سادہ اور پیچیدہ معاملات .. روشن لعل

روشن لعل
پاکستان کی سیاست اور معیشت اس وقت جس حد تک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے اسے بیان کرنے کے لیے لفظ’’ تشویشناک‘‘ شاید اس قدر جامع نہیں کہ اس کے ذریعے ان تمام خدشات کا احاطہ ممکن ہو سکے جو وطن عزیز کے حوالے سے اندرون و بیرون ملک ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اس وقت جو کچھ سامنے ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ 2018 میں نوے دنوں کے اندرملک کی کایا پلٹنے کے دعوے کرتے ہوئے الیکشن کی بجائے سلیکشن کے الزامات کے شوروغل میں حکمران بنے ، وہ قریباًچار برس کی اپنی حکومت کے دوران عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کر سکے ۔ ان لوگوں کوچاہیے آئینی طریقے سے ہی سہی مگر اقتدارکے ایوانوں سے زبردستی ضرور باہر نکالا گیا۔ جن لوگوں نے ان سابقہ ہو چکے حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں اقتدار سے علیحدہ کیا اب وہ حکومت حاصل کرنے کے بعدبیرونی قرض حاصل کرنے کی ان معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن کی وہ چار سال تک مخالفت کرتے رہے۔
بیرونی قرضوں پر ملکی معیشت چلانے کا یہ سلسلہ سابقہ عمران حکومت کے دور سے نہیں بلکہ پاکستان بننے کے فوراً بعدشروع ہو گیا تھا ۔ آج یہاں جو سیاسی و معاشی بگاڑ نظر آرہا ہے وہ ملک میں وسائل پیدا کرنے کی بجائے شروع دن سے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کرتے ہوئے امور مملکت چلانے کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے اختیار کی گئی پالیسیوں کی وجہ سے برآمد ہونے والا یہ نتیجہ انتہائی مہیب ہونے کے باوجود حتمی نہیں ہے۔ جو نتیجہ اس وقت مہیب نظر آرہا ہے ، وہ ملکی حالات کے جوں کا توں رہنے کی صورت میں انتہائی خوفناک شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ جس نتیجے کے یہاں انتہائی خوفناک شکل اختیار کرنے کا امکان موجود ہے اس کی راہ ہموار کرنے میں صرف قرضوں پر چلائی جانے والی معیشت نے ہی کردار ادا نہیں کیا بلکہ اس میںپہلے ملک کو آئین کے بغیر چلانے، پھر آئین کو موم کی ناک بنانے اور اس کے بعد طویل عرصے تک متفقہ آئین کی دھجیاں بکھیرنے جیسی پالیسیوں کا بھی حصہ ہے ۔
ہمارا ملک ، سماجی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے جس زبوں حالی کے قریب پہنچ چکا ہے اس کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کو تو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے مگر آئین شکنی اور آئین و قانون سے روگردانی جیسے عوامل کا ذکر کرنے سے گریزکیا جاتا ہے۔ قیام کے فوراً بعد سے پاکستان کے ساتھ جو مذاق کیے جاتے رہے ان میں ایک مذاق یہ بھی ہے کہ ریاستی امور چلانے کے لیے آئین کی ضرورت سے انکار کرنے کی تو کسی میں ہمت پیدا نہ ہو سکی مگر ملک کو آئین کی بجائے اپنی خواہشوں کے مطابق چلانے کی غرض سے آئین سازی میں جتنی بھی تاخیر ممکن تھی کی گئی۔ تاخیری حربے استعمال کرنے کے بعد بھی جب آئین بنائے بغیر گزارا ممکن نہ ہو سکا تو ایسے لچکدار آئین بنانے کی کوشش کی گئی، جن کی موجودگی میں ملکی معاملات کو اپنی خواہشوں کے مطابق چلانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ جب ایسے لچکدار آئین بھی خواہشیں پوری ہونے کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے تو انہیں بھی توڑنے سے دریغ نہ کیا گیا۔ آخری اور اب تک کسی نہ کسی حالت میں نافذ دستور میں آئین سے انحراف کی سزا موت رکھے جانے کے باوجود بھی آئین شکنی کا عمل ختم نہ ہو سکا اور کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔
