
سی ایم رضوان
دین اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر مکمل ہوا۔ انبیاء علیہم السلام اپنے ادوار میں حالات کی ضروریات کے تحت انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے۔ دین اسلام میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور زمانوں کا احاطہ کیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے جب تکمیلِ دین کا اعلان کیا تو انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ باقی نہ تھا، جس میں انسانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی کا سامان بہم نہ پہنچا دیا گیا ہو۔ سیاست بھی انسانی معاشرے کا بہت اہم شعبہ ہے۔ سیاست کا مفہوم ہے قوم کی اجتماعی قیادت کرنا ان کیلئے نظام حکومت قائم کرنا اس کا نظام حکومت اچھے طریقے سے چلانا اور اجتماعی معاملات میں قوم کی رہنمائی کرنا۔ انبیاء کرامؑ نے اس شعبے میں بھی وحی الٰہی کی بنیاد پر انسانیت کی رہنمائی کی۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے دو باتیں بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ پہلی یہ کہ پوری نسل انسانی میں رسول اللہﷺ کے سوا زندگی کے کسی شعبے کی کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کے حالات زندگی اس قدر تفصیل کے ساتھ اور اس قدر اعتماد کے ساتھ ریکارڈ پر محفوظ ہوں۔ نہ سیاست کے شعبے میں، نہ قانون کے شعبے میں، نہ تجارت کے شعبے میں، نہ مذہب کے شعبے میں، نہ علم و فلسفے کے شعبے میں اور نہ ہی زندگی کے کسی اور شعبے میں۔ تاریخ انسانی میں کوئی دوسری شخصیت ایسی نہیں جس کی زندگی کے ایک ایک مرحلے کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہوں۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہﷺ کے سوا پوری نسل انسانی میں کوئی شخصیت ایسی نہیں کہ جس کی شخصیت اس قدر جامع ہو کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس سے رہنمائی ملتی ہو، یہ رسول اللہﷺ کا اعجاز ہے اور یہ بھی حضورﷺ کے معجزات میں سے ایک ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت اس قدر جامع ہے کہ اس
میں انسانی زندگی کے ہر کردار کا نمونہ ملتا ہے۔ آپﷺ ایک امین بھی تھے کہ مکہ کے لوگ اپنی امانتیں آپﷺ کے پاس محفوظ رکھتے تھے۔ آپ ﷺ منصف بھی تھے کہ عرب قبائل کے درمیان حجرِ اسود کی تنصیب کا معاملہ کس خوش اسلوبی سے طے فرمایا۔ آپﷺ تاجر بھی تھے کہ حضرت خدیجہؓ کے تجارتی قافلے دوسرے ملکوں میں لے کر جاتے اور تجارت کرتے تھے۔ آپﷺ مبلغ بھی تھے کہ لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی طرف بلاتے اور بدی و برائی سے روکتے تھے۔ حق و باطل کی لڑائی میں آپﷺ ایسے فوجی کمانڈر بن کر ابھرے کہ اِس پر تاریخ میں مستقل کتابیں لکھی گئیں۔رسول اللہﷺ منصب انصاف پر فائز تھے کہ آپ قاضی اور جج بھی تھے، خود آپﷺ کے پاس بھی مقدمات آتے تھے جن کے آپﷺ فیصلے سنایا کرتے تھے اور پھر باقی قاضیوں کے پاس جو مقدمات آتے ان کے فیصلوں پر اپیلیں حضورﷺ کی خدمت میں آتی تھیں جن پر حضورﷺ فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺسیاسی لیڈر بھی تھے کہ مختلف قبائل کے وفود آپﷺ کے پاس آتے تھے جن سے آپﷺ مذاکرات اور گفتگو فرماتے تھے۔ آپﷺ اپنی ریاست کے سب سے بڑے سفارت کار بھی تھے کہ آپﷺ دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کو بھی نبھاتے تھے۔ نبی کریمﷺ اپنی ریاست کے منتظم اعلیٰ بھی تھے کہ ریاست کے داخلی معاملات کے متعلق فیصلے بھی آپﷺ خود فرمایا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ مسجد نبوی میں صحابہ کرامؓ کے امام بھی تھے کہ آپﷺ نماز خود پڑھاتے۔نبی کریمﷺخطیب بھی تھے کہ خطبہ جمعہ اور دیگر خطبات ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
نبی کریمﷺ نے دنیا کو ایک حکومتی نظام دیا، حکومتی نظام کو چلانے کیلئے رہنما اصول دیے اور اس کیلئے قیادت تیار کی۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر تاریخِ اسلام میں مستقل تصانیف تحریر کی گئی ہیں لیکن یہاں سربراہِ مملکت اور نظام حکومت کے حوالے سے دو بنیادی اصولوں کا ذکر کافی ہوگا۔ پہلا اصول یہ کہ حاکم وقت کا معیارِ زندگی معاشرے کے عام آدمی کے معیارِ زندگی کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسرا اصول یہ کہ معاشرے کے ہر فرد، بالخصوص اصحابِ علم و دانش کو حاکم وقت کے احتساب کا حق ہونا چاہیے۔
