ایک اور عزت لٹ گئی .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
14اگست 1947کو معرض وجود میں آنے والا پاکستان 16دسمبر1971کو توڑ دیاگیا۔ توڑنے والوں نے اپنی عیاشیوں، بدمعاشیوں اور بداعمالیوں پر پردہ ڈال کر تمام الزام بنگالیوں پر ڈال دیا۔ پاکستان توڑنے والے شہیدوں کی صف میں شمار ہونے لگے، بعض کو قومی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اُتارا گیا۔ پاکستان کو توڑنےوالے عناصر سزا سے بچ نکلے یوں ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ انہوںنے بچے کھچے پاکستان کو توڑنے کی کوششیں کی اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے اسے لوٹنے کا منصوبہ بنایا۔ پاکستان گذشتہ پچاس برس سے لٹ رہا ہے کراچی سے خیبر تک اس لوٹ مار کاشور ہے کچھ لوگ متوجہ ہوتے ہیں لوٹ مار کو روکنے اور ملکی سطح کے ڈاکوئوں کو پکڑنے کا وعدہ کرکے اقتدار حاصل کرلیتے ہیں لیکن پھر وہ اس لوٹ مار گروپ کاحصہ بن جاتے ہیں انہیں جب کبھی زندگی میں ایک آدھ بار رحم آیا وہ لٹے پٹے پاکستان پر نہیں، اسے بے دریغ لوٹنے والوں پر آیا، لوکل ڈاکوئوں کی کامیابیاں دیکھتے ہوئے کئی بین الاقوامی ڈاکو اورڈکیت گروپ اس لوٹ مار کے مال میں حصہ داری کے لیے مسلط ہوگئے، اب کوئی دن جاتا ہے جب ملک میں کروڑوں، اربوں روپئے کی ڈکیتی نہیں ہوتی۔
مالی لوٹ مار سے شہہ پانے والوں نے ایک قدم آگے بڑھایا اب وہ عزتیں لوٹتے ہیں۔ نواز شریف کا دور حکومت تھا، بینظیر بھٹو اپوزیشن میں تھیں وہ موثر اپوزیشن رہنما کا کردار ادا کررہی تھیں وہ جس روز قومی اسمبلی میں آتیں سپیکر قومی اسمبلی سمیت حکومتی ارکان اسمبلی متفکر رہتے، ایک روز وہ وقت دیئے جانے پر خطاب کے لیے کھڑی ہوئیں تو ان کی تقریر ختم ہونے کے بعد قومی اسمبلی ہی نہیں ملک بھر کے سیاسی حلقوں میں زلزلہ آگیا ان کی تقریر کے اہم حصے تمام اردو انگریزی اخبارات کے شہہ سرخی تھے، بین الاقوامی اخبارات نے بھی ان کے بیان کردہ واقعے کو جلی حروف میں شائع کیا۔ بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ قومی سطح کے بزرگ رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی سردار شوکت حیات کی بیٹی وینا حیات کی کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر عزت لوٹ لی گئی ہے۔ وینا حیات ایک سیاسی رہنما کی بیٹی ہونے کے علاوہ بینظیر بھٹو کی بہترین سہیلی بھی تھیں۔ انہوںنے بتایا کہ یہ فعل درجن بھر مسلح افراد نے کیا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے، وینا حیات کا بیان قلم بند ہوا انہوںنے بعض اہم پولیس افسران کا بھی نام لیا انہیں اس واقعے کا اہم کردار بتایا، چند دن بعد معاملے پر وقت کی گرد پڑنا
شروع ہوگئی، گرفتاریاں ہوئیں پھر ان افراد کی ضمانتیں ہوگئیں، تفتیش، تحقیق، مقدمہ، پیشیاں جاری رہیں، جن افراد کو نامزد کیاگیا وہ بے گناہ ثابت ہوگئے جو سرکاری افسران مورود الزام ٹھہرائے گئے انہیں ترقیاں مل گئیں، انہوںنےاپنی سروس اور عہدوںکی معراج پائی، بعد ازاں معلوم ہوا تمام واردات میں کچھ ذاتی تعلق والے کچھ گھر والے ملوث تھے۔ اجتماعی طور پر عزت لوٹنے کا یہ پہلا واقعہ تھا جو میڈیا کی وساطت سے ملک کے ہر گھر اور دنیا کے ہر ملک میں پہنچا۔
