بے یقینی کا علاج کریں ! .. علی حسن

علی حسن
حیدرآباد پریس کلب میں اتوار کے روز معروف کالم نگار، تجزیہ کار اور سابق اعلیٰ سرکاری عہدیدار اوریا مقبول جان تشریف لائے تھے۔ ان کا حیدرآباد کا دورہ تو سیرت النبیﷺکے ایک اجتماع سے خطاب کرنا تھا لیکن کلب میں ان کی تشریف آوری کو سیکریٹری حمید الرحمان نے باضابطہ بنایا۔جناب اوریا پڑھے اور سنے جانے والی شخصیت ہیں۔ مطالعہ سے فیض یاب کرنا جانتے ہیں اور تجربہ سے مایوس نہیں کرتے ہیں۔ اوریا موجود ہوں اور ان کے مطالعہ اور تجربہ سے فائدہ نہ اٹھایا جائے، خود کو بے فیض رکھنے والی بات ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے موجودہ حالات کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں اور خصوصاً سن 1970-71 کی روشنی میں گفتگو کریں تو ان کے سامعین کو حالات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے طویل جواب دیتے ہوئے سمجھایا کہ موجودہ حالات میں بے یقینی کی کیفیت ویسی ہی ہے جیسی 1970میں دیکھنے کو ملی تھی۔ پھر انہوں نے کمال کا ایک جملہ کہا کہ 1971 میں عوام کی حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کا خمیازہ پاکستان نے بھگتا۔ اپنے اس جواب کو انہوں نے آج کے حالات سے جوڑا اور کہا کہ ایک سیاسی رہنماء اپنی مقبولیت کے اوج پر ہیں۔ اسے سمجھنا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور اس تبدیلی سے انکار کا نتیجہ خمیازے کی صورت میں ہی بر آمد ہو سکتا ہے۔ جب شہر شہر جوق در جوق لوگ کسی کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں تو لوگوں کی آواز پر کان دھرنا چاہیے۔
موجودہ حالات کی بے یقینی، مایوسی لوگوں کو کسی الجھن میں مبتلا کر کے حالات اور ملک سے ہی لاتعلق کردیتے ہیں۔ یہ لاتعلقی بے نتیجہ نہیں رہتی ہے۔ سابق مشرقی پاکستان میں تو لاتعلقی نہیں تھی ، وہاں لوگ حالات سے جڑے ہوئے تھے، لیکن سابق مغربی پاکستان میں لوگوں کو لاعلم رکھا گیا تھا جس کا نتیجہ لاتعلقی نکلا تھا۔ گھرانے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تقسیم ہیں اور یہ تقسیم ہی انتخابی عمل کے ذریعہ فیصلہ کرے گی کہ پاکستان پر آئندہ انتخابات کے انعقاد کے بعد حکمرانی کس سیاسی جماعت کی ہوگی۔ ایک بے یقینی کو تو خود جنرل قمر جاوید باجوہ نے واشگاف الفاظ میں یہ کہہ کر واضح کر دیا کہ وہ نومبر میں اپنی مدت ختم کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔ جنرل باجوہ کی تین سالہ اضافی مدت نومبر میں ا ختتام پذیر ہوگی۔انہوں نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران کہا ہے کہ مسلح افواج خودکو سیاست سے دور کرچکیں اور دور ہی رہنا چاہتی ہیں۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ظہرانے سے خطاب میں انہوں نے اپنی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ماہ بعد عہدے کی دوسری مدت پوری ہونے پر
ریٹائر ہو جا ئو ں گا۔ اس بات کا اظہار پہلے بھی کیا جاچکا ہے،فوج سیاست سے دورہے اور دور ہی رہے گی۔اپنے وعدے کے مطابق عمل کریں گے۔ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کی بیمار معیشت کو بحال کرنا معاشرے کے ہر حصے دار کی ترجیح ہونی چاہیے ۔ مضبوط معیشت کے بغیر قوم ہدف حاصل نہیں کرسکے گی اور مضبوط معیشت کے بغیر سفارتکار ی نہیں ہوسکتی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ہفتہ کے روز پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس کی پاسنگ آئوٹ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ عدم استحکام پیدا نہیں کرنے دیں گے، کسی ملک، فرد یا گروہ کی پاکستان کو سیاسی و معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش عوامی حمایت سے ناکام کریں گے۔ دنیا بدل گئی، ہمیں بھی تبدیل ہو جانا چاہیے ورنہ اسٹیٹس کو کی قیمت ادا کرنا پڑے گی ، فیک نیوز اور پراپیگنڈے پر توجہ نہ دیں، ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے بھوک، غربت، جہالت، بڑھتی آبادی، موسمیاتی تبدیلی اور بیماریوں کا ملکر مقابلہ کرنا چاہیے، ہمسایوں کے ساتھ تمام مسائل پرامن طور پر حل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔
فوج کے سربراہ کے واضح بیانات سے غیر یقینی کی کیفیت کسی حد تک ختم ہوجانی چاہیے۔ لوگ سر گوشی کے انداز میں ایسی گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ نہ جانے کیا ہونے جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں پر مشتمل سولین لوگوں کی حکومت کام کر رہی ہے۔ یہ شاید کام ہی کا بوجھ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے کابینہ کے اراکین کی تعداد 75 ہوگئی ہے۔وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی تعداد 29 پر پہنچ گئی جبکہ 13 ستمبر کو بھی وزیر اعظم شہباز شریف کے 8 نئے معاونین خصوصی کی تقرری کی گئی تھی۔ کابینہ میں اب تک کی آخری شمولیت قانون دان عرفان قادر کی ہے جنہیںوزیر اعظم شہباز شریف نے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ تعینات کیا ہے۔ کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق عرفان قادر کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے، تاہم وزیر اعظم نے معاون خصوصی کو کوئی قلمدان نہیں دیا ۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کو معاون خصوصی خزانہ تعینات کیا گیا جن کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا۔ ایک اور نوٹیفکیشن کے مطابق نوابزادہ افتخار احمد خان،مہر ارشاد احمد خان، رضا ربانی کھر،مہیش کمار، فیصل کریم کنڈی اور سردار سلیم حیدر وزیر اعظم کے معاون خصوصی مقرر کئے گئے ہیں۔ تسنیم قریشی اور محمد علی شاہ کو بھی وزیر اعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔ موجودہ کابینہ میں 34 وزراء ، 6 ایڈوائزر اور 28 سے 29 معاون خصوصی ہیں جن میں اکثریت کے پاس کوئی وزارت نہیں لیکن اسلام آباد میں اقتدار کی راہ داریوں میں سب ہی لوگ تیز رفتاری کے ساتھ چل رہے ہیں بلکہ بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے حکومتی اتحاد ی رکن قومی اسمبلی خالد مگسی حکومتی اتحادیوں پر برس پڑے اورکہا کہ حکومت میں جو لوگ بیٹھے ہیں یہ سارے عمران خان کو نکالنے آئے تھے، اب سب وزارتوں کی لالچ میں پڑ گئے ہیں، اتحادیوں کو مشورہ ہے بہتر ہے سارے استعفیٰ دیدیں۔ ہم حکومت کے اتحادی ہیں، ان سے بہترمعاملات چلا کر دکھائیں گے۔ یہ وزارتوں کو چھوڑ دیں ہم بہتر کر لیں گے، حکومتی اتحادی تو اسمبلی میں آتے ہی نہیں معاملات کیسے چلیں گے۔ ہم اتحادی ہیں جو اس حکومت کو لیکر آئے اب ہمیں موقع دیا جائے۔ ان کا ٹارگٹ عمران خان کو نکالنا تھا وہ پورا ہو گیا۔ وزارتیں تو ان کا مقصد ہی نہیں تھا،ان سب کو استعفیٰ دینا چاہیے۔ حکومت کے ایک اور اتحادی کو جھٹکا لگا ہے کہ وفاقی حکومت نے کامران ٹیسوری نامی شخصیت کو اسی ہفتہ سندھ کا گورنر مقرر کیا ہے۔ ٹیسوری حال ہی میں ایم کیو ایم میں شامل ہوئے تھے ۔ ان کی شمولیت کے بعد انہیں ڈپٹی کنوینر رابطہ کمیٹی مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی تقرری کے بعد پارٹی میں شدید نوعیت کے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ٹیسوری کی وجہ سے ہی پہلے فاروق ستار اختلافات کا نشانہ بنے تھے اور حال ہی میں خالد مقبول صدیقی پارٹی کے ساتھیوں کے نشانے پر آگئے تھے ۔ کامران تو گورنری کے مزے اڑائیں گے لیکن ایم کیو ایم میں ساتھیوں کے درمیاں بد اعتماد ی کی جو دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں ، بھلا دڑاڑ کبھی ختم ہوتی ہے؟







