ColumnKashif Bashir Khan

وہ نیروبی کیوں پہنچا؟ ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کا قتل نہایت ہی افسوسناک اور قبیح عمل ہے اور پاکستان بھر میں الیکٹرونک میڈیا دیکھنے والے پاکستانی اس بہیمانہ قتل پر افسوس اور دکھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر اس قتل کے بعد ایک پوسٹ لگائی تھی جس کا متن تھا کہ پاکستان حق سچ بولنے اور لکھنےوالے صحافیوں کیلئے خطرناک ملک بن چکا ہے۔ اس پر سرکاری و اداروں کے زرخرید صحافی نما غلاموں نے اعتراضات بھی کئے لیکن اکثریت میری اس پوسٹ کی حامی تھی کہ واقعی پاکستان میں اصل صحافیوں کا رہنا اور کام کرنا نہایت ہی مشکل ہو چکاہے۔ دراصل سچ بولنے اور لکھنے والے صحافیوں کے خلاف کارووائیاں آج نئی نہیں ہیں بلکہ پچھلے 50 سال سے ہر حکمران کرتا چلا آ رہا ہے لیکن 80 کی دہائی میں صحافیوں کو خریدنے کا جو سلسلہ میاں نواز شریف نے شروع کیا تھا اس سے صحافیوں کی جانیں جانے کا سلسلہ کچھ عرصہ کیلئے رک گیا تھا کہ ملک میں موجود صحافیوں کی اکثریت کو پیسوں،اچھی نوکری اور سرکاری عہدوں سے خریدا جانے لگا اور اس کے بعد بھی اگر کوئی سرپھرا صحافی سر اٹھاتا سب سے پہلے اخبارات اور چینلز پر اس کا روزگار بند کیا جاتا اور آخری حربہ اسے ہلکی پھلکی یا شدید مارپیٹ ہوتا تھا۔اخبارات کے مالکان کو اشتہارات اور ایڈیٹر،ایڈیٹوریل انچارج وغیرہ کو اچھی نوکریوں اور بیرونی دوروں پر ساتھ لے کر جانے کی روایات بھی میاں نواز شریف نے ڈالی تھی۔آج بھی ایک صحافی میڈیا چھوڑ کر میاں شہباز شریف کا معاون خصوصی ہے لیکن دراصل وہ پاکستان میں میڈیا مینجمنٹ کر رہا ہے۔
میاں شہباز شریف کے پچھلے ادوار وزارت اعلیٰ پنجاب میں پی ایچ اے کا وائس چیئر مین ایک پرانا صحافی تھا اسی طرح ایک صحافی جو فارغ البال ہے وہ شہباز شریف کا پنجاب میں ایسا معاون خصوصی تھا جو ہر کیبنٹ میٹنگ میں ساتھ بیٹھتا تھا۔اسی طرح ریلوے میں ایک پوسٹ ڈی جی پی آر کی نکال کر ایک صحافی جو اب انتقال کرچکاہے، کو پہلے ڈی جی لگایا گیا اور پھر ایک رپورٹر جو آج بھی میڈیا پر بیٹھ کر شریفوں کا نمک کا حق حلال کرتا ہے کو اس پوسٹ پر بٹھا کر ہر مہینے لاکھوں کا ٹیکہ عوام کو لگایا گیا۔اگر آج کی صحافت کا بغور جائزہ لیں تو صاف معلوم پڑتا ہے کہ ایک دو کو چھوڑ کر قریباً تمام اخبارات اور چینلز پر حکومت و اداروں کا کنٹرول ہے اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی خبر نہیں چھپ سکتی اور نہ ہی چینل پر کوئی پروگرام طاقتور حکمرانوں و طاقتور طبقوں کی مرضی کے بغیر نشر ہو سکتا ہے۔گویا پاکستان میں صحافت پر جبر کی انتہا ہے اور اصل اور سچے صحا فیوں کی نہ صرف زبان اور قلم بندی کی جارہی ہے بلکہ ان پر رزق کے دروازے بھی ہر طریقے سے بند کئے جاتے ہیں جو نہایت افسوسناک ہے۔اصل اور حقیقی صحافت پاکستان جیسے ملک میں اب آسان نہیں رہی کہ صحافت بھی مافیاز کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ الیکٹرانک میڈیا نے جہاں عوام تک خبر کی ترسیل بیڈ روم تک آسان بنائی وہاں حقیقی صحافت جو صرف سچ اور غیر جانبداری پر مشتمل ہوتی ہے کو بھی مافیاز اور مذموم مقاصد والے مالکان کے پاس گروی رکھ دیا۔ صحافت میں پیسہ اور اشتہارات کے ذریعے صحافتی اداروں کی جو خریدوفروخت اسی اور نوے کی دہائی میں شروع کی گئی تھی اس نے صحافیوں کے ضمیر کو خریدا اور اب ہر اخبار اور چینل میں صحافی کہلوانے جانے والے ایسے افراد کی بہتات ہے جو سیاسی جماعتوں اور اداروں کی ترجمانی نہایت بے شرمی سے کرتے ہیں۔مالی مفادات نے صحافت کو بدنام کر دیا ہے اور ایسے صحافی بھی ملک میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے مختلف حکومتوں سے پٹرول پمپ تک ہزاروں روپے میں بطور تحفہ حاصل کئے۔ایک صحافی تو ایسا بھی ہے جو کھلم کھلا نواز لیگ کا حقہ بھرتا ہے اور اسے پیمرا کاچیئرمین لگا دیا گیا تھا جسے بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے اس عہدے سے اتارا تھا۔پاکستان میں اگر ایک جانب کچھ نام نہاد صحافیوں کو حکمران ہیلی کاپٹروں ہر چڑھائے رکھتے نظر آئے تو بہت سے مرد و خواتین نام نہاد صحافی ایسے بھی ہیں جو سرکاری خرچوں ہر عمرہ و حج بھی کرتے دکھائی دیئے۔پاکستان کی سیاست میں بگاڑ پیدا کرنے میں زرخرید صحافیوں کا کردار بھی قابل مذمت رہا۔بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جیسے جنرل ضیاءالحق نے حقیقی سیاست دان میدان سیاست سے نکال کر 1985 میں کونسلر لیول کے سیاست دان ملکی سیاست میں گھسانے تھے ایسا ہی صحافت کے ساتھ کیا گیا اور من پسند افراد کو اینکر، تجزیہ کار اور کالم نویس وغیرہ بنا کر اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی گئی اور ان افراد پرقومی خزانے سے کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ کئے گئے۔مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر جوچند نام نہاداینکر اور تجزیہ نگارقابض ہیں اور ان کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں اور اداروں سے ہے۔ان کے علم اور دانش کا معیار اور مقدار بھی کسی سے چھپی نہیں ہے۔
پی ٹی وی کو آج بھی حکومت سیاسی مقاصد کیلئے ویسے ہی استعمال کر رہی ہے جیسے ماضی میں حکومتیں استعمال کرتی رہی ہیں۔بات شروع ہوئی تھی ارشد شریف کے کینیا کے نواح میں وحشیانہ قتل سے اور کہاں پہنچ گئی۔آج جب پاکستان میں سوشل میڈیا کا دور تیزی سے سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے تو الیکڑانک میڈیا کی اہمیت بتدریج کم ہوتی نظر آتی ہے اور اس اہمیت کم ہونے میں ان نام نہاد دانشوروں کا بھی ہاتھ ہے جو مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں کی ترجمانی میں ہر حد عبور کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن پرنٹ میڈیا کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے کہ پرنٹ میڈیا میں وہ صحافی ہی لکھ سکتا ہے جوصحافتی امور پر دسترس رکھتا ہو۔پاکستان میں صحافیوں کو مالی مفادات کےعوض مختلف حلقوں کی جانب سے اپنے بیانئے کی تشہیر اور راےعامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی روش نے بہت بڑا بگاڑ پیدا کیا ہے اور ماضی میں ایک سکوٹر سے ہیلی کاپٹر اور جہاز تک پہنچنے والے نام نہاد اینکر کو آج جب لاہور کے تحریک انصاف کے ایک منحرف ایم پی اے کے صوبائی چینل پر بیٹھ کر ماضی میں اپنی کہی ہوئی باتوں
کی نفی کرتے دیکھتا ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ یہ صاحب اب’’ان‘‘ کے کام کے نہیں رہے۔ارشد شریف کا کینیا میں قتل مشکوک ہے کہ الجزیرہ،کینیا اور عالمی میڈیا میڈیا نیروبی پولیس کی غلط فہمی کی بناء پر چلائی ہوئی گولی کا نتیجہ قرار دینے کے نیروبی پولیس کے بیان پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کینیا کے ایک اخبارنیشن نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ارشد شریف کی ہلاکت کے اسباب وہ ہیں جو اخبارات اور میڈیا میں لکھے اور بتائے نہیں جارہے۔پاکستان میں ارشد شریف پر درجن بھر مقدمات وفاقی حکومت نے درج کروائےاور اسے ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ وفاقی حکومت نے دبئی کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ اسے دبئی سے نکالا جائے اور ارشد شریف دبئی سے نیروبی(کینیا) جانے پر مجبور ہوا جہاں موت اس پر گھات لگائے بیٹھی تھی۔جس ملک میں لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو کے قتل کے آج تک اسباب نہیں مل سکے وہاں ارشد شریف بے چارے کے قاتل اور اسباب کہاں ملنے والے ہیں۔ ارشد شریف کی المناک ہلاکت ان صحافیوں کیلئے سبق بھی ہے جو مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر صحافت کرتے ہیں کہ پھر وہ انہیں آزادانہ صحافت یا اختلافی راہ اختیار نہیں کرنے دیتے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو ازخود نوٹس لینا ہو گا کہ ارشد شریف پر پاکستان میں مقدمات کس نے درج کرواے اور پھر دبئی کے حکمرانوں کو ارشد شریف کو دبئی سے نکالنے کا خط وفاقی حکومت نے کیوں لکھا کہ اربوں روپے کی کرپشن کے سزا یافتہ ملزم نواز شریف کو تو آج تک کوئی پاکستانی عدالت یا حکومت برطانیہ سے نہیں نکلوا سکی۔

جواب دیں

Back to top button