دوسرا واقعہ گائوں کی رہنے والی ایک شادی شدہ بعد ازاں مطلقہ عورت کے حوالے سے سامنے آیا، مختاراں بی بی نے بتایا کہ بعض مسلح افراد نے اسلحہ کے زور پر اس کی عزت لوٹ لی ہے، میڈیا نے اس واقعے کو بھی خوب ہوا دی، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بعض این جی اوز اس کی مدد کے لیے ایک منصوبے کے تحت میدان میں آگئیں، قانونی امداد اور اخلاقی امداد کرنے والوں کی قطاریں تھیں، بین الاقوامی میڈیا مختاراں مائی جو کہ کسی بھی طرف سے مائی نہ لگتی تھی، آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسو بھر بھرکر انٹرویو دیتی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے کمیشن بن گئے، ٹیمیں تفتیش کے لیے مقرر کردی گئیں، میڈیکل ہوا، رپورٹس آئیں، مسترد ہوئیں، مزید رپورٹس آئیں مزید تحقیق مزید کہانیاں سامنے آئیں، معلوم ہوا مختاراں مائی کا ایک پولیس اہلکار
سے عشق تھا، شادی کے وعدے ہوئے جو وفا نہ کئے گئے، پس جذبہ انتقام کے تحت سارا ڈرامہ سٹیج ہوا، مختار اں مائی چند ماہ میں غیر ملکی امدادکے سبب میڈم مختاراں بن گئی، اس نے ایک ایم اے جرنلزم لڑکی اپنی میڈیا منیجر رکھ لی اور غیر ملکی گائیڈ لائن کے مطابق عزت لٹنے والی خواتین کے حقوق کے لیے کام شروع کردیا، میڈم مختاراں آج ایک متمول خاتون ہے، تحقیقی رپورٹس کے مطابق جنرل مشرف کی حکومت کو ذلیل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیاگیا، بعض اطلاعات کے مطابق میڈم مختاراں اور ان کے مبینہ عاشق یا محبوب کی آپس میں صلح ہوگئی اور دونوں خوش وخرم ہیں۔
تیسرا واقعہ بھی جنرل مشرف حکومت کو رسواکرنے کے لیے گھڑا گیا تھا، بتایاگیا کہ ایک شازیہ نامی لیڈی ڈاکٹر کی بلوچستان پوسٹنگ کے دوران عزت لوٹ لی گئی ہے پہلے معاملے کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے بتایایا کہ یہ کام کچھ بلوچیوںنے کیا ہے، بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو نئے موڑ کے مطابق محکمہ زراعت المعروف خلائی مخلوق کے حاضر سروس افسر کو اس کا ذمہ دار ٹھہراکر ملک بھر میں ایک قابل احترام ادارے کی خوب تذلیل کی گئی، اس واقعے کا انجام بھی دیگر واقعات سے مختلف نہ تھا۔
اب بات عورتوںکی عزت لوٹنے سے بہت آگے بڑھ کر مردوں کی عزت لوٹنے تک آگئی ہے، واقعے کو منظر عام پر لانے کا سہرا بھی ایک سابق وزیراعظم کے سر ہے، انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے چیف آف سٹاف اور ترجمان کو گرفتارکیاگیا پھر دوران حراست ان کی عزت لوٹ لی گئی، سابق وزیراعظم عمران خان یقیناً ایک ذمہ دار شخصیت ہیں، انہوں نے یہ سب کچھ مذاقاً نہیں کہا، ان کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے ہی انہیں یہ سب کچھ بتایاہوگا، اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی چلوائی گئی ہے، شہباز گل کو ہسپتال میں داخل کرایاگیا، طبی امداد بھی دی گئی ہوگی، بتایاگیا ہے اب وہ ہشاش بشاش ہیں، ان کی عزت لوٹنے والا کون ہے، اس نے یہ اقدام کیوں کیا ، لیکن اگر یہ واقعی عزت لوٹنے کا واقعہ ہے تو اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔ ملزمان کو نشان عبرت بنانا ضروری ہے ملزم تنہا تھا یا یہ بھی اجتماعی طورپر عزت لوٹنے کا واقعہ ہے، یہ سب تحقیقات کے بعد سامنے آئے گا، شہبازگل کا بیان اور میڈیکل رپورٹ کی اہمیت بھی بے حد ہے، ریکارڈ کو غائب ہونے سے بچانا یا اس میں ردوبدل ہونے سے محفوظ رکھنا بھی اہم ٹاسک ہے، اس سلسلے میں فوری طور پر جے آئی ٹی بنائیں جس میں حساس اداروں کی نمائندگی سے حقائق جلد سامنے آسکتے ہیں، عورت کا معاملہ ہو تو دنیا بھر کی عورتیں احتجاج کے لیے نکل آتی ہیں بے چارا شہباز گل عزت لٹا بیٹھا، ملک بھر کے مرد اس پر ہنس رہے ہیں کوئی اس کی مدد کے لیے آگے نہیں آرہا یہ مقام افسوس ہے، ملزم بچ نکلے تو ان کے حوصلے بلند ہوجائیں گے، کل کلاں وہ کسی اور مرد سیاست دان کی عزت لوٹ سکتے ہیں، کاش ہم نے ملک کی عزت لوٹنے والوں کو سزا دی ہوتی، آج ملک بھر میں ہر مردو زن کی عزت محفوظ ہوتی۔