قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
’’حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل بادشاہ۔ وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا رہتا ہے۔ ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی، اسی کیلئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا: مجھے خدا کا خوف ہے۔ وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں۔‘‘(صحیح البخاری)
عدل درحقیقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بند گی نہیں اس کے سوااور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے۔ کسی کی بند گی نہیں سوا اس کے، زبردست ہے حکمت والا۔(آلِ عمران:۸۱)حق تعالیٰ خود عادل ہے، اس کا نازل کر دہ قانون سراپا عدل ہے، اس لیے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔ قرابت کے مو قع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جانب داری کی خاطر عدل وانصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل وانصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے: ’’اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کی طرف کی، اگر چہ نقصان ہو تمہارا، یا ماں باپ کا، یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیرخواہ تم سے زیادہ ہے، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں۔‘‘ (النساء: ۵۳۱)اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عموماً بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کیلئے آدمی ہر جائز وناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل وانصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں: دراصل کا ئنات کا نظام ہی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کیلئے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ حاکمِ عادل کا وجود اس عالم کیلئے سایہ رحمتِ الٰہی اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے۔
کسی زمانے میں مطلق العنان بادشاہ کوسِ ’’لِمَنِ الْمُلْکُ‘‘ بجاتے تھے اور آئین وقانون ان کے اشاروں پر رقص کر تا تھا، لیکن دورِ جد ید نے ملو کیت کو جمہور یت میں بدل ڈالا،آئین ودستور وضع کیے گئے، بادشاہت کی جگہ کہیں صدارتی نظام رائج ہوا اور کہیں وزراتی نظام نا فذ کیا گیا، گویا دورِ قدیم کے شہنشاہ کا منصب دورِ جدید کے صدرِ مملکت یا وز یر اعظم کو تفویض ہوا۔ فرق یہ پڑا کہ دورِ قدیم میں بادشاہ اوپر سے آتے تھے اور دورِ جدید میں نیچے سے جاتے ہیں لیکن عدل و انصاف محض ملوکیت یا آج کی جمہوریت کا نام نہیں، بلکہ اس کا مدار خدا ترس اور عدل پرور اربابِ اقتدار پر ہے۔ حاکم اعلیٰ عدل و انصاف کے جوہر سے مالامال ہو تو ملوکیت بھی رحمت ہے، یہ نہ ہو تو جمہوریت بھی چنگیزی کا روپ دھار لیتی ہے، جس طرح مملکت کی آبادی و شادابی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، اسی طرح اشخاص کی بقاء وفلاح عدل وانصاف کی مرہون منت ہے۔کسی مملکت کی تباہی وبربادی کے عوامل کا جائزہ لیں تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی، قوم کا فسق وفجور اور حکمرانوں کا ظلم وعدوان، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، الٰہی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق ومعصیت کے نشہ میں بدمست ہوکر حلال وحرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر وظالم حاکم مسلَّط کردیئے جاتے ہیں۔ قرآن کر یم میں کسی قوم کی تباہی وبر بادی کے بارے میں ایک قانون عام بیان فرمایا ہے: ’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر نا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچا تے ہیں، تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے،پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں۔‘‘(بنی اسرائیل:۶۱)
قوم کا فسق وفجور اور ملوک وسلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی وبر بادی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ظلم واستبداد کی چکی میں پہلے سر کش قوم پستی ہے، بالآ خر یہی چکی ظالم وجا بر کو بھی پیس ڈالتی ہے۔ اہلِ دانش کا قول ہے کہ:’’کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے، مگر ظلم واستبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘ درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف واقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کیلئے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہوجاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہا مان اور شداد ونمرود کو جانے دو، ماضی قریب میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے۔کیا ہمیں خود ہماری مملکتِ خدا داد پاکستان کی چھوٹی سی عمر میں جابر حکمرانوں کی بے بسی کے عبرت ناک مظا ہرے دیکھنے کو نہیں مل رہے؟
بہر حال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کیلئے بے حد ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار عدل وانصاف کو قائم کریں اور قوم فسق ومعصیت کا راستہ ترک کرکے انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے۔ دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤ نوش، فسق وفجور اورفحاشی وبدکاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہو لناک ہوا۔پاکستان کی پاک سر زمین جوحق تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی اس کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں عدل وانصاف کا دور دورہ ہوتا، پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا، تقویٰ وطہارت کی فضا قائم ہوتی، راعی اور رعایا اسلام کا سچا نمونہ پیش کرتے اور یہ مملکتِ خداداد دورِ جد ید میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی علمبر دار ہوتی، لیکن افسوس صدا فسوس کہ یہاں نہ صرف یہ کہ دورِ غلامی کے تمام آثارِ کفر کو جوں کا توں باقی رہنے دیا گیا، بلکہ آزادی کے بعد یہ فرض کر لیا گیا کہ ہم خدا ورر سولﷺ سے بھی آزاد ہیں۔ اسلام کے مقابلہ میں نئے نئے عزموں کے نعرے لگاکرخدا فر اموشی کی حالت ایسی نا گفتہ بہ صورت اختیار کر چکی کہ اس کے انجام کا تصور کر کے بھی رو نگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔







