Columnمحمد مبشر انوار

تصادم،انقلاب یا عدم استحکام …. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

جمہوری روایات میں تحریک عدم اعتماد سے کسی حکومت کوہٹانا،گرانا عین جمہوری عمل ہے اور سیاستدانوں کو جمہوری کھیل کے اس ضابطے کا بخوبی علم ہے لیکن کیا کریں کہ ہمارے اکثر سیاستدان اقتدار ملتے ہی خود کو ناگزیر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کے نزدیک بس وہی ہیں جو وطن عزیزکی ناؤ کو بیچ منجدھار سے کنارے لگانے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں خواہ حقائق اس کے برعکس ہوں۔ عمران خان کی حکومت بھی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے باعث گھر جا چکی لیکن عمران خان ابھی تک اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں گو کہ اس کی وجہ اورپس پردہ محرکات پر عمران خان کے شدید ترین تحفظات موجود ہیں اور انہی تحفظات کی بنیاد پر عمران خان آج عوام میں موجود ہیں۔ پس پردہ ان محرکات سے کسی بھی طور چشم پوشی نہیں کی جاسکتی اور بطور قوم نہ ہمیں کرنی چاہیے کہ کسی بھی دوسرے ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ زر بانٹنے سے کسی ملک میں اپنی من پسند حکومت قائم کر لے اور دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس حوالے سے ہمارے بیشتر سیاستدانوں کاکردار اتنا قابل رشک نہیں رہا ،وہ اپنی توقعات اور اقتدار میں حصہ کو ہی اولین ترجیح دیتے اور کسی بھی قاعدے یا ضابطے کی خلاف ورزی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ 2013کے انتخابات کو زرداری نے بطور صدر آر اوز کا انتخاب قرار دیا تاہم جمہوری عمل کا حصہ رہے، اسی طرح 2018کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اسمبلی فلور پر ’’سلیکٹڈ‘‘ اور ’سلیکٹرز‘‘ کا لفظ استعمال کیا،لیکن موجودہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد یہ اصول کہیں پاتال میں دفن ہو گیا اوریہی تیرگی آج ’’حسن‘‘کہلائی ہے۔ دہرا معیار ہی درحقیقت ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے اس کے لیے راستہ کوئی بھی ہو، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ سب سیاستدان بخوبی جانتے ہیں کہ عوامی رابطے محض دکھاوا ہیں اور اقتدارکا ماخذ و منبع کہیں اور ہے،جس کا واضح ثبوت موجودہ تحریک عدم اعتماد کے پس پردہ محرکات اور اس کا کامیاب ہونا ہے۔ میں قطعاً تحریک عدم اعتماد کی جمہوری اساس کا مخالف نہیں لیکن اس کے شفاف اور حقیقی ہونے پر یقین رکھنے والوں میں سے ہوں کہ کھیل کو حقیقتاً کھیل کے قواعدو ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے ،نتائج خواہ کچھ بھی ہوں،انہیں سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول کرنا چاہیے۔

عمران خان کی شناخت بطور کھلاڑی ہی رہی ہے اور بحیثیت کھلاڑی،ساری دنیا جانتی ہے کہ کھیل کے میدان میں عمران خان نے ہمیشہ غیرجانبدار ایمپائر کی وکالت کی اورعمران خان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے آئی سی سی نے کرکٹ کے میدانوں میں نہ صرف غیر جانبدار ایمپائرز کی تقرری کی بلکہ بعد از فیصلہ ایمپائرز کی کارکردگی جانچنے کا طریقہ کار بھی اپنایا۔ ایمپائر کے فیصلے پر اعتراض کا حق بھی کھلاڑی کو مہیا کیا،بطور انسان اگر ایمپائر کا فیصلہ غلط ہے تو اسی وقت اس فیصلے سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال کو لمحہ موجود پر منطبق کریں تواس وقت عمران خان اس فیصلے کے خلاف اپیلیں کر رہے ہیںاور ایمپائر زسے ملتمس دکھائی دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہوا ہے،تحریک انصاف کی حکومت کو غلط آؤٹ دیا گیا ہے،اس پر نظر ثانی کی جائے لیکن ایمپائرز بظاہر خاموش اورنظرثانی کرنے کو تیار نہیں۔ بطور کھلاڑی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان ایمپائرز کے فیصلے کو قبول کرکے اگلی باری کا انتظار کرتے لیکن عمران خان کو یہ بھی علم ہے کہ پاکستانی خارزار سیاست میں یہ ممکن نہیں کہ اقتدار سے یوں بے دخلی کے بعدخاموش رہنے سے واپسی کا کوئی راستہ ممکن ہو سکے۔’’مجھے کیوں نکالا‘‘کی گردان، مقتدرہ پر سخت حملے،نام لے لے کر تنقید،استعفوں کے مطالبہ کی روش یقیناً عمران خان کے پیش نظر رہی ہو گی کہ وہ اس وقت عوام کے جم غفیر میں اپنا مقدمہ انتہائی کامیابی کے ساتھ پیش کررہے ہیں اور عوام ان کے جلسوں میں اُمڈی آ رہی ہے،کم ازکم ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے برعکس عوام کی کئی گنا بڑی تعداد، اس سخت ترین موسم میں بھی،عمران کے جلسوں میں آ رہی ہے۔
یہ امر برمحل ہے کہ خواہ ایوب خان کی ’’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ ہویا بھٹو کا نعرہ مستانہ’’سفید ہاتھی میرے پیچھے ہے؍عبرتناک مثال‘‘،ضیاء الحق کا’’مونگ پھلی‘‘ یا عمران خان کی موجودہ احتجاجی مہم جس میں ’’خودداری؍ غیرت اور میر جعفروں اور میر صادقوں‘‘کا ذکر ہو،عوامی رجحان واضح ہے کہ پاکستانی اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل تحریک انصاف کا گراف انتہائی نیچے جا چکا تھا اور وزراء کا خیال تھا کہ ان کے لیے اگلے انتخابات میں عوام کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہو گا،اس پس منظر میں حکومت کا گرنا کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم ہرگز نہیں۔ عمران خان انتہائی جارحانہ موڈ میں اپنی مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں اور بتدریج لیکن اشارتاً حقائق کو عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں ،جس سے مقتدر حلقے واقعتاً پریشان دکھائی دے رہے ہیں لیکن کیا عمران خان کا یہ طریقہ کارپاکستانی مفادات کے عین مطابق ہے یا عمران خان بھی فقط اقتدار کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں؟عمران خان کی اس جارحانہ مہم جوئی کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟عمران خان مسلسل جلسوں سے خطاب کررہے ہیں اور غیر متوقع طور پر ان کا مؤقف عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے لیکن کیا یہ پذیرائی مستقلاً ممکن ہے؟بالخصوص جب یہ باتیں بھر زیر گردش ہیں اور خود عمران خان اس کا اظہار کر چکے ہیں
کہ ان کی کردار کشی کی مہم متوقع ہے۔ گو کہ عمران خان نے نہ کبھی ایسی کردار کشی کی پرواہ کی اور نہ ہی کبھی اس کی صفائی دینے کی ضرورت محسوس کی ہے وہ خواہ مریم نواز کی طرف سے ہو یا ان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی طرف سے،البتہ قبل از وقت اس کا اظہار کرکے عمران خان نے ہمیشہ کی طرح ،عوام میں اپنے لیے نرم گوشہ ضرور پیدا کر لیا ہے۔ سیاسی حدت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس وقت موسم بھی حدت آمیز ہو رہا ہے اور ایسے موسم میں عوام کو سڑکوں پر لانا ،کسی مسلسل احتجاجی مہم کا حصہ بنانے قطعی سہل نہیں لیکن عمران خان دھن کے پکے ہیں اور مئی کے آخر میں،جب گرمی کی شدید ترین لہر،کئی دہائیوں کا ریکارڈ توڑتے ہوئے،اپنے عروج پر ہو گی،اسلام آباد میں بیس لاکھ افراد کا مجمع اکٹھا کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔بالفرض عمران خان اپنے دعوے کے مطابق بیس لاکھ افراد اسلام آباد لے آتے ہیں تو کیاہو گا؟کیا حکومت وقت ،ایمپائرکی منشاء یا مداخلت کے بغیر(بقول عمران خان)نئے انتخابات کروا دے گی؟کیا حکومت فوری طور پر بے بس ہو جائے گی اور امور مملکت عمران خان کے حوالے کر دے گی؟بیس لاکھ افراد کے اسلام آباد دھرنا دینے سے صرف یہ ممکن ہو گا کہ شہریوں کے لیے زندگی عذاب بن جائے گی اور اگر عمران خان کا یہ دھرنا پرامن رہا تو اس سے حکومت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟اصولاً احتجاج ہونا تو پرامن ہی چاہیے لیکن ایسے پرامن احتجاج سے پاکستان میں حق مل سکتا ہے؟ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ عمران خان کسی پر تشدد مظاہرے کی طرف جائیں لیکن جس طرح فریقین کی طرف سے بیان بازی جاری ہے اور ایمپائرز(اگر خاموش رہتے ہیں)تو وزیرداخلہ جو ہمیشہ طاقت استعمال کرنے کے حق میں رہتے ہیں(ماڈل ٹاؤن واقعہ ایک مثال ہے)،اگر طاقت کا استعمال ہوتا ہے تو صورتحال کیا ہوگی؟کیا عمران خان بیس لاکھ کے مجمع کو کنٹرول کر لیں گے،جب وہ خود اپنے جلسوں میں عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر انہیں کنٹینرز لگا کر روکنے کی کوشش کی گئی تو کنٹینر ہٹاؤ گے؟یہ منظر کشی اس لیے کر رہا ہوں کہ اگر واقعتاً ایسی صورتحال ہو جائے تصادم ناگزیر ہو تومعاملات کیا رخ اختیار کریں گے؟ کیا اس تصادم سے واقعی کسی انقلاب کے جنم لینے کی توقع کی جا سکتی ہے یا اس سے مزید عدم استحکام جنم لے گا؟اگر واقعی کوئی انقلاب برپا ہو جائے،جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو، پاکستانی سالمیت،خود مختاری و حمیت کو جنم دے،تو اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہو سکتی لیکن اگر عدم استحکام پیدا ہوتو اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ فریقین نے اپنی ترجیحات کا تعین پاکستانی مفادات کی بجائے امریکی مفادات کو سامنے رکھ کر کیا ہے کہ امریکی ترجیحات ہمیشہ سے یہی رہی ہیں کہ پاکستان کسی بھی صورت مستحکم نہ ہو سکے او ر یہاں ہمیشہ ہر طرح کا عدم استحکام رہے ۔

جواب دیں

Back to top button