ColumnNasir Sherazi

ٹھمکے سے جھمکے تک .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

صاحبان علم، حکمت و دانش نے عشق کو دو نام دیئے ہیں، عشق حقیقی اور عشق مجازی، انہی کی پیروی میں معشوق و محبوب کو چار پیرہن پہنچانے کی جسارت کررہا ہوں، محبوب حقیقی، محبوب مجازی، سابق محبوب اور حاضر سروس محبوب، میرے حاضر سروس محبوب راولپنڈی میں مقیم ہیں، آج کل ایکسٹینشن پر ہیں، انہوں نے مزید ایکسٹینشن لی تو مجھ سمیت ان کے کروڑوں چاہنے والے بھی انہیں ایکسٹینشن دے دیں گے،  وہ صدر پاکستان بنادیئے گئے تو بھی محبت جاری رہے گی، انہوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا تو منصب خالی ہوجائے گا، مجھے نئے محبوب کی تلاش و فکر شروع ہوجائے گی، میرے سابق محبوب اسلام آباد کی نواحی بستی میں رہتے ہیں، حاضر سروس محبوب اور سابق محبوب کے درمیان زمینی فاصلہ تو زیادہ نہیں لیکن ذہنی اعتبار اور روحانی اعتبار سے دونوں کے درمیان بہت زیادہ ہے۔ دونوں کے درمیان اس فاصلے کے سبب براہ راست ملاقاتیں ختم ہوچکی ہیں، البتہ بالواسطہ نامہ و پیام ہوتا رہتا ہے۔ میرے سابق محبوب کی طرف سے اعلان مارچ کے ساتھ ہی وسیع پیمانے پر اس کی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں۔ امید کی جارہی تھی کہ لاہور سے ہزاروں افراد کا قافلہ نکلے گا اور راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اٹھاکر پرے پھینکتا ہوا ڈی چوک جا پہنچے گا۔ اتحادی سرکار نے اس یلغار کو روکنے کے انتظامات شروع کردیئے۔ اطلاع ملی کہ شہر بھر کے بیوٹی سیلون پر بے انتہا رش ہے،

