
سی ایم رضوان
وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہوتے ہی پی ٹی آئی قیادت اور نون لیگ کی مخالف شخصیات کی جانب سے پچھلے چند دنوں سے نہ صرف میاں برادران پر تنقید کی گردان ایک بار پھر زور وشور سے جاری ہو گئی بلکہ عدالت کے اس فیصلے کو بھی بے تکی تنقید اور مخالف بیانات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایف آئی اے میں درج شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف یہ کیس کم و بیش ڈیڑھ سال کے عرصے تک زیر سماعت رہا جبکہ لاہور کی خصوصی عدالت نے 10 اکتوبر 2022 کو سپیشل سنٹرل کورٹ کے جج اعجاز حسن اعوان نے وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں بریت کی درخواستوں پر سماعت میں دلائل مکمل ہونے پر یہ فیصلہ سنایا۔ اس کیس میں ان دونوں رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور پھر ضمانتیں بھی منظور ہوئیں۔ شہباز شریف وزیراعظم اور حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بننے کے دوران بھی عدالت پیش ہوتے رہے، جبکہ ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ عدالت میں پیش ہوتے رہے اورشہباز شریف اور حمزہ شہباز کی جانب سے امجد پرویز ایڈووکیٹ نے پیروی کی۔ رمضان شوگر ملز اور آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کیس، کرپشن کے الزام پر نیب میں درج کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایسرٹ ریکوری یونٹ کے سابق سربراہ شہزاد اکبر کی ہدایت پر اسی کیس میں منی لانڈرنگ کے الزامات پر مشتمل ایک الگ کیس وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں بھی درج کیا گیا تھا۔ اس کیس کی الگ سے سماعت جاری رہی۔ نیب کیس احتساب عدالت جبکہ ایف آئی اے کا یہ کیس سپیشل کورٹ سنٹرل میں زیر سماعت رہا۔ کیس میں کئی گواہان کے بیانات بھی قلمبند ہوئے۔ ملک مقصود نامی گواہ فوت ہوچکے ہیں، جنہیں انتہائی تضحیک کے ساتھ پی ٹی آئی جلسوں میں ’’مقصود چپڑاسی‘‘کہہ کر پکارا جاتا رہااور وکیل امجد پرویز کے مطابق کسی بھی گواہ نے اپنے بیانات کے دوران شہباز شریف یا حمزہ شہباز کو نامزد نہیں کیا۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا تھا کہ تفتیشی نے گواہ اسلم کے بیان کو توڑ مروڑ کرچالان میں پیش کیا ہے۔ اسی طرح ایف آئی اے نے اسلم زیب بٹ کو گواہوں کی فہرست میں شامل تو کیا مگر پیش نہ کرنے کا بھی کہا تھا۔ وکیل امجد پرویز نے بتایا تھا کہ اسلم زیب بٹ گواہ ہیں اور ان کے والد اورنگزیب بٹ اسی کیس میں ملزم ہیں۔ منی لانڈرنگ کے اس کیس میں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل کے دوران بھارتی سیاستدان ایل کے ایڈوانی کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس میں ناجائز فائدے لینے کے ویڈیو بیانات کے باوجود عدالت نے الزام کو تسلیم نہیں کیا تھا جبکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا کیس تو بریت کیلئے ایل کے ایڈوانی کیس سے بھی زیادہ مضبوط وجوہات پر کھڑا ہے۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے عدالت میں موقف پیش کیا تھا کہ تفتیشی مکمل ریکارڈ لے کر پیش نہ ہو سکا، والیم 3 میں لف اے ڈی دستاویزات میں ان چار ترسیلات جن کے بارے میں الزام تھا کہ گلزار کی وفات کے بعد مسرور انور نے رقم جمع کروائی اور نکلوائی اس کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ۔ یہ کہ اس کیس میں ایک پیشی پر آ کر وزیر اعظم شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر مل سے متعلق کیسز ہیں، جج نے شہباز شریف سے استفسار کیا تھا کہ کیا ان کاروباروں میں ان کے کوئی شیئرز ہیں؟ جس پر وزیر اعظم نے جواب دیا تھا کہ میرا کوئی شیئر نہیں ۔ آشیانہ کیس میں ان کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا گیا جبکہ کیسز میں لاہور ہائی کورٹ مفصل فیصلہ دے چکی ہے، جس میں واضح کیا گیا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ اس کیس کے تفتیشی افسر سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان بھی کچھ عرصہ قبل ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہوگئے تھے۔ ان دو شخصیات کے اچانک وفات پاجانے کے الزامات بھی بغیر کسی ثبوت یا وجہ کے میاں شہباز شریف ہر لگائے جاتے رہے اور ہر موڑ پر یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ میاں برادران عدالتوں، ججوں حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور اپنی مرضی اور حمایت میں فیصلے لے کر حالات اور سیاست کو اپنے حق میں کر لیتے ہیں۔ قدم قدم پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان کا ہر فورم برائے فروخت ہے اور میاں برادران اور نون لیگ خریداری کرلیتے ہیں۔ صرف ایک جماعت اور ایک خاندان پر الزام لگانے کیلئے پورے نظام کو گندا کرنے کی یہ روش جو پچھلے کئی سالوں سے نون لیگ کے مخالفین نے اپنائی ہوئی ہے۔ اس میں آج تک کوئی کمی نہیں آئی حالانکہ اب تو ان پر بھی ویسے ہی الزام لگ رہے ہیں جو کہ سابقہ دور میں نون لیگ اور اس کے قائدین پر لگتے رہے ہیں اور ان الزامات میں سے اکثر سے لیگی قائدین باعزت بری بھی ہو چکے ہیں۔اسی طرح ممتاز قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کی جانب سے نہ صرف چور چور کی گردان دہرائی گئی بلکہ عدالت کے اس فیصلے پر بھی شدید اعتراض کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر نام لے کر الزام لگایا گیا کہ انہیں ان (میاں برادران) کو بری نہیں کروانا چاہیے تھا۔ یعنی کھل کر یہ تاثر دیا گیا کہ عدالت کا یہ فیصلہ کسی دباؤ یا اثرورسوخ کے تحت آیا ہے، جس پر وزیراعظم میاں شہباز شریف کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے بیرسٹر اعتزاز احسن پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اعتزاز احسن حقائق کے منافی بات کرتے ہیں، ان کو ماضی میں متعدد بار نظرانداز بھی کیا گیا لیکن حقائق کے منافی بات کرنے پر جواب دینے کے وہ پابند ہیں۔نواز شریف، شہبازشریف اور مریم نواز نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی، مریم نواز نے عدالتوں میں 96 پیشیاں بھگتیں، میرٹ پر بری ہوئیں، عمران دور میں شریف فیملی کے خلاف پوری ریاستی طاقت استعمال کی گئی لیکن ہر بار اور ہر مقدمے میں شریف فیملی کو آزادانہ عدالتی کارروائی اور انصاف کے اصولوں کے مطابق کیسوں کی سماعتوں کے بعد قانون کے عین مطابق ریلیف ملا ہے۔ اس کے باوجود سمجھ سے بالاتر ہے کہ اعتزازاحسن کس طرح بغیر ثبوت کے الزام لگا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کو بھی اس الزام میں ایف آئی اے نے گرفتار کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں آرمی چیف کا نام لے کر ایک بھونڈا الزام لگایا تھا۔ اب اعتزاز احسن نے بھی اسی طرح کی حرکت کر کے ثابت کیا ہے کہ ہمارے ہاں قانون، اخلاقیات اور انسانی اقدار کو جب چاہے، اپنے مقاصد پر قربان کر کے ذاتی گروہی اور جماعتی مفاد حاصل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔







