Column
وکٹ کیپر میچ بچا سکتا ہے! …. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
زندگی میں رفتار سے زیادہ اہمیت، سمت کی ہے۔ رفتار آہستہ بھی ہو تو کبھی نہ کبھی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ غلط سمت میں اٹھایا جانے والا ہر قدم منزل سے دور کرتا چلا جاتا ہے یوں تمام سفر رائیگاں رہتا ہے۔ ماہِ مارچ یوں تو بے رنگ نظر آتا ہے لیکن اس ماہ میں ہمارے آئندہ کے قومی سفر کی راہ متعین ہوجائے گی۔ یوم پاکستان کے حوالے سے منعقدہ تقریبات قدرے رنگین تھیں، ایک عظیم مارچ کے حوالے سے بہت کچھ اشاروں اشاروں میں کہاگیا، اِس کا ایک حصہ مکمل ہوا۔ یہ مارچ یوم پاکستان پر مسلح افواج کی طرف سے پیش کیاگیا۔ نئے جنگی طیاروں کی پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اور اپ گریڈ کیے گئے میزائلوں نے اِس کی رونق کو دوبالا کیا۔ اسی حوالے سے ایک تقریب لاہور کے گورنر ہائوس میں منعقد ہوئی، گورنر پنجاب نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں اعزازت تقسیم کیے۔ گورنر پنجاب قدم قدم پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ بھرپور جوان ہیں ۔ ان کے حوصلے ان سے کہیں زیادہ جوان ہیں لیکن بڑھتی عمر ایک اٹل حقیقت ہے۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں نظر کمزور ہوجاتی ہے، وہ کئی اہم مواقعوں پر نظر کی عینک نہیں لگاتے، اُس روز بھی ایسا ہی ہوا، ماضی کی فلمی ہیروئن صائمہ نور کانام پکارا گیا، وہ اپنا تمغہ وصول کرنے کے لیے آئیں، جناب گورنر کو تمغہ آویزاں کرنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرنے میں دقت پیش آئی، ایک لمحے کے لیے مجھے یوں لگا جیسے وہ کسی غلط جگہ پر تمغہ لگانے لگے ہیں، قریب کھڑے فوجی افسر نے بھی بھانپ لیا کہ یہ غلطی ہونے والی ہے، پس اُس نے آگے بڑھ کر اُنگلی کے اشارے سے درست جگہ کی نشاندہی کی، وہاں موجود کچھ اصحاب کا خیال ہے کہ چودھری سرور شاید دل کے عین اوپر یہ تمغہ آویزاں کرنا چاہتے تھے لیکن مجھے اِس بات سے اتفاق نہیں، چودھری سرور اگر غلط جگہ تمغہ لگادیتے تو اداکارہ صائمہ نور اُس کا برا نہ مناتیں وہ ایک سمجھ دار اور وضعدار خاتون ہیں،انہوں نے زندگی میں لوگوں کی کئی غلطیاں معاف کی ہوں گی، وہ اس غلطی کو بھی ایک بزرگ کی غلطی سمجھ کر زیادہ اہمیت نہ دیتیں، بزرگوں سے اس عمر میں ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بعض غلطیاں پہاڑ بن کر زندگی کے سفر میں سامنے آجاتی ہیں، 2002ء کے انتخابات کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ تھا، اس منصب کے لیے جمالی صاحب امیدوار تھے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے مولانا فضل الرحمان سامنے تھے، وزیراعظم عمران خان نے اپنا ووٹ مولانا فضل الرحمان کے حق میں کاسٹ کیا، جمالی صاحب کو ایک ووٹ زیادہ ملا وہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوگئے۔ عمران خان اِس
وقت اپوزیشن میں تھے، دیگر اپوزیشن ممبران قومی اسمبلی کے ساتھ اُن کے مراسم بہتر تھے، آج ان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو بہتر امیدوار سمجھ کر وزارت اعظمیٰ کا ووٹ دیا، اس وقت وہ ان کی پسندیدہ شخصیت تھے، وہی مولانا فضل الرحمان آج بھی اپوزیشن میں ہیں، مگر اب وہ وزیراعظم کے پسندیدہ نہیں بلکہ ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا، دوستی دشمنی میں کیسے بدل گئی، کیا مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دینا غلطی تھی یا بعد ازاں ان سے فاصلے بڑھانا اس سے بڑی غلطی۔
