Column
عابد حسن منٹو کا خط ….. روشن لعل

روشن لعل
لفظ ’’منٹو‘‘ سے کہیں کوئی ’’سعادت حسن منٹو ‘‘ تصور نہ کر لے، اس لیے ابتدا میں ہی یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’منٹو‘‘ (Minto ) سے مراد معروف قانون دان اور سیاستدان عابد حسن منٹو ہیں۔ اگر یہاں اتفاقاً سعادت حسن منٹو کا ذکر ہو ہی گیا ہے تو یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ عابد حسن منٹو کے ساتھ ان کی خاص عزیزداری تھی۔ عابد حسن منٹو نے ایک محفل میں بتایا تھا کہ جب وہ پنجاب یونیورسٹی لاکالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے راولپنڈی سے لاہور آئے تو گھر والوں کی ہدایت پر اپنے عزیز سعادت حسن منٹو سے خاص طور پر ملنے گئے ۔ سعادت حسن منٹو سے ملنے کی وجہ صرف گھر والوں کی ہدایت ہی نہیں تھی بلکہ وہ اُن کی تحریروں سے متاثر تھے۔ عابد حسن منٹو زمانہ طالب علمی کے دوران صرف سعادت حسن منٹو ہی نہیں بلکہ ان کے پایہ کے کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی جیسے دیگر لکھاریوں سے بھی متاثر تھے۔ یہاں عابد حسن منٹو کا ان عظیم لکھاریوںسے متاثر ہونے کے ذکر کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ شروع دن سے ہی ان کا علمی، ادبی اور سیاسی رجحان کس طرف تھا۔ سماج کے تلخ حقائق کی نشاندہی اور استحصال زدہ طبقات کی زندگیوں کی عکاسی کرنے والے لکھاریوں سے متاثر ہونے کے بعد عابد حسن منٹو کا جو رجحان بنا وہ پھر زندگی بھر ان کے ساتھ اور ان پر غالب بھی رہا۔ اس رجحان اور میلان طبع کی وجہ سے انہوں نے ملک کے معتبر،نامور اور قابل ترین وکلا میں شمار ہونے کے باوجود ہمیشہ محنت کش طبقات کے قانونی حقوق کے تحفظ کو اپنی پہلی ترجیح بنایا۔ اقلیتوں کے شہری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے انہوں نے خاموشی سے ایسی جنگ لڑی جو ہر طرح سے اپنی مثال آپ ہے۔ بائیں بازو کی سیاست ہمیشہ عابد حسن منٹوکا اوڑھنا بچھونا رہی اور وہ اس مکتبہ فکر کی مختلف سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے اور صرف اپنی زندگی ہی نہیں بلکہ وسائل بھی وقف کیے ۔ عابد حسن منٹو کے میلان طبع کے متعلق کہنے کے لیے مزید بہت کچھ ہے مگر یہاں ابھی تک جو کچھ کہا جاچکا صرف اسی پر اکتفا کیا جائے گا کیونکہ اس تحریر کاموضوع منٹو صاحب کی ذات نہیں بلکہ وہ خط ہے جو انہوں نے
چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال کو لکھا۔ اس خط کی مناسبت سے ہی زیر نظر کالم کا عنوان ’’منٹو بنام چیف
جسٹس ‘‘ رکھا گیا ہے۔ عابد حسن منٹو کے متعلق یہاں جو کچھ مختصراً بیان کیا گیا اس کا مقصد صرف یہ باور کراناہے کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو جو خط لکھا ہے اسے صرف اور صرف انسانی اور شہری حقوق کے تحفظ اور بحالی کے لیے کی گئی ان کی کئی دہائیوں پر محیط جدوجہد کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے۔
عابد حسن منٹو کے خط سے پہلے سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں میں شمار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے چیف کو بھیجا گیا خط بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔ یاد رہے کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک صدارتی ریفرنس زیر سماعت تھا اس وقت بھی جسٹس عیسیٰ کے حق میں لکھا گیا عابد حسن منٹو کا ایک خط منظر عام پر آیا تھا۔ آج کچھ لوگ جسٹس فائز عیسیٰ کے اپنے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کوعابد حسن منٹو کے موجودہ خط اور ان کے جسٹس عیسیٰ کے حق میں لکھے گئے سابقہ خط کے ساتھ خلط ملط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کون
بھول سکتا ہے کہ عابد حسن منٹو نے ضیا الحق کے خلاف بحیثیت صدر لاہور ہائی کورٹ بار اس طرح جدوجہد کی کہ مارشل لا حکومت نے انہیں جیل میں بند کر دیا تھا۔ گو کہ گزشتہ دنوں اپنی 91 ویں سالگرہ منانے والے عابد حسن منٹو نے وکالت اور سیاست میں اپنا کردار بہت محدود کر دیا ہے مگر ابھی تک ان دونوں شعبوں سے مکمل کنارہ کشی اختیار نہیں کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو صدارتی ریفرنس کے ضمن میں لکھا گیا خط ان کے اس عزم کی عکاسی ہے کہ جب بھی انہوں نے ضروری سمجھا وہ قانونی ، آئینی اور سیاسی معاملات پر اپنی مہارت اور تجربے کے مطابق اظہار خیال کرتے رہیں گے۔
لہٰذا عابد حسن منٹو کے صدارتی ریفرنس کے متعلق چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کو کسی اور نظریے سے دیکھنے کی بجائے اس پر صرف اس حوالے سے غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے خط میںکون سے قانونی نکات اٹھائے ہیں۔ عابد حسن منٹو نے اپنے خط کی ابتدا ہی اس بات سے کی ہے کہ انہیںیہ خط لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ عام شہری یا کسی سماجی تنظیم کے لیے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے یا اس کی عدالت میں سماعت کے دوران فریق بننے کی گنجائش موجود نہیں ۔ انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ صدارتی ریفرنس میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اس سے ایسا نہیں لگتا کہ صدر پاکستان نے غیر جانبدار حیثیت میں سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے کسی قسم کی رہنمائی کی درخواست کی ہے بلکہ یوں لگ رہا جیسے وہ اراکین اسمبلی کی پارٹی پالیسی سے انحراف کے ضمن میں عدالت کو انہیں تاحیات نااہل قرار دینے کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ منٹو صاحب نے اپنے خط میں یہ بھی باور کرایا ہے کہ صدارتی ریفرنس دائر ہونے کے بعد یہاں شروع کی گئی بحث سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63A کی تفہیم کوئی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو پارٹی پالیسی سے انحراف (defection) کے لیے تاحیات نااہلی کی سفارش کی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف اس بات پر غور ہی نہیں کیا جارہا کہ آئین نے آزاد حیثیت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوںکو کسی بھی ایسی پارٹی میں شمولیت کا حق دے رکھا ہے جس کے ٹکٹ پر وہ منتخب ہی نہیں ہوئے ۔ آزاد اراکین کا یہ عمل اپنے طور پر ایک انحراف (defection) ہے مگر اسے آئینی طور پر درست تسلیم کیا جارہا ہے جو کہ ایک آئینی تضاد ہے۔ عابد حسن منٹو نے چیف جسٹس کو لکھے گئے اپنے خط میں کئی دیگر نکات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس خط کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ عدالت صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ، خط میں اٹھائے گئے تمام نکات کا قانونی اور آئینی تقاضوں کے مطابق جائزہ لے۔
لہٰذا عابد حسن منٹو کے صدارتی ریفرنس کے متعلق چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کو کسی اور نظریے سے دیکھنے کی بجائے اس پر صرف اس حوالے سے غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے خط میںکون سے قانونی نکات اٹھائے ہیں۔ عابد حسن منٹو نے اپنے خط کی ابتدا ہی اس بات سے کی ہے کہ انہیںیہ خط لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ عام شہری یا کسی سماجی تنظیم کے لیے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے یا اس کی عدالت میں سماعت کے دوران فریق بننے کی گنجائش موجود نہیں ۔ انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ صدارتی ریفرنس میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اس سے ایسا نہیں لگتا کہ صدر پاکستان نے غیر جانبدار حیثیت میں سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے کسی قسم کی رہنمائی کی درخواست کی ہے بلکہ یوں لگ رہا جیسے وہ اراکین اسمبلی کی پارٹی پالیسی سے انحراف کے ضمن میں عدالت کو انہیں تاحیات نااہل قرار دینے کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ منٹو صاحب نے اپنے خط میں یہ بھی باور کرایا ہے کہ صدارتی ریفرنس دائر ہونے کے بعد یہاں شروع کی گئی بحث سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63A کی تفہیم کوئی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو پارٹی پالیسی سے انحراف (defection) کے لیے تاحیات نااہلی کی سفارش کی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف اس بات پر غور ہی نہیں کیا جارہا کہ آئین نے آزاد حیثیت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوںکو کسی بھی ایسی پارٹی میں شمولیت کا حق دے رکھا ہے جس کے ٹکٹ پر وہ منتخب ہی نہیں ہوئے ۔ آزاد اراکین کا یہ عمل اپنے طور پر ایک انحراف (defection) ہے مگر اسے آئینی طور پر درست تسلیم کیا جارہا ہے جو کہ ایک آئینی تضاد ہے۔ عابد حسن منٹو نے چیف جسٹس کو لکھے گئے اپنے خط میں کئی دیگر نکات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس خط کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ عدالت صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ، خط میں اٹھائے گئے تمام نکات کا قانونی اور آئینی تقاضوں کے مطابق جائزہ لے۔