الخدمت فاؤنڈیشن کی سیلاب میں خدمات .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
اسلام نے ویسے تو ہمیشہ ہی اپنے بھائیوں، پڑوسیوں اور جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں کے لوگوں کے ساتھ بلاتفریق مذہب و ملت احسان اور اچھے برتاؤ،خیرخواہی و ہمدردی کا حکم دیاہے مگر بعض خاص موقعوں اور ناگہانی حالات میں ہماری یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔قدرت کی جانب سے بعض دفعہ ہماری آزمائش کیلئے اور کبھی کبھی ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے بھی مصیبت و آفت کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ایسے حالات میں سب سے پہلے توہمیں اپنے روزمرہ کے اعمال اور اپنے کردار و اخلاق کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم بطورمسلمان اپنے دین اور دینی احکام کی کس حد تک پیروی کررہے ہیں اورہم سے کہاں کہاں چوک ہورہی ہے،مگر اس کے ساتھ بطورانسان ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ایسے ناگہانی آفتوں کے موقعوں پرایک دوسرے کیلئے خیر، بھلائی و ہمدردی کا ہاتھ بڑھائیں اور دکھ دردکو بانٹنے کی کوشش کریں۔ اللہ کے نبی ﷺنے مصیبت زدہ انسان کی مدد کرنے اور اس کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کا اظہار کرنے پر بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ ہمارے تومذہب میں ہی انسانیت نوازی اور باہمی خیر خواہی کا عنصرابتداسے شامل ہے، لہٰذا ہمیں اس روح کو اپنے اندر محسوس کرنا چاہیے اور جب موقع ہوتو اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون پیش کرنا چاہیے۔
حضور اکرم ﷺکی ایک حدیث ہے،جس میں آ پﷺفرماتے ہیںکہ جس نے کسی مسلمان کے دنیوی دکھ تکلیف کو دورکردیا تواللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی تکلیف کو دورفرمادیں گے،جس نے کسی تنگ دست کو آسانی فراہم کی،تواللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں آسانیاں فراہم کریں گے، جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی تواللہ تعالیٰ اس شخص کی دنیا و آخرت میں ستر پوشی کریں گے اوراللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی اعانت میں لگا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی مددمیں مصروف رہے۔ (سنن ابوداؤد)۔
وطن عزیز پاکستان کے شہری اس وقت بڑی مشکل میں ہیں۔ان پرآزمائش کی یہ گھڑی ہم سب کا دراصل امتحان ہے۔نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق ملک بھر میں ہونے والی حالیہ بارشوں نے گزشتہ تیس سال کا ریکارڈ توڑ دیا ،جس کے نتیجہ میں ملک کا ساٹھ فیصد حصہ شدید متاثر ہوا ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر کراچی تک گھروں، کھیتوں، سڑکوں، پلوں، سکولوں، ہسپتالوں اور صحت عامہ کی سہولیات سمیت اہم بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔سیلاب نے پاکستان کے کم وبیش 84 اضلاع میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا جبکہ سندھ میں 23 اضلاع میں تاحال پانی موجود ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق632سے زائد بچوں سمیت 1700 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یونیسف کے مطابق پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ 11 لاکھ 63 ہزار مویشی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں جبکہ خوراک اور ادویات کی قلت کے باعث اموات کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے ۔جہاں ایک طرف لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں وہیں رابطہ نہریں سیلابی ریلوں کے ساتھ بہہ جانے کی وجہ سے دیہی علاقوں سے بڑے شہروں کو جانے والے پھلوں، سبزیوں اور دیگراجناس کی ترسیل بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے زمینداروں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ہیضہ،اسہال، گیسٹرو اور ٹائیفائیڈ وبائی شکل اختیار کر رہے ہیں۔