اپوزیشن پر الزام لگایا جارہا ہے کہ حکومتی ممبران قومی اسمبلی کو منہ مانگے داموں خریدا جارہا ہے، یہ الزام ہر زمانے میں سامنے آتا ہے، کبھی اپوزیشن کی طرف سے، کبھی حکومت کی طرف سے، سوشل میڈیا پر اس کی تصویری جھلکیاں بھی ڈالی جاتی ہیں، ایک شور اٹھتا ہے، پھر سب کچھ اُسی تیزی سے ختم ہوجاتا ہے، میرے خیال اور تجربے کے مطابق یہ سب ڈرامائی تشکیل ہوتی ہے کہ ممبران اسمبلی کو کروڑوں روپے نقد کوئی نہیںدیتا کیوں کہ کروڑوں روپے گھر کے آنگن میںدرختوںکی ڈالیوں یا گملوں میں نہیں اُگتے، سیاسی جماعتیں ممبران اسمبلی کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے پارٹی ٹکٹ کی آفر ضرور کرتی ہیں، اسی طرح کامیابی کے بعد انہیں دیگر سہولتیں یا وزارتیں بھی دی جاتی ہیں لیکن نقد والی باتوں میں زیادہ حقیقت نہیں ہوتی۔
وقت اپوزیشن میں تھے، دیگر اپوزیشن ممبران قومی اسمبلی کے ساتھ اُن کے مراسم بہتر تھے، آج ان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو بہتر امیدوار سمجھ کر وزارت اعظمیٰ کا ووٹ دیا، اس وقت وہ ان کی پسندیدہ شخصیت تھے، وہی مولانا فضل الرحمان آج بھی اپوزیشن میں ہیں، مگر اب وہ وزیراعظم کے پسندیدہ نہیں بلکہ ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا، دوستی دشمنی میں کیسے بدل گئی، کیا مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دینا غلطی تھی یا بعد ازاں ان سے فاصلے بڑھانا اس سے بڑی غلطی۔
اپوزیشن پر الزام لگایا جارہا ہے کہ حکومتی ممبران قومی اسمبلی کو منہ مانگے داموں خریدا جارہا ہے، یہ الزام ہر زمانے میں سامنے آتا ہے، کبھی اپوزیشن کی طرف سے، کبھی حکومت کی طرف سے، سوشل میڈیا پر اس کی تصویری جھلکیاں بھی ڈالی جاتی ہیں، ایک شور اٹھتا ہے، پھر سب کچھ اُسی تیزی سے ختم ہوجاتا ہے، میرے خیال اور تجربے کے مطابق یہ سب ڈرامائی تشکیل ہوتی ہے کہ ممبران اسمبلی کو کروڑوں روپے نقد کوئی نہیںدیتا کیوں کہ کروڑوں روپے گھر کے آنگن میںدرختوںکی ڈالیوں یا گملوں میں نہیں اُگتے، سیاسی جماعتیں ممبران اسمبلی کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے پارٹی ٹکٹ کی آفر ضرور کرتی ہیں، اسی طرح کامیابی کے بعد انہیں دیگر سہولتیں یا وزارتیں بھی دی جاتی ہیں لیکن نقد والی باتوں میں زیادہ حقیقت نہیں ہوتی۔
حکومت کے پاس وسائل کی بھرمار ہوتی ہے، ان وسائل اور انتظامی مشینری کو بروئے کارلاکر ثبوت اکٹھے کرنا مشکل نہیں ہوتا، کروڑوں روپے کسی نے گھر میں رکھے ہوں یا بینک اکائونٹ میں، لین دین کرتے ہوئے یا بعد ازاں برآمد کیے جاسکتے ہیں مگر کسی حکومت نے کبھی ایسا نہیں کیا، اگر کروڑوں روپے لیے یا دئیے جارہے ہیں تو ان کا کھوج نہ لگانا بڑی غلطی ہے۔
گزشتہ برس سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے موقعے پر بھی شور اُٹھا کہ حکومتی سینیٹرز پر دولت کی برسات کی گئی ہے، ایک موقعہ پر وزیراعظم نے میڈیا میں خود آکر بتایا کہ ہمارے چودہ سینیٹرز نے مخالفین سے پیسہ لیا ہے، یہ کروڑوں میں ہے، اس کے ثبوت حاصل کرلیے گئے ہیں، ان شخصیات کے سیاہ کردار کو قوم کے سامنے پیش کیا جائے گا، ایسے افراد کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا، قوم اس کی منتظر رہی، اگر واقعی ثبوت مل چکے تھے،جرم ثابت ہوچکا تھا تو ان شخصیات کو معافی دینا بہت بڑی غلطی تھی، انہیں پارٹی سے نکال دیا جاتا تو پارٹی کی سینیٹ میں پوزیشن پر فرق ضرور پڑتا لیکن ساکھ میں اضافہ ہوتا اور پارٹی پروزیراعظم کی گرفت مضبوط ہوتی۔وزیراعظم پاکستان کے بیان کے مطابق اگر واقعی کوے پکڑے جاچکے تھے، تو پھر لٹکا دینا چاہیے تھا، کوے لٹکادیتے توکھیت بچ جاتا، انہیں اڑادینا غلطی تھی۔
