تقسیم کرو اور حکومت کرو ۔۔ روشن لعل

روشن لعل
آج کل وطن عزیز میں کچھ ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جنہیں دیکھ کر دھیان انگریزوں کی اس پالیسی کی طرف چلا جاتا ہے جس پر عمل کر کے نہ صرف انہوں نے برصغیر میںاپنا راج قائم کیا بلکہ اسی کی وجہ سے پھر متحدہ ہندوستان تقسیم بھی ہوا۔ متحدہ ہندوستان میں انگریزراج قائم ہونے میںجس پالیسی نے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا اسے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ پالیسی انگریز انگلینڈ سے اپنے ساتھ لے کر نہیں آئے تھے بلکہ مقامی لوگوں کے رویے، عادات واطوار اور کردار دیکھ کر تیار کی تھی۔ انگریزوں نے پہلے پہل اس پالیسی کو محض تجربے کے طور پر آزمایا ۔ یہ تجربہ کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے پھر اسی پالیسی کو ہندوستان میں پیش قدمی اور قبضہ کرنے کیلئے ر ہنما اصول بنا لیا۔ اس پالیسی کا ابتدائی عملی مظاہرہ یہاں ’’تقسیم کرو اور فتح‘‘ کے طور پر کیا گیا۔ جب لگاتار فتوحات کے نتیجے میں ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو گیا تو پھر انگریزوں نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت اپنا اقتدارمستحکم کیا۔ اس پالیسی کی بدولت انگریزوں نے جس حد تک ممکن تھا ہندوستانیوں کو مذہب، ذات پات، لسانیت اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کیا اور یوں برصغیر میں آئندہ دو صدیوں تک اپنی طاقت اور تسلط برقرار رکھا۔
انگریزوں نے ہندوستان میں ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت جو کامیابیاں حاصل کیں اس کی سب سے بڑی مثال انگریزوں کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست ہے۔ مرہٹوں کے آٹھویں
پیشوا بالاجی باجی رائو کے دور میں مراٹھاریاست ہندوستان میں ایک طاقتور سلطنت بن کر ابھری۔ مغلوں کے زوال کے بعد مرہٹے ہی ہندوستان کے سب سے زیادہ علاقے پر قابض ہوئے مگر بالاجی باجی رائوکے مرنے کے بعد حکمرانی کے دعویدار مرہٹے اور ان کی سلطنت انتشار کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔ بالاجی باجی رائو کے مرنے کے بعد اس کا بھائی رگوناتھ رائو حکمرانی کا دعویدار تھا مگر تخت پر باجی رائو کے بڑے بیٹے مادھو رائو نے قبضہ کیا۔ مادھو رائو کے مرنے کے بعد رگوناتھ رائو نے پھر سے پیشوائی اپنے نام کرنے کی کوشش کی مگر اس مرتبہ بھی ناکام رہا اور تخت پر مادھو رائو کا چھوٹا بھائی نارائن رائو بیٹھ گیا۔ رگوناتھ رائو کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے اپنے بھتیجے کی حکومت ختم کرنے کیلئےسازشیں کرنا شروع کردیں۔ بمبئی اور بنگال کے علاقوںمیں اپنے قدم جما چکے انگریز یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انگریزوں نے تقسیم کرو اور فتح کرو کی پالیسی پر عمل کر نے کیلئے رگو ناتھ رائو کو اس کردار کیلئے چنا جس کیلئے وہ میر جعفر
کو استعمال کرچکے تھے۔ اس دوران نارائن رائو کے مرنے کے بعد پیشوا تو اس کے کمسن بیٹے مادھو رائو دوئم کو بنایا گیا جبکہ حکومت کی باگ دوڑنانا فرنویس نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور رگو ناتھ رائو اس مرتبہ بھی پیشوا بننے کے خواب ہی دیکھتا رہ گیا۔ مراٹھا علاقوں میں اپنے قدم جمانے کیلئے بمبئی پریذیڈنسی کے نگران انگریزوں نے رگوناتھ رائو سے معاہدہ کر کے مرہٹوںکے ساتھ جنگ شروع کردی۔اس جنگ میں انگریز اور رگوناتھ رائو کی فوجیں ہار گئیں ۔ اس شکست کے بعد انگریز گورنر جنرل وارن ہیسٹنگ نے یہ تاثر دیا کہ بمبئی پریذیڈنسی کے نگران انگریزوں نے کیونکہ بنگال کو اعتماد میں لیے بغیر رگوناتھ رائو کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لہٰذا وہ اس معاہدے کو منسوخ کرکے مرہٹوں کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔نانا فرنویس کے ساتھ کیے گئے نئے معاہدے میں انگریزوں نے اقرار کیا کہ وہ اب رگوناتھ سے لاتعلق رہیں گے جبکہ دوسری طرف مرہٹے ہندوستان میں موجود یورپی عناصر کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔گورنر جنرل اور نانا فرنویس کے درمیان معاہدے کے باوجود بمبئی پریذیڈنسی کے انگریزں نے رگوناتھ رائو کے ساتھ تعلقات استوار رکھے اورمراٹھا سلطنت کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ جب نانا فرنویس ان باتوں سے آگاہ ہوا تو اس نے انگریزوں کے اس رویے کو
ان کی وعدہ خلافی تصور کرتے ہوئے فرانسیسیوں سے تعلقات استوار کرنا شروع کردیئے۔ انگریز گورنر جنرل نے تاثر تو یہ دیا تھا کہ بمبئی پریذیڈنسی نے بنگال سے بالا بالارگوناتھ رائو سے تعلقات قائم کیے تھے مگر مرہٹوں کے فرانسیسیوں سے تعلقات استوار کرنے کی آڑ میں دونوں علاقوں کی انگریز فوج نے مل کر مرہٹوں پر حملہ کردیا۔ اس جنگ میں انگریزوں کی شکست کے بعد بمبئی پریذیڈنسی نے مرہٹوں کے ساتھ امن معاہدہ کیا مگر انگریز گورنر جنرل ہیسٹنگ نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا۔ نانا فرنویس نے جب دیکھا کہ انگریز اپنے مقاصد کے حصول کیلئے نہ صرف ہندوستانیوں کو تقسیم کرتے ہیں بلکہ اپنے اندر پھوٹ کا تاثر دے کر انہیں گمراہ کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں تو وہ انگریزوں کی بجائے ہندوستان کے مقامی حکمرانوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی طرف مائل ہوا تاکہ مل کر انگریزوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ مقامی حکمرانوں نے انگریزوں کے خلاف اتحاد تو کر لیا مگرانگریزوں کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے سامنے یہ اتحاد زیادہ دیر نہ قائم نہ رہ سکا ۔ اس اتحاد کے خاتمے کے بعد انگریزوں نے مرہٹوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا جو کئی سال تک قائم رہا۔اس معاہدے کے دوران مرہٹوں اور انگریزوں کے درمیان تو جنگ نہ ہوئی مگر مرہٹوں نے مقامی حکمرانوں کے خلاف اپنی طاقت کا استعمال شروع کردیا۔ مقامی حکمرانوں سے مسلسل جنگوں کی وجہ سے جب مرہٹوں کی عسکری طاقت کمزور ہوئی تو وہ طاقتور انگریز فوجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہے ۔یوں مرہٹے 1818 کی جنگ میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھا کر اپنی سلطنت کا خاتمہ کروا بیٹھے۔
’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی جس پالیسی پر انگریزوں نے 17 صدی میں عمل کرنا شروع کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم در تقسیم کے نتیجے میںہندوستانی عوام کے اتنے دھڑے بن گئے کہ طاقت رکھنے کے باوجود انگریزوں کیلئے متحدہ ہندوستان کو اپنی کالونی بنائے رکھنا ممکن نہ رہا۔ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے نتیجے میں ہی بالآخر ہندوستان تقسیم ہوا اور 1947 میں بھارت اور پاکستان دو الگ ملکوں کی شکل میں معرض وجود میں آئے۔1947 کے بعد بھارت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ن کی بڑی وجہ وہ تقسیم ہے جس کی گہری بنیاد انگریز استوار کر کے گیا تھا۔ ہندوستان کے برعکس پاکستان کے مسائل کا بڑی حد تک تعلق اس سے ہے کہ یہاں طاقت کے حامل ایک گروہ نے کبھی اپنی ظاہری اور کبھی باطنی حکومت قائم کرنے کیلئے انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی جاری رکھی ۔ کچھ دن پہلے یہاں یہ امید پیدا ہونے لگی تھی کہ سیاست میں عدم مداخلت کے اعلان کے ساتھ ہی ابتقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا مگر مونس الٰہی اور پرویز الٰہی کے بیانات سامنے آنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی یہاں ابھی تک ترک نہیں کی گئی ۔ نہ جانے کیوں یہ پالیسی ترک نہیں کی جارہی حالانکہ عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل کا نتیجہ ملک ٹوٹنے کی شکل میں کئی مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔







