ColumnNasir Naqvi

ہائے اقتدار۔۔۔۔ وائے اندھی محبت .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

اس بھری دنیا میں اس راز سے سب ہی واقف ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے جو لآوگ انسانوں سے محبت کرتے ہیں وہ بھی دل وجاں سے قربان ہوتے ہیں اور جو جا نوروں سے محبت کرتے ہیں ان کی مثال بھی کسی سے کم نہیں ہوتی،سیانے کہتے ہیں اگر جوانی کی محبت ناکام ہوجائے تو انجام اکثر اوقات ‘خودکشی بنتا ہے جو زیادہ بہادر اور دلیر سمجھتے ہیں وہ اپنی محبت کو گولی مار کر اپنی کنپٹی پر پستول چلانا فرض سمجھتے ہیں لیکن آدم زادوں کی بڑی عمر یعنی بڑھاپے کی محبت انتہائی ظالم سمجھی جاتی ہے اسکی مثال دھوبی کے کتے کی ہوتی ہے نہ گھر کا نہ گھاٹ کا،جلتا کڑھتا رہتا ہے نہ مرتا ہے اور نہ ہی مرنا چاہتا ہے اسے محبت مل بھی جائے تب بھی خوار اور نہ ملے تب بھی خوار۔اسے کبھی حالات جینے نہیں دیتے کبھی ضعیفی بھرم قائم نہیں رہنےدیتی اس کے باوجود کچھ ایسے بھی عاشق مزاج ہوتے ہیں کہ ان کی محبت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور یوں سمجھے کہ ان کی محبت سہ ماہی ،شش ماہی بلکہ بعض اوقات سالانہ بھی ہوتی ہے ،ایسے لوگوں سے سوال کر دیں کہ جناب آپ محبت کے نام پر گھاٹ کا پانی پی کر محبت کو بدنام کر رہے ہیں؟ تو سمجھدار ساس جیسا جواب ملے گا جب بہو بنی تو ساس اچھی نہیں ملی اور ساس بنی تو مجھے بہو نکمی اور نالائق ملی،ہمارے نصیب ہی ہارے ہوئے ہیں لیکن اقتدار سے محبت والے کسی وقت بھی انسان سےجانورمعا فی چاہتا ہوں جانورنیوٹرل ہوتا ہے آج کے دور میں لہٰذا شاید میری بات کوئی اور رخ اختیار کر جائے اسلئے جانور کی بجائے درندہ سمجھ لیں یعنی اقتدار کی محبت میں خون سفید ہو جاتا ہے باپ بیٹے اور خونی رشتے فراموش کر دییے جاتے ہیں تاریخ بھری پڑی ہے ایسی داستانوں کی اس لیے اس اندھی محبت کو وطن عزیز کی سرحدوں میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تحریک آزادی پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں جن شخصیات نے جان ومال کی قربانی دی ان میں نواب زادہ خان لیاقت علی خان انتہائی اہم ،با صلاحیت اور مخلص انسان تھے، انہیں اسی میرٹ پر
مملکت پاکستان کا پہلا وزیراعظم نامزد کیاگیا لیکن جب اقتدار ملا تو تاریخ گواہ ہے کہ پہلے گورنر جنرل اور پہلے وزیراعظم میں تعلقات اس حد تک خراب ہوگئے کہ جب وزیراعظم لیاقت علی خان زیارت بلو چستان بابائے قوم کی عیادت کیلئے گئے تو انھوں نے منہ دوسری جانب موڑلیا اور محترمہ فاطمہ جناح کے سوال پر قائداعظم نے فرمایا تم کیا سمجھتی ہو؟ یہ میری عیادت کرنے آیا ہے یہ تو دیکھنے آیا ہے کہ بڑھا ابھی مرا نہیں، چونکہ دونوں مخلص قوم تھے ان پر اقتدار کی اندھی محبت کا الزام لگانا یقیناً ناانصافی ہوگی لیکن اس بات سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کارنامہ انگریز جرنیل اور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے اقتدار کی محبت کے حوالے سے ہی رونما ہوا تھا یہ الگ بات ہے کہ قدرت نے بابائے قوم سے محروم کردیا اور امریکی سازش (سی آئی اے)نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی جان لے کر ایسا رواج جنم دے دیا کہ اب اس سے جان چھڑانے کی کوشش بھی کارگر نہیں ہو رہی،نومولودریاست میں خواجہ ناظم الدین،محمد علی بوگرہ،حسین شہید سہروردی اور سکندر مرزا سے بھی اقتدار سے اندھی محبت کا خواب دیکھنے والے نے کمال مہارت سے ہاتھ کر دیا اور خو د اقتدار سے دس سال چمٹا رہا،اندھی محبت جب عروج پر تھی ملک کے طول و عرض میں جشن اقتدار کا چرچا تھا کہ اچانک فرعون کے گھر موسیٰ کی مثال بن کر ذوالفقار علی بھٹو نےعوامی طاقت کاسہارا لے کر تحت اقتدار سے گھسیٹ لیا اور اقتدار حادثاتی طور پر جنرل محمد یحییٰ