ہر سٹینڈرڈ کے سیلون پر درجنوں خواتین جبکہ بعض جگہوں پر تو ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی، یوں محسوس ہوا شاید مارچ اور دھرنے کا مقام تبدیل ہوگیا ہے، یہ سب خواتین مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں وہاں موجود تھیں۔ ان میں نوجوان لڑکیاں، شادی کی عمر گذر جانے والی خواتین، دو دو چار چار بچوں کی مائیں، کچھ نانیاں اور دادیاں غرضیکہ ہر عمر کے نمائندگی نظر آئی۔ بیشتر خواتین دو روزق بل منی کیور، پیڈی کور کرواچکی تھیں، اب فیشل اور سکن پالش کے لیے آئی تھیں، علی الصبح ان کی اپوائنٹ منٹ ہیر سٹائل اور فائنل میک اپ کے لیے تھی، کچھ ڈھلتی عمر کی خواتین جنہوں نے اوائل عمری میں بال رنگ رنگ کے اپنے بال قبل ازوقت سفید کرلیے تھے، وہ بال رنگوانے کے لیے موجود تھیں،
یہ سب خوش گپیوں میں مصروف تھیں، کسی کو کوئی فکر فاقہ نہ تھا، سب پوری طرح مسلح ہوکر مارچ اور دھرنے میں شرکت کرنے پر متفق تھیں۔ ہر گروپ سے تعلق رکھنے والی خواتین سے پوچھا کہ یہ شادی کا فنکشن نہیں سیاسی مارچ ہے پھر یہ تیاری چہ معنی دارد، جواب سن کر پائوں تلے سے زمین نکل گئی، کہنے لگیں یہ مارچ اور دھرنا شادی کی تقریب سے بڑھ کر ہے، اور اس تیاری کا اہتمام اس لیے ہے کہ ہوسکتا ہے ہمارے لیڈر کی نظر ہم پر پڑ جائے اور وہیں رک جائے۔ انہوں نے مزید جو کچھ فرمایا قلم کو رقم کرتے شرم آتی ہے۔
ایک عمر رسیدہ خاتون سے پوچھا محترمہ آپ
بھی! جواب ملا ہاں میں کیوں نہیں، میرے سینے میں دل نہیں ہے کیا، اب تو ساٹھ برس کی عمر میں شان اِن فیشن ہے، بادل نخواستہ پوچھا مگر آپ تو خیر سے ایک شوہر کی مالک ہیں جو آپ کے دوسرے شوہر ہیں، جواب ملا پھر کیا ہوا نیا مل جائے گا تو دوسرے سے اسی طرح طلاق لے لوں گی، جیسے پہلے سے لی تھی ۔ ہم اکثر کہتے ہیں سنتے ہیں نئی نسل ہمارے اور پاکستان کے مستقبل کی وارث ہے، تو جناب یہ ہیں نئی نسل دینے والی مائوں کی سوچ، نئی نسل ان کی تربیت کے بعد ہماری اور آپ کی وراثت کے ساتھ کیا کرے گی، اندازہ کرلیجئے۔
مارچ کی صبح مسلح خواتین کے قافلے روانہ ہوئے اور نیازی چوک، سگیاں پل اور نہر کے کنارے کنارے ہوتے ہوئے موٹر وے پر چڑھنے سے قبل روک لیے گئے اور کئی گھنٹے کی بحث و تکرار، گالم گلوچ، نعرے بازی، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گرمی کی شدت سے میک اپ پگھلنے کے بعد جہاں سے چلے تھے وہیں اپنی اصل حالت میں پہنچ گئے۔ یہی حال اسلام آباد کو پہنچنے والے تمام راستوں کا تھا، پولیس کی بھاری نفری اور کنٹینرز نے شرکا مارچ کو کامیابی سے روکے رکھا، جہاں ضرورت پیش آئی وہاں ان کی مرمت بھی کی گئی، صوبہ خیبر پختونخوا سے آنے والے کچھ لوگ صوبائی پولیس کی حفاظت میں اٹک پل تک پہنچے، پھر وہاں بھی وہی کچھ ہوا جو سیاسی لانگ مارچ و دھرنوں کے حُسن کو دوبالا کرتا ہے، کچھ لوگ ڈی چوک پہنچ گئے، ان کی تعداد ہزاروں میں نہ تھی،
یہ بھوک پیاس، آنسو گیس اور لاٹھی چارج بھگت کر یہاں
پہنچے اور میرے سابق محبوب کا انتظار کرنے لگے۔ سہ پہر گذر گئی، شام ڈھل گئی، رات بھیگ گئی، سپیدہ سحر نمودار ہونے لگا، دور دور تک قیادت کا کچھ پتا نہ تھا، قاسم سوری کے مشورے پر اسلامی ٹچ تو آپ دیکھ چکے، قابل دید پرفارمنس اسلام آباد کی ایک مرکزی شاہراہ پر دیکھنے کو ملی، جہاں ایک سیاہ برقعہ پوش، نقاب پوش آنکھوں پر سیاہ عینک چڑھائے، اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون پولیس کانسٹیبل شہباز کے لتے لیتی ، اِسے گالیاں بکتی رہی جبکہ کانسٹیبل شہباز خاموشی سے منہ دوسری طرف کیے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی ایک ساتھی نہایت مہارت سے اُس کی ویڈیو بناتی رہی جسے بعد ازاں سوشل میڈیا پر ڈال کر نمبر بنانے کی کوشش کی گئی، اس خاتون کا تعلق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک امریکی تنظیم سے ہے، خاتون کی شدید خواہش تھی کہ کانسٹیبل اُسے ایک دو جڑدے، وہ زمین پر گرے تو اُسے اپنی ٹھوکروں پر رکھ لے اور آخر میں اُسے چٹیا سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹے پھر اس کارنامے کی ویڈیو ریلیز کرکے کروڑوں روپے کمانے کے ساتھ ساتھ ظلم کے خلاف مزاحمت کا عالمی ایوارڈ اچک لیا جائے، شہباز کانسٹیبل کو سلام، اُس نے ثابت کردیا حقیقی ہیرو وہ ہے، اس نے صبروتحمل سے برقعہ پوش، نقاب پوش سازش کو بے نقاب کیا۔
دھرنا میدان اجاڑ دیکھ کر کھلاڑی نمبر 129 حرکت میں آیا، جس کے بعد چند ہزار افرادڈی چوک پہنچے ورنہ تو وہاں مرزا یار اور سنجیاں گلیاں ہی میڈیا پر نظر آتیں۔ آخری لمحات میں فیصلے سے قبل ڈرون کیمرے کے ذریعے چیک کیاگیا کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے کہ نہیں! کیمروں نے جو منظر دکھایا اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ کسی اور طرف منہ کرجانے میں ہی عزت ہے، ڈی چوک پر اگر ایک لاکھ افراد موجود ہوتے تو پھر کون دیکھتا کہ قانون کیا ہے۔ کہاگیا ہے کہ خون خرابہ ہوسکتا تھا، خون خرابہ کئی برس قبل نواز حکومت کو گرانے کے لیے شروع ہوا تھا، اس مارچ میں بھی ہوا، مجموعی طور پر سات افراد جاں بحق ہوگئے اور خون خرابہ کیا ہوتا ہے۔
زمانہ اقتدار میں کوئٹہ کے پرامن ہزارہ، ستر لاشیں لیکر کئی روز تک بیٹھے رہے، کسی کا دل نہ پسیجا، زمانہ زوال ہے، جاں بحق کارکن کے گھر جا پہنچے ہیں کیونکہ اب کارکنوں کی جان و مال کے بغیر کوئی مارچ کوئی دھرنا نیہں ہوسکتا۔ بتایاگیا ہے کہ ہماری تیاری نہیں تھی، عام کارکن پوچھتا ہے مہینہ بھر کیا کرتے رہے، اندر کی کہانی وہی ہے جو گذشتہ کالم میں عرض کرچکا، فیصلہ کن تحریک ، مارچ اور دھرنے کے لیے کئی ارب روپے درکار ہیں، کئی ہزار جانثار ہر شہر سے نکلیں تو کچھ بات بنے۔ نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنے میں علامہ القادری کے جانثاروں نے رنگ جمایا، سرخی پوڈر گروپ تو شام سے رات گئے تک میوزک مستی انجوائے کرتا تھا، کئی برس بیت گئے، ایک سوال کا جواب نہیں مل سکا، ریاست مدینہ بنانے کی بات ایاک نعبدو سے شروع ہوتی ہے پھر ٹھمکے اور ڈھول ڈھمکا کیوں شروع ہوجاتا ہے، لندن سے گرفتار ہوکر امریکہ پہنچنے والے ابراج گروپ کے سربراہ نقوی نے 35ملین ڈالر خان کو بھجوانے کا اقرار کرلیا ہے اور کئی رازوں سے پردہ اٹھادیا ہے، اس نے گرفتاری کے بعد پہلا فون میرے سابق محبوب کو کیا کہ مجھے بچایا جائے جس کے بعد امریکی سازش کی کہانی گھڑی گئی۔ اب تو یہ بھی بتانا پڑے گا کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے، کون لایا ہے یہ جھمکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button