گزشتہ برس سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے موقعے پر بھی شور اُٹھا کہ حکومتی سینیٹرز پر دولت کی برسات کی گئی ہے، ایک موقعہ پر وزیراعظم نے میڈیا میں خود آکر بتایا کہ ہمارے چودہ سینیٹرز نے مخالفین سے پیسہ لیا ہے، یہ کروڑوں میں ہے، اس کے ثبوت حاصل کرلیے گئے ہیں، ان شخصیات کے سیاہ کردار کو قوم کے سامنے پیش کیا جائے گا، ایسے افراد کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا، قوم اس کی منتظر رہی، اگر واقعی ثبوت مل چکے تھے،جرم ثابت ہوچکا تھا تو ان شخصیات کو معافی دینا بہت بڑی غلطی تھی، انہیں پارٹی سے نکال دیا جاتا تو پارٹی کی سینیٹ میں پوزیشن پر فرق ضرور پڑتا لیکن ساکھ میں اضافہ ہوتا اور پارٹی پروزیراعظم کی گرفت مضبوط ہوتی۔وزیراعظم پاکستان کے بیان کے مطابق اگر واقعی کوے پکڑے جاچکے تھے، تو پھر لٹکا دینا چاہیے تھا، کوے لٹکادیتے توکھیت بچ جاتا، انہیں اڑادینا غلطی تھی۔
کرکٹ میچ میں ایک اوور میں چھ کھلاڑی آئوٹ کرکے ہارا ہوا میچ جیتا جاسکتا ہے لیکن سیاسی میچ، کرکٹ میچ سے بہت مختلف ہوتا ہے، مارچ کے مہینے میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والے عمران خان اپنی سیاسی زندگی کا اہم ترین میچ کھیل رہے ہیں جو سپر اوور تک پہنچ چکا ہے، اس میچ میں کامیابی انہیں ہیرو بناسکتی ہے جبکہ ناکامی انہیں زیرو کردے گی۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں ان کی ٹیم کے قریباً ہر کھلاڑی نے شاندار کھیل پیش کیا تو وہ ٹرافی اٹھانے کی پوزیشن میں آئے، سیاسی میچ میں ان کی ٹیم کی کارکردگی متاثر کن نہیں، ان کے بلے باز اچھی کارکردگی نہ دکھاسکے، سکور بورڈ پر سکور بہت کم ہے، ان کے فیلڈرز نے اچھی فیلڈنگ کا مظاہرہ نہیںکیا، اپوزیشن کے جو شاٹ روکے جاسکتے تھے وہ نہ رکے، گیند متعدد مرتبہ باآسانی بائونڈری لائن پار کرگئی،مخالف کھلاڑیوں نے شان دار ہک شاٹ کھیلتے ہوئے گیند سٹیڈیم سے باہر بھی پہنچائی، اپوزیشن نے اُن کی طرف متعدد کیچ اُچھالے لیکن آسان کیچ گرادئیے گئے، وہ ٹیم کی بری پرفارمنس پرکسی اور کو اُس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے کیوں کہ بحیثیت کپتان یہ ٹیم سلیکشن اُن کی اپنی تھی، انہوں نے سلیکشن بورڈ بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔
عمران خان منجھے ہوئے تجربہ کار تیز بولر ہیں، مگر اس وقت غصے میں ہیں، وہ پوری قوت سے بائولنگ کررہے ہیں، ان کی کچھ گیندیں لیگ سٹمپ یا آف سٹمپ سے باہر ہوئیں تو اپنی رفتار سے بائونڈری پار کرجائیں گی، اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے سکور کو روکنے میںوکٹ کیپر کا کردار بہت اہم ہوچکا ہے، میری مراد چودھری پرویزالٰہی سے ہے، خان کو امپائر سے کوئی مدد ملنا ہوتی تو اب تک مل چکی ہوتی، کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کی خواہش بھی اُنہی کی ہی تھی ، امپائر نیوٹرل ہوچکا ہے، نتیجے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن پھر کہہ رہا ہوں کہ وکٹ کیپر میچ بچا سکتا ہے اور ہروا بھی سکتا ہے۔
عمران خان منجھے ہوئے تجربہ کار تیز بولر ہیں، مگر اس وقت غصے میں ہیں، وہ پوری قوت سے بائولنگ کررہے ہیں، ان کی کچھ گیندیں لیگ سٹمپ یا آف سٹمپ سے باہر ہوئیں تو اپنی رفتار سے بائونڈری پار کرجائیں گی، اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے سکور کو روکنے میںوکٹ کیپر کا کردار بہت اہم ہوچکا ہے، میری مراد چودھری پرویزالٰہی سے ہے، خان کو امپائر سے کوئی مدد ملنا ہوتی تو اب تک مل چکی ہوتی، کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کی خواہش بھی اُنہی کی ہی تھی ، امپائر نیوٹرل ہوچکا ہے، نتیجے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن پھر کہہ رہا ہوں کہ وکٹ کیپر میچ بچا سکتا ہے اور ہروا بھی سکتا ہے۔