ColumnNasir Sherazi

جھرلو …… ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

(گذشتہ سے پیوستہ )
ملک معراج خالد لاء گریجوایٹ سیاست دان، ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، شرافت کی سیاست کا نمونہ، سادگی کا پیکروزیراعلیٰ پنجاب بنائے گئے تو جب بھی مزاج کی سادگی برقرار رہی، اہم آئینی عہدوں پر خدمات سرانجام دیں، پھر ایک موقعہ پر نگران وزیراعظم بنائے، مینڈیٹ عام انتخابات کا انعقاد تھا، روایتی اپوزیشن ملک میں موجود تھی مگر کردار کے اُجلے نگران وزیراعظم پر کوئی اعتراض نہ کیا جاسکا، اس اہم عہدے پر تقرر کے بعد وہ فرائض کی بجا آوری میں مصروف ہوگئے، ایک قومی اخبار نے دیگر سب پر بازی لے جانے کے شوق میں اُن کے حالات زندگی اورسیاسی سفر کے حوالے سے رنگین صفحہ شائع کیا جس میں بتایا کہ انہوں نے بچپن اور زمانہ طالب علمی انتہائی عسرت میں گزارا، وہ کالج میں داخل ہوئے تو اخراجات پورے کرنے کے لیے محنت جاری رکھی، انہوں نے ایک ’’بھینس پال‘‘ رکھی تھی وہ صبح سویرے بیدار ہوتے اُس کا دودھ دوہتے ، دودھ کے ڈول ایک ریڑھے پر رکھ کر اُسے فروخت کرتے پھر ریڑھا ایک جگہ کھڑا کرتے اور کالج پہنچ جاتے، کالج ٹائم ختم ہونے کے بعد ریڑھا لیتے اور لاہور کے نواح میں اپنے گائوں ڈیرہ چال واپس آجاتے، اس داستان حیات میں کچھ باتیں جلی حروف میں شائع کی گئی تھیں، انہی میں ایک سرخی میں بھینس کی بجائے لفظ ’’بہن‘‘ شائع ہوگیا، اب آپ خود سوچ لیجئے فقرہ کیا سے کیا ہوگیا، یہ درویش منش نگران وزیراعظم کے بارے میں غلطی سے تحریر کردہ نہ تھا، ٹائپنگ کی غلطی تھی، ادارے نے اِس حوالے سے معذرت پیش کی، معراج خالد نے ادائے بے نیازی سے کہا کہ کوئی بات نہیں، کام کریں گے ، غلطی تو ہوگی، کام نہ کریں تو پھر غلطی نہیں ہوتی، ان کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں بعد ازاں جو کچھ کرنے والوںنے کیا، اُسے ملک معراج خالد کی زبان میں غلطی سمجھ لیاگیا جبکہ انتخابات میں شکست کھانے والی اور اقتدار سے محروم رہ جانے والی جماعت نے اِسے جھرلو انتخابات کہا۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے سنیئر سیاست دان میاں محمد سومرو بھی ایک موقعہ پر نگران وزیراعظم بنائے گئے، وہ اچھی شہرت کے حامل سیاست دانوںمیں شمار کیے جاتے ہیں، مختلف ادوار میں مختلف محکموں میں اہم عہدوں اور وزارتوں پر فائر رہے، نام و نمود کے شوقین نہ تھے، نہ ہی انہیں میڈیا کے ذریعے اپنی اور اپنے عہدے کی تشہیر کا شوق تھا۔ انہوں نے بالکل اُسی انداز میں انتخابات کرائے جس طرح ایک فارمولے کے تحت فلم بنائی جاتی ہے، جس میں طے کرلیا جاتا ہے کہ ہیرو اور
ہیروئن پرخوشی کے دو گیت پکچرائز ہوں گے، دونوں کے درمیان جب ظالم سماج حائل ہوگا تو ہیروئن چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گراتے ہوئے ایک غم گین گانا گائے گی جس میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ساتھ سیکس کو خوب اُبھارا جائے گا اور فلم بینوں کو باور کرایا جائے گا کہ یہ کیوں تخلیق کیے گئے ہیں، موسم برسات میں ہیروئن باریک لباس پہنے ہیرو کے انتظار میں باغ میں چھلانگیں لگاتے ہوئے موسم کا مزہ لیتے ہوئے، گانا گاتی نظر آئے گی جس میں وہ بتائے گی کہ آج اُس کا جیا کس قدر بے قرار ہے، اُس کے آس پاس درختوں کی ڈالیوں میں ٹانگے ہوئے پلاسٹک کے سیب یا نارنگیاں کلوز اپ میں دکھانے کے بعد کیمرہ ہیروئن کے بھیگے بدن کو کلوز میں دکھائے گا، گانے کی آخری لائن ختم ہوتے ہی ہیرو دھم سے پہنچ کر ہیروئن کو اپنی بانہوں میں لیتا نظر آئے گا، بارہ مصالحوں میں سے ایک کا میڈی بھی ہوگی جس کی ذمہ داری ہیرو کے ایک دوست کے کاندھوں پر نظر آتی ہے جو کبھی کبھار ایسے مکالمے ادا کرتا ہے جن سے حماقت ٹپکتی ہے، مزاح نظر نہیں آتا، کامیڈین کا بنیادی کام ہیرو، ہیروئن کے ملاپ کے راستے میں موجود رکاوٹیں ختم کرنا ہوتا ہے، فلم کے آخری سین میں ہیرو، ہیروئن کا ایک دوسرے سے ٹھاہ کرکے لگنے کا منظر یوں فلمایا جاتا ہے کہ فلم بینوں کے پیسے پورے ہوجاتے ہیں، فارمولا انتخاب میں بھی سرکار کے ساتھ ساتھ قوم کے پیسے پورے ہوگئے، عوام نے فوراً