رسالت مآب ﷺنے اپنے دور کے سب سے کمزور طبقے کے برابر اپنا معیارِ زندگی رکھا۔ رسول اللہﷺ کے گھر میں کئی کئی دن تک آگ نہیں جلتی تھی، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خاندان نبوت میں ہم نے معمولی قسم کی کھجوریں تین دن مسلسل پیٹ بھر کر کھائی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپﷺ چاہتے تو کیا زندگی کی سہولتیں حاصل نہ کر سکتے تھے لیکن پیغمبر ہوتے ہوئے، کمانڈر انچیف ہوتے ہوئے، چیف جسٹس ہوتے ہوئے، منتظم اعلیٰ ہوتے ہوئے اور حاکم وقت ہوتے ہوئے اپنا معیارِ زندگی معاشرے کے عام طبقے کے برابر رکھا۔ اِس معاملے میں رسول اللہﷺ اس قدر حساس تھے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ کا ہم سب کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا تھا کہ کسی اور خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ نہ ہوتا ہوگا، حضورﷺ نے خود فرمایا کہ میں اپنے گھر والوں کے معاملے میں تم سب سے بہتر ہوں۔ایک ریاست کے سربراہ کے طور پر نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کا یہی ایک نمایاں پہلو تھا کہ حکمران کا معیار زندگی اس کی رعیت کے ادنیٰ درجے کے شہری کے برابر ہو۔
رسول اللہ ﷺنے حکومت کا جو تصور پیش کیا اس میں عام لوگوں کو احتساب کا حق دیا کہ اگر حاکم وقت میں کوئی غلط بات دیکھیں تو ٹوک دیں۔ آج کے نظام سیاست میں اور اسلام کے نظام سیاست میں ایک بنیادی فرق ہے کہ حاکم وقت اگر کوئی بات یا عمل حق کے خلاف کر رہا ہو یا نا انصافی اور ظلم کا معاملہ کر رہا ہو تو اسے اِس طرز عمل سے روکنے کو آج کی دنیا ہر شہری کا حق قرار دیتی ہے لیکن حاکم وقت کے خلاف تنقید کرنا اسے اس کی غلطی پر ٹوکنا اور اس کی غلط بات کی نشاندہی کرنا، اسلام نے اسے حق نہیں بلکہ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اسلام کے اور آج کے مروجہ نظام سیاست میں یہ بنیادی فرق ہے۔ حق تو اختیاری ہوتا ہے کہ کوئی اپنا حق استعمال کرے یا نہ کرے لیکن رسول اللہﷺ نے یہ اختیار نہیں دیا بلکہ بالخصوص علماء کے حوالے سے یہ فرمایا کہ غلط بات کو غلط کہنا پڑے گا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جو عالم ایک ظالم حکمران کے ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے وہ اپنی ذمہ داری سے گریز کر رہا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اسے جہاد قرار دیا کہ سب سے بہتر جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۃ حق کہنا ہے۔حضورﷺ نے فرمایا کہ جو میرے منبر بیٹھتا ہے اور ظالم کے ظلم کو ظلم نہیں کہتا وہ گونگا شیطان ہے لیکن اس میں نکتہ یہ ہے کہ بھلائی کی بات ایسے انداز سے کہی جائے کہ جس میں خیرخواہی ہو۔ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ! دین کیا ہے؟ فرمایا خیرخواہی کا نام دین ہے۔ پوچھا کس کی خیرخواہی؟ فرمایا: اللہ کیلئے خیرخواہی(اللہ کی بندگی)، اللہ کے رسول کیلئے خیرخواہی (رسول اللہﷺ کی نصیحت پر عمل)، مسلم حکمرانوں کی خیر خواہی (غلط باتوں پر تنقید) اور عوام الناس کی خیرخواہی۔ یعنی غلط بات پر موقع محل کی مناسبت سے تنقید کرنا ایک ذمہ دار شہری کا فریضہ ہے لیکن یہ تنقید ایسے انداز سے ہو کہ اس میں دشمنی کا پہلو نہ ہو بلکہ خیرخواہی کا پہلو ہو۔ نبی کریمﷺ نے حکمرانوں کی غلطیوں کو درست کرنے کو دین قرار دیا اور اسے جہاد کا درجہ دیا۔
جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے نظام حکومت کی دو بنیادی خصوصیات ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ کہ آپﷺ نے ایک حاکم وقت کے طور پر اپنا معیارِ زندگی عام لوگوں کے مطابق رکھا، اس میں حکمت یہ تھی کہ ایک حاکم وقت عام لوگوں کے مسائل و مشکلات سے صحیح طور پر آگاہی اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جبکہ وہ خود روز مرّہ زندگی کے ان مسائل و مشکلات سے گزرے۔ اگر حکمرانوں اور عوام الناس کے معیارِ زندگی میں فرق ہوگا تو حکمرانوں کو لوگوں کے مسائل کا صحیح ادراک نہیں ہوسکے گا اور وہ صحیح حکمرانی نہیں کر سکیں گے۔ رسول اللہﷺ نے جو طرزِ حکومت متعارف کروایا اس کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ معاشرے کے ہر فرد کو حاکم وقت کے احتساب کا حق دیا اور بالخصوص معاشرے کے اصحابِ علم و دانش کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ وہ حکمرانوں کے غلط اقدامات کی نشاندہی کرتے رہیں کہ احتساب کا یہ عمل حکومتی نظام کو صحیح رخ پر چلنے میں مدد دیتا رہے۔ اہل علم اگر امراء کے احتساب سے صرف نظر کریں گے اور جانتے بوجھتے ہوئے ان کے غلط اقدامات کی نشاندہی نہیں کریں گے تو وہ مجرم ٹھہریں گے اور اپنے فرض کی ادائیگی میں قصوروار ہوں گے۔ نبی کریم ﷺنے دنیا کے سامنے سیاسی رہنمائی کا جو تصور پیش کیا اس کی پیروی میں ہی دنیا بھر کے معاشروں اور ممالک کی فلاح مضمر ہے ورنہ معاشی و معاشرتی بدحالی بے عملوں کا مقدر ہوتا ہے۔