خان کی لونڈی بن گیا، ان کے مشغلے مختلف تھے لہٰذا محبت پہلے ہی شراب اور شباب میں بٹی ہوئی تھی اس لیے نہ انہیں اقتدار سے محبت ہوسکی اور نہ ہی انہیں ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان نے موقع دیا آزادانہ اور جا ندار تاریخی الیکشن ہوئے اقتدار کی محبت میں ایسی کھینچا تانی ہوئی کہ وطن عزیز کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اقدار ’’اِدھر تم اُدھر ہم‘‘میں تقسیم ہو گیا ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر نئی تاریخ رقم کی گئی بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے پھانسی کے تختے پر پہنچا دیا اور آمر جنرل ضیاء الحق اقتدار کی اندھی محبت میں مبتلا ہوکر بارہ سال قابض رہا،اسکا خاتمہ بھی ایک بین الاقوامی سازش ہوا لیکن کسی نے اس کے سانحے سے سبق نہیں سیکھابھٹو خاندان کے چشم وچراغ مارےگئےلیکن ان کی صاحبزادی بےنظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے میں کا میاب ہوگئیں لیکن اقتدار سے محبت کرنے والے عاشقوں نے انہیں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا،پھر میاں نواز شریف کی محبت رنگ لائی اور وہ وزیراعظم بن گئے لیکن اندھی محبت کی کہانی ’’کیدو‘‘انہیں بھی برداشت نہ کرسکےانہیں بھی چلتا کیا،محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر انتخابی معرکہ جیت لیا اقتدار ان کی جھولی میں آگیا لیکن اس اندھی محبت کی انہیں بڑی قیمت ادا کرنی پڑی،ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو قتل کر دیئے گئے اور حالات ایسے بگڑے کہ ان کی محبت اقتدار پھر چھین لی گئی اور بھاری میڈیٹ کے ساتھ اقتدار ایک مرتبہ پھر نوازشریف کو پیارا ہوگیا پھر بھی اقتدار کےپس پردہ عاشق زبردستی کے صدر پرویز مشرف نے شب خون مار کراقتدار پر قبضہ کر لیا ان کی محبت میں چند سیاستدانوں نے سہولت کاری کی ذمہ داری ادا کی اور ان کی محبت بھی قریباً آٹھ سال پھولی پھلی،پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ نظیر بھٹو اسی لیاقت
باغ میں قتل کر دی گئی جہاں برسوں پہلے شہید ملت لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی تھی لیکن اقتدار کی محبت کم نہیں ہوئی ان کی پارٹی اور اہل خاندان گڑھی خدا بخش کو آباد کرنے کے بعد بھی اقتدار کی محبت نہیں بھولے ،عشق ومحبت کے تمام امتحان دئیے،عوامی خدمت اور ریاست کے استحکام پر مشکلات کے دریا عبور کر کے ایوان اقتدار تک پہنچ گئےاور طاقت وار نام نہاد رانجھے کو مار بھگایاوقت کے کیدوں سے بھی دودو ہاتھ کئے پانچ سال پورے ہوئے تو اقتدار کی دیوی روٹھ گئی،سہولت کار عوام نے بھی ساتھ نہیں دیا اور خاص کسی دوسرے کے چکر میں پڑ گئے، نوازشریف کی محبت اقتدار جاگی تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہ دوبارہ نکالے جانے کے بعد بھی تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے اس لیے کہ ان کی محبت سچی تھی تبھی تو ملک سے جانے کے بعد بھی ایک مستقل مزاج عاشق کی طرح تمام رکاوٹیں توڑ کر اقتدار کو سینے سے لگانے میں کامیاب ہوئے پھر بھی مخالفین انہیں چین سے محبت کی پینگیں چڑھاتے نہ دیکھ سکے اور پانامہ کا طوق ان کے گلے میں ڈال کر ان سے بھی محبت چھین لی گئی لیکن ہماری روایت ہے کہ محبت کا جھگڑا بھی پنچایت سے حل کیا جاتا ہے لہٰذا پنچایت کے فیصلے پر محبت شاہد خاقان عباسی کے حوالے کر دی گئی انہوں نے بھی محبت اقتدار میں اپنے والد کی قربانی دی تھی یوں قربانی رائیگاں نہیں گئی حالانکہ اس اندھی محبت کے دعوے دار ایک سے زیادہ تھے، انہوں نے گلے پڑا ڈھول بجایا،حالات نے کروٹ لی اقتدار کی دیوی نگاہ انتخاب ایک ہینڈسم اور سمارٹ کھلاڑی پر پڑ گئی اور ذمہ داروں نے دیوی کی تمنا پر اسکی پذیرائی کی اور شہزادہ شرماتے ،کھیلتے،کودتے محبت اقتدار کے امتحان میں سرخرو ہوگیا لیکن اس نے دوسرے پرانے اور نئے امیدواروں سے محبت اقتدار کا بھوت اتارنے ٹھان لی، سب باری باری پکڑے اور جھکڑے گئے تاہم محبت کےمیدان میں مشکلات تو ہوتی ہیں لہٰذا ثابت قدمی پر محلے داروں اور ذمہ داروں سے مل کر اناڑی کھلاڑی شہزادے کو لے بیٹھے،شہزادہ آج بھی گلی گلی شہر شہر پریشان پھر رہا ہے کہ میری محبت کیوں چھینی گئی؟سازش میں اپنے پرائے سب شامل ہیں لیکن کوئی اسکی سننے کو تیار نہیں اسے دیوانہ سمجھا جا رہا ہے اقتدار والے فخریہ کہہ رہے ہیں محبت ہماری تھی شہزادہ تو اناڑی تھا اس لیے کٹھ پتلی بنا رہا،اس نے بھی یہ راز فاش کر دیا کہ اسے محبت تک پہنچانے والے ہی طاقت وار تھے میں تو معصوم تھااور معصوم ہوں لیکن کوئی اس کا دعویٰ تسلیم کرنے کو تیار نہیں، شہزادہ مقدمات میں بھی الجھا ہوا ہے پھر بھی کہتا ہےبچ سکتے ہو بچے جاؤ میں خطرناکہ ہو گیا ہوں، اسے سمجھانے بجھانے کیلئے پنیچایت کا راستہ بھی دکھایا گیا لیکن وہ کہتا ہے میں سمارٹ ہوں،دوسروں سے مختلف ہوں مجھے میری محبت چاہیے ورنہ میں کسی کو توال اور تھانیدار نہیں چھوڑوں گا؟ وہ اقتدار کے راستے میں گاتا ،بجاتا،شور مچاتا جا رہا ہے اس کے پرستار بھی ساتھ ہیں لیکن مخالفین اس پر آوازیں کس رہے ہیں’’ رانجھا رانجھا آکھدی میں آپ رانجھا ہوئی‘‘ زمانہ جانتا ہے کہ اقتدار کی دیوی مہربان ہو تو سب اچھا، ناراض ہوجائے تو اپنے سہولت کار ہی ’’ولن‘‘بن جاتے ہیں صدام حسین ،انورسادات اور کرنل قدافی اس اندھی محبت میں گرفتار بڑے عاشق تھے ان کے انجام سے بھی کوئی اندھی محبت سے دستبرداری نہیں چاہتا،سب کا خیال ہے جو بھٹو کے ساتھ ہوا، جس محبت میں صدام حسین جیسا بہادر اور قوم پرست مارا گیا ویسا میرے ساتھ نہیں ہوگا حالانکہ اس دعویٰ کی ضمانت کسی کے پاس نہیں ،پھر بھی اندھی محبت جاری ہے تین مرتبہ نوازشریف اس محبت میں ناکام ہوئے چوتھی مرتبہ بھی عاشقوں کی دوڑ میں شامل ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئی لیکن محبت اقتدار کم نہیں ہوئی آصف زرداری بھی گڑھی خدا بخش کے مکین بننے کیلئے راضی ہیں بلکہ انہوں نے اپنے جواں سال بیٹےبلاول بھٹو زرداری کو بھی اس محبت کی وصولی کیلئے ٹریک پر پہنچا دیاہے –
ہائے اقتدار۔۔۔۔ وائے اندھی محبت

جواب دیں

Back to top button