ہی نئے انتخابات کا انتظار شروع کردیا جیسے فلم بین نئی فلم کا انتظار کرتے ہیں، جناب ہزار خان کھوسو اور نصر اللہ ملک کو بھی نگران وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا، یہ تمام انتخابات آزادانہ و منصفانہ بلکہ کچھ تو مادر پدر آزاد نظر آئے، ان میں 2018 کے انتخابات تاریخ میں جھرلو انتخابات کے حوالے سے ہمیشہ نمبرون رہیں گے، ان انتخابات کے نتیجے میں اِس سیاسی جماعت کو اقتدار دلایاگیا جس کے پاس قومی اسمبلی کے 342حلقوں کے لیے امیدوار ہی موجود نہ تھے، ان انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو قوم انگشت بدنداں رہ گئی، میڈیا میں ایک شور اٹھا لیکن جلد ہی ایک خاص منصوبے اور حکمت عملی کے تحت اسے دبا دیاگیا، منصوبے کے تحت اقتدار منتقل کرنے کا وقت آیا تو قومی اسمبلی میں تعداد پوری نہ تھی پس جوڑ توڑ شروع ہوا وہ تمام حربے آزمائے گئے جو سادہ اکثریت دلاسکتے تھے، یہ اہم کام کرنے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پرتوجہ دی گئی جہاں مرکز میں بننے والی حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن جماعت کے پاس اکثریت تھی، انہوں نے حکومت بنانے کی تیاریاں شروع کردیں، وزراء کے نام تک فائنل ہوگئے اچانک منصوبہ سازوں کو خیال آیا کہ مرکزمیں جنہیں حکومت دی جارہی ہے انہیں پنجاب کی حکومت نہ ملی تو وہ شاید چند ماہ بھی نہ نکال سکیں،پس پنجاب میں حکومت بنانے والوں کو کہاگیا کہ جہاں پہنچے ہیں وہیں رک جائیں اور پنجاب میں بھی یہی فارمولا حکومت بنانے کے انتظامات شروع کردیئے گئے، جس پر ایک مرتبہ پھر شور اُٹھا کہ یہاں اکثریت کو حکومت بنانے سے روکنا کس قانون میں لکھا ہے

لیکن کوئی سننے والا تھا نہ دیکھنے والا، طے شدہ منصوبے کے مطابق حکومت ان کے ہاتھ دی گئی جن کا دعویٰ تھا وہ اس کرہ ارض کے دیانت دار ترین اور ذہین ترین لوگ ہیں حالانکہ سب کو نظر آرہا تھا کہ صرف ایک جہانگیر ترین وہ کچھ کررہا ہے جو کبھی کسی کو کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ حکومت بنی اور دیکھتے ہی دیکھتے پونے چار برس گذرگئے، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا تو ہوش آیا، غور کیا تو معلوم ہوا ان کے پاس ملک کو مسائل سے نکالنے کا کوئی منصوبہ تھا نہ کوئی منصوبہ ساز، گفتار کے غازیوں کے جم غفیر تھے، کردار کا غازی ایک نہ نظر آیا، پس فیصلہ ہوا کہ سر سے ہاتھ اٹھالیا جائے، ہاتھ اٹھنے کی دیر تھی کہ میک اپ زدہ حکومت کا چہرہ کچھ ایسے سامنے آیا کہ تمام سہانے خواب ٹوٹ گئے، قریباً چار سالہ مدت میں اس قدر بیرونی قرضے لیے گئے کہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، ملکی کرنسی کی قیمت قریباً پچاس فیصد کم کردی گئی، آزادی و خودمختاری کے درس دینے والے کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے سمجھے کہ فرض ادا ہوگیا ، اقتدار چھن جانے کا ماتم صبح سے شام جاری ہے، جلسہ عام میں امریکہ کو للکارتے ہیں، امریکیوں سے کہتے ہیں ہم تو امریکہ اور یورپ کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، اب تو نیا حکم جاری کیاگیا ہے کہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے کیوں گئے، یہ وقت تو اقتدار کی جنگ لڑنے کا ہے، ایک ایک گھنٹہ بہت قیمتی ہے، مجھے تو اب اپنی نمازوں کی فکر ہے، خدا خیر کرے، جھرلو چلا اور خوب چلا، اب تو جھرلو چلانے والوں نے بھی اقرارکرلیا ہے، ان کا شکریہ، سب ابہام دور ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button