Columnمحمد مبشر انوار

ریاستی طاقت ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

ریاستی طاقت

پاکستانی سیاست اس قدر تیزی سے رنگ بدل رہی ہے کہ کچھ بھی کہنا ممکن نہیں کہ اگلے ہی لمحہ ساری صورتحال تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔کل تک مدت ملازمت میں توسیع کاشور تھا اور زیر لب سرگوشیاں تھیں کہ موجودہ حکومت اپنی بیساکھیوں کو کسی بھی صورت نہیں چھوڑے گی اور ان بیساکھیوں کی بدولت ہی یہ اگلی مدت کیلئے بھی منتخب ہو جائے گی اور بقول عمران خان یہ اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے کو مسلسل آگے بڑھاتی رہے گی۔ تاہم آرمی چیف کے واضح اعلان کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے ہیں اور نہ ہی فوج سیاسی معاملات میں کوئی کردار ادا کرنی چاہتی ہے،معاملات کا رخ کلیتاً بدل کر رکھ دیا ہے ،یوں سابقہ منصوبہ بیچ منجدھار بے یارو مددگار دکھائی دیتا ہے۔مقتدرہ کے سیاسی کردار سے کوئی کم علم ہی انکار کرسکتا ہے،اور اس اہم ترین موقع پر رخصت ہونے والے آرمی چیف کا یہ بیان انتہائی معنی خیز بھی ہے کہ اب حکومت خود کو بچانے کیلئے کون سا راستہ اختیار کرے گی؟بالخصوص جب اپوزیشن لانگ مارچ کی بھرپور تیاری کر رہی ہے اور عوام کی اکثریت بھی اس کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے،وزیر داخلہ کا بیان کہ لانگ مارچ کو کسی کی حمایت حاصل نہیں،درحقیقت وہ اس لانگ مارچ کو عوامی حمایت سے محروم قرار دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اس بیان کو طاقتور حلقوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ بہرکیف وزیرداخلہ کا اس لانگ مارچ کو عوامی حمایت سے محروم قرار دینا بھی کسی سراب سے کم نہیں کہ اس وقت تمام غیرجانبدار حلقوں کو یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے لہٰذا وزیرداخلہ کا یہ بیان بظاہر خود کو تسلی دینے کے مترادف ہی ہے وگرنہ خلق خدا اس حکومت سے کتنی تنگ ہے،اس کا مظاہرہ حال ہی میں کسانوں کے احتجاج سے واضح ہے تو دوسری طرف بجلی کے بلوں نے جو چیخیں عوام کی نکلوائی ہیں،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بجلی کی گرانی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام اپنے اثاثے بیچ کر بل ادا کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کے پاس اثاثے ہوتے ہی کتنے ہیں کہ ان کو بیچ کر
ایک ،دو یا تین ماہ کے بل ادا کرنے کے بعد عوام کیا کریں گے؟لامحالہ عوام سڑکوں پر آئیں گے،احتجاج کریں گے،حکومت کے لتے لیں گے،بددعائیں دیں گے لیکن کیا یہ سب کرنے سے بجلی کے نرخ کم ہو سکیں گے؟یا بل ادا نہ کرنے پر عوام مسلسل اپنے بجلی کے میٹر کٹواتے جائیں گے؟بالفرض اگر بجلی کے صارفین ہی ملک میں نہیں بچتے تو حکومت بجلی کس کو بیچے گی؟بارہا اس کا تذکرہ ہو چکا ہے کہ نجی بجلی گھروں کے معاہدے ،اس عذاب کی وجہ ہیں تو دوسری طرف عالمی مالیاتی اداروں سے حصول کردہ وہ قرضہ جات ہیں کہ جن کو غیر پیداواری منصوبوں میں جھونک دیا گیا ہے اور ان کی وصولی عوام کی ہڈیوں سے گودا نکال کر، کی جا رہی ہے۔
اس پس منظر میں عمران خان مسلسل ایک دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو نکال کر دم لیں گے اور اس کیلئے انہیں کسی بھی حد تک جانا پڑا ،وہ جائیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے آپشنز کو دیکھا جائے تو آخری حل صرف اور صرف لانگ مارچ کا بچتا ہے،جس کیلئے تحریک انصاف مسلسل کمر کس رہی ہے ۔ لانگ مارچ لانے کیلئے تحریک انصاف عوام سے مسلسل رابطے میں ہے اور عوامی سیلاب کو تیار کر رہی ہے کہ کسی طرح اس آخری معرکے میں کام آئے جبکہ عوام صرف تحریک انصاف کے مؤقف سے ہی متفق نہیں بلکہ موجودہ معاشی و امن و امان کی صورتحال سے بھی حد درجہ ستائی ہوئی ہے او رانہیں عمران خان کا دور اس سے کہیں بہتر نظر آتا ہے کہ کم ازکم جینے کی کوئی امید تو بہرکیف موجود تھی۔ رہی بات تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی تو یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں سیاست اور سیاستدان اقتدار کیلئے ،ہمیشہ سے طاقت کے ماخذ کی طرف دیکھتے نظر آ تے ہیں،وہاں ایسے لانگ مارچ کی حیثیت ایک سعی لاحاصل سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ البتہ بے نظیر کا لانگ مارچ حکومت تبدیل کرنے میں کامیاب صرف اس لئے ہوا تھا کہ تب طاقتور حلقے واقعتا حکومت کو چلتا کرنا چاہتے تھے وگرنہ اس لانگ مارچ کے نتیجہ میں حکومت کسی صورت تبدیل نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی صورتحال اس وقت بھی ہے کہ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعہ حکومت تبدیل کرنے کی سعی لاحاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ منصوبہ سازوں یا بیرونی آقاؤں کے احکامات اور طریقہ کار سے یہ بالکل واضح ہے کہ وہ فوری طور پر پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔اگر اس کو مفروضہ ہی تصور کرلیں تب بھی موجودہ حالات و واقعات اس مفروضہ کو سچ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ قریباً ہر محاذ پر بظاہر ناکامی ،خواہ اتحادیوں کا تعاون ہو یا معاشی اشارئیے ہوں یا مہنگائی کا طوفان ہو یا عوام الناس کا احتجاج ہو،کے باوجود حکومت ڈٹی ہوئی ہے اور کسی بھی صورت اپوزیشن کا مطالبہ ماننے سے انکاری ہے۔
عمران خان بائیس برس جہد مسلسل کے باوجود بھی اقتدار میں نہ آ سکے تاوقتیکہ طاقتوروں کے ساتھ ان کے معاملات درست نہیں ہوئے اور انہیں تائید حاصل نہیں ہوئی،سیاسی جوڑتوڑ کرکے انہیں مطلوبہ نشستوں کی یقین دہانی نہیں ہوئی،وہ اقتدار سے باہر رہے البتہ اقتدار سے نکلنے کے بعد،یہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک مستند سیاستدان کے طور پر ابھرے اور عوام میں اپنی حمایت قائم کی۔ عوام یہ سمجھتی ہے کہ عمران جن بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میںآیا تھا ،کام کے دوران وہی بیساکھیاںاس کے آڑے آتی رہی ہیں،یہ وہ تاثر ہے جو عوام نے ازخود عمران کے متعلق قائم کیا ہے اور سمجھتی ہے کہ عمران کو ان بیساکھیوں کے بغیرایک موقع اور ملنا چاہیے، لہٰذا عمران کے ہر جلسہ میں عوام جوق در جوق شریک ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ امر انتہائی اہم ہے کہ عوامی لہر ایک مخصوص مدت تک بروئے کار آتی ہے اس کے بعد اگر بروقت سیاسی فیصلہ نہ کیا جائے تو عوامی لہر بتدریج ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہے ،جس کا سیاسی نقصان بہرطور سیاسی قائد کو ہوتا ہے،عمران خان گذشتہ پانچ؍چھ مہینوں سے اس آخری معرکے کیلئے عوام کو تیار کر رہے ہیں لیکن ابھی تک آخری کال دینے سے گریزاں ہیں۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ اس دوران پس پردہ طاقتوروں کے ساتھ مذاکرات چلتے رہے ہیں اور کسی نہ کسی طور عمران خان اس آخری معرکے سے ان مذاکرات کے باعث ہی پس و پیش سے کام لیتے رہے ہیں۔ دوسری طرف اپنے ایک انٹرویو میں عمران خان پچیس مئی کے حوالے سے یہ اشارہ بھی دے چکے ہیں کہ احتجاج میں شریک عوام پر ظلم ،کس کے کہنے پر ہوا تھا تاہم وہ ابھی اس کا نام افشا نہیں کرنا چاہتے کہ انہیں یقین ہے کہ اسلام آباد حکومت اتنی بربریت کا مظاہرہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی اسلام آباد حکومت کے کہنے پر سول ادارے اتنا بڑا ایکشن لے سکتے ہیں۔عمران خان اور ان کے رفقاء،احتجاج کو اپنا جمہوری حق تو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے ثبوت میں بلاول،مریم اور فضل الرحمن کے جلوسوںکی اجازت بطور شواہد پیش کرتے ہیں لیکن جو کچھ تحریک لبیک کے جلوس پر ہوا،اسے گول کر جاتے ہیں۔ بہرکیف اس سے قطعاً انکار نہیں کہ سیاسی جلسے جلوسوں کو تحریک انصاف کی حکومت نے اجازت دی تھی اوران کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے سے گریز کیا تھا لیکن موجودہ حکومت تحریک انصاف کے سابقہ جلوس پر بھی پرتشدد کارروائی،گو کہ عمران خان نے اس کا الزام کسی اور پر رکھا ہے لیکن چونکہ سامنے سیاسی حکومت ہے لہٰذا ذمہ داری اسی حکومت کے سر رہے گی،جبکہ اس وقت حکومت کھل کر ریاستی طاقت کا استعمال کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔اگر حکومت نے اس مظاہرے کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کی تو سیاست پر نتائج کیا ہوں گے،ان پر پہلے بھی لکھ چکا ہوںالبتہ معاشی صورتحال مزید کتنی دگر گوں ہوگی،اس کا اندازہ بہرکیف سیاستدانوں کو مل کر کرنا ہے اگر وہ واقعتا پاکستان کی بہتری چاہتے ہیں۔ ریاستی طاقت کاجرائم اور مجرموں کے خلاف بروئے کار آنا یقینی طور پر ریاست کے مفاد میں ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ریاستی طاقت مجرموں کے سامنے ہاتھ باندھے بے بس اور لاچار نظر آتی ہے جبکہ غریب عوام پراس کا بے محابا استعمال ایک سیاسی حکومت میں غیر جمہوری رویہ گردانا جاتا ہے،حکومت کو اس امر کا خیال رکھنا ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button