے کامیابیاں سمیٹتی رہے اور اس کا قلم چلتا رہے اور جس طرح ادب نواز معروف شاعر و ادیب منصور آفاق کے وسیلے سے ’’رنگریز‘‘ کو منزل مل گئی، اللہ محمد فہد کو بھی ہمت حوصلہ دے کہ وہ اسی طرح ’’لفظ‘‘ کی حرمت اور کتاب دوستی کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ ’’رنگریز‘‘ کی خوبصورت اشاعت ان کی ادبی نزاکتوں کے علم کو ظاہر کرتی ہے، یقیناً شعبہ طباعت کے حوالے سے ’’رنگریز‘‘ ایک منفرد اور جاذبِ نظر عکس ہے۔

جواب دیں

Back to top button