پاکستان کی اب تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاسی طاقت کی حامل کوئی شخصیت ، گروہ یا جماعت چاہے جس قدر بھی طاقتور کیوں نہ ہو اس میں کبھی بھی اپنے طور پر آئین شکنی کی جرأت پیدا نہ ہو سکی۔ یہاں آئین شکنی یا آئین سے انحراف کا ارتکاب ہمیشہ ان لوگوں نے کیا جو سیاسی اور عوامی نہیں بلکہ کسی اور ہی طاقت کے حامل ہوتے ہیں۔ان کی طرف سے آئین شکنی کے لیے خاص اندرونی طاقت کے علاوہ ہمیشہ بیرونی آشیر باد نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ذاتی خواہشیں پوری کرنے اور بیرونی مفادات کا تحفظ کے لیے آئین شکنی ہمیشہ ملک کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے بدنام زمانہ اصول کے تحت چلانے کے لیے کی جاتی رہی۔ دنیا کا کوئی بھی ملک جسے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے اصول کے تحت چلاگیا ہو وہ معاشی طور پر کبھی بھی اپنے پائوں پر کھڑا نظر نہیں آیا۔ جو کچھ دنیا میں کہیں بھی نہ ہوا وہ ہمارے ملک میں کیسے ہو سکتا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ ہمارا ملک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر چلائے جانے کے باوجود بھی معاشی طور پر مستحکم ہو جاتا۔
اگر اس ملک کے سادہ اور پیچیدہ معاملات کی بات کی جائے تو سادہ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی خستہ حالی کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ یہاں قرض در قرض لیتے ہوئے ملک چلانے کی کوشش کی گئی بلکہ یہ بھی ہے کہ قرض میں ملنے والی رقوم کا بڑا حصہ ان شعبوں کو چلانے کے لیے صرف کیا گیا جو دنیا میں کہیں بھی قرض پر انحصار کرتے ہوئے چلائے نہیں جاتے۔ ملک کی زبوں حالی کی جو وجہ انتہائی سادگی سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی وہ پیچیدہ اس وقت ہو جاتی ہے جب اس تفریق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ دنیا میں کونسے ایسے شعبے ہیں جنہیںبیرونی قرضوں پر چلانا مجبوری ہوتا ہے اور کونسے وہ شعبے ہیں جن کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا ناعاقبت اندیشی سمجھا جاتا ہے۔
مذکورہ سطور میں سادہ اور پیچیدہ معاملات کو سمجھانے کے لیے جو کچھ بیان کیا گیا اس سے زیادہ کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ اپنی باتوں کو سمیٹتے ہوئے آخر میں صرف یہی گزارش ہے کہ اس ملک کو گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جس طرح چلایا جاتا رہا اب مزید اس طرح سے چلانا ممکن نہیںہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں تو وہ اس بات پر غور کر لے کہ جس ملک میں آئین شکنی بڑی آسانی سے ہو جایا کرتی تھی وہاں ایسا کیا ہوا کہ گزشتہ 14 برسوں کے دوران بار بار کوششوں کے باوجود ایک مرتبہ بھی آئین شکنی ممکن نہ ہو سکی۔ عمران خان کی آئین شکنی کی حالیہ کوشش مبینہ طور پر خاص طاقت کے حامل لوگوں کی آشیر باد اور اعانت کے باوجود بھی جس طرح ناکام ہوئی ، اس سے اگر کوئی سیکھنا چاہے تو بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ۔ اس طرح کی باتوں سے سیکھناپیچیدہ نہیں انتہائی سادہ ہے ۔ اس معاملے کو اگر حسب سابق اپنی خواہشوں کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا ہوا کبھی بھی سمجھ نہیں آسکے گا لیکن اگر اس معاملے کو اس زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ کن وجوہات کی بنا پر تاریخ ہمارے ملک کو بگاڑ کی بد ترین شکلوں کی طرف دھکیل رہی ہے تو معاملات سادہ ہوتے ہوئے دکھائی دیں گے اور سب کچھ آسانی سے سمجھ آجائے گا۔ اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جو مشکلات نظر آرہی ہیں وہ کسی ایک حکومت یا حکومتوں کی نہیں بلکہ ریاست کی ہیں اور کسی بھی حکومت کے لیے ریاست کی ان مشکلات کو تن تنہا دور کرنا ممکن نہیں ہے۔