طویل عرصے سے جمع پانی کے سبب ڈینگی اورملیریا،صفائی ستھرائی کی کمی کی وجہ سے خارش اور فنگل انفیکشن جیسی جلد کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔سیلابی پانی میں سانپوں کی بہتات کے باعث سانپ کاٹنے کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے۔ان حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت ہنگامی صورتحال کا اعلان کرتی اور ملک کے وسیع علاقے پر آنے والی اس آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے عوام کا سہارا بنتی مگر افسوس طاقتور ایوانوں میں تو بحث ہی کوئی اور جاری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کی ایک اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ لولی لنگڑی اور بیرونی طاقت سے قائم حکومت عوامی مسائل سے ناآشنا ہے۔بہرحال ایسے حالات میں خدمت خلق کے بہت سے ادارے ہیں جو جذبہ انسانی کے تحت بے لوث میدان عمل ہیں، جو حقیقتاً لائق تعریف و تحسین ہیں۔مون سون کے آغاز سے ہی جب ملک میں موجود تمام حکومتیں اقتدار کی نورا کشتی جاری رکھے ہوئے تھیں،الخدمت فاؤنڈیشن اس وقت ملک کے تمام متاثرہ اضلاع میں ممکنہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظرکسی بھی ہنگامی صورتحال کے نتیجے میں بچاؤ کی کوشش اوربہتر انداز میں خدمات سر انجام دینے میں مصروف تھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب بارشوں اور سیلاب میں شدت آئی تو سب سے پہلے الخدمت فاؤنڈیشن اپنے رضا کاروں کے ساتھ ریسکیو سرگرمیوں میں نمایاں نظر آئی۔امدادی کارروائی کے دوران الخدمت کے ساٹھ ہزار سے زائدرضاکار، قریباًتین سو کے قریب ایمبولینسز اورچالیس سے زائدبوٹس ہمہ وقت کوشاں رہے۔مشکل کام یہ تھا کہ وہ علاقے جہاں کسی قسم کی سواری پر جانا ممکن نہ تھا وہاں قریبی علاقوں کے مکینوں کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے تحت محصورین کیلئے پیدل پہاڑی راستہ بنانے کا بھی اہتما م کیا۔ اشیائے خورونوش، خیموں، ترپالوں، ادویات، کپڑوں، جوتوں اور دیگرامدادی سامان پر مشتمل ہزاروں ٹرک سامان ان لوگوں تک نہ صرف پہنچایا بلکہ منظم طریقے سے ہر فرد کو اس کا حق دیا۔ اس حوالے سے الخدمت نے جو خیمہ بستیاں بنائیں اور وہاں تمام بنیادی سہولیات فراہم کیں وہ یقیناً ایک منظم تنظیمیں کر سکتی ہے۔ایسی ہنگامی صورتحال میں جہاں ہر طرف پانی ہی پانی ہو وہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں کی خوراک کا بندو بست کرنا اور وہ بھی دن میں تین مرتبہ ،کسی امتحان سے کم نہیں۔اسی طرح صحت کے حوالے سے جب پہلے سے موجود انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہو ،اتنے بڑے پیمانے پر فیلڈ ہسپتال قائم کرنا اور لوگوں کو ادویات فراہم کرنا یہ بھی الخدمت کا اہم کارنامہ ہے۔ سیلاب نے جہاں سب کچھ تباہ کر دیا وہاں تعلیم کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے اور انہیں ذہنی الجھنوں سے بچانے کیلئے الخدمت نے اپنی قائم کردہ خیمہ بستیوں میں خیمہ سکولز قائم کر کے تاریخ رقم کردی جہاں بچوں کو مفت سکول بیگز اور سٹیشنری فراہم کی گئی۔اس عرصہ میںالخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے رضاکار نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ ملکی و بین الاقوامی میڈیا پر بھی منفرد کارنامے سر انجام دیتے ہوئے نظر آئے۔اس وقت اصل مسئلہ سیلاب زدگان کی بحالی کا ہے۔ ان لوگوں کو واپس اپنے گھروں میں آباد کرنا اور انہیں زندگی کو رواں رکھنے کیلئے مدد اور معاونت فراہم کرنا سب سے اہم ہے۔جن کا سب کچھ پانی کی نذر ہو گیا ان کو گھر اور مساجد تعمیر کر کے دینا ریاست کا کام ہے اور یہ کام حکومتیں کیا کرتی ہیں مگر افسوس بے رحم سیاستدانوں نے ہماری ریاست کو اس قدر کھوکھلا کر دیا ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم الخدمت ایسی تنظیمیں وطن عزیز کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ متاثرین کی بحالی کیلئے الخدمت فائونڈیشن متحرک ہے۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر لوگ اس پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں، امید ہے بہت جلد متاثرین کی بحالی کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا۔







