Columnمحمد مبشر انوار

خانہ جنگی کے آثار ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
پاکستانی سیاست کی کہانی بھی عجیب ہے۔ یہاں ہر نام نہاد سیاستدان اور آمر ایک ہی مقصد بتا کر اقتدار پر براجمان ہوتاہے اور پھر اقتدار کی غلام گردشوں میں سب سے پہلے اپنے اسی مقصد کو قربان کر دیتا ہے۔ ہر حکمران بڑے طمطراق سے یہ مقصد بیان کرتاہے لیکن مجال ہے کہ اس مقصد کے حصول میں دانستہ یا نادانستہ ہی کامیاب ہو سکے اسی لیے ناکامی کا الزام ہمیشہ اپوزیشن یا کسی نادیدہ ہاتھ پر تھوپ دیتا ہے۔ ایسی سوچ اور ایسی کارکردگی پر دردر دل رکھنے والے ،باشعور پاکستانی سوائے افسوس کے ،اور کچھ بھی نہیں کر پاتے کہ عوام کی اکثریت شخصیت پرستی میں مبتلا آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعرے لگاتے انہی شعبدہ بازوں کے گرد جمع رہتی ہے اورانہی کو ووٹ بھی دیتی ہے۔
ویسے پارلیمانی جمہوریت کے اس نظام میں یہ بھی انوکھی بات لگتی ہے کہ جمہور کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے کبھی اپنی شکست تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس ”عوام“ کے گرد مکھیوں کی مانند بھنبھناتے نظر آتے ہیں،کہ جسے اقتدار کی ضامن سمجھتے ہیں۔ان سیاستدانوں کااعتماد جمہور پر نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں بخوبی علم ہے کہ عوام کی نبض پر ہاتھ کیسے رکھنا ہے ،کیسے انہیں جذباتی مار مارنی ہے،کس طرح ان کے ووٹ ہتھیانے ہیں تا کہ کسی اور کو اپنی اہمیت ثابت کی جا سکے۔ووٹ کی عزت کا جنازہ کیسے نکالنا ہے،ووٹ کی حرمت کیسے پامال کرنی ہے،آزاد رائے کو کس طرح،کیسے اور کہاں کہاں خریدنا ہے،یہ سب حربے ان سیاستدانوں کو ازبر ہیں اور ان کا برمحل اور مناسب موقع پر استعمال انہیں بہت خوب آتا ہے۔ بارہا لکھا جا چکا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا مسلمہ ماڈل،جسے اپناکر پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا،ہم سات دہائیوں کے باوجود اس نظام کو کماحقہ لاگو کرنے میں ناکام ہیں کہ کوئی ایک بھی اس معاملے میں نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی مخلص، کہ ہر سیاسی جماعت کو اقتدار چاہیے،خواہ وہ کسی بھی حیثیت میں حاصل ہو سکے۔ برسبیل تذکرہ ترقی یافتہ ممالک میں سب اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت میں سیاست کے لیے زیادہ سے زیادہ دو سیاسی جماعتیں ہونی چاہئیں تا کہ علاقائی تعصب ،یا کوئی بھی دوسرا عنصر ملکی وحدت پر اثر انداز نہ ہو سکے اور تمام علاقائی جماعتوں کے تحفظات ختم کرکے انہیں قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے لیکن پاکستان یا برصغیر کا کلچر آج بھی اس حقیقت سے نا آشنا ہے اور ہنوز علاقائی و مذہبی جماعتوں کے زیر اثر ہے۔اس پس منظر میں سیاسی کھینچا تانی اس قدر زیادہ نظر آتی ہے کہ ملکی ترجیحات میں سب جماعتوں کا ایک نقطہ پر اکٹھا ہونااکثر واوقات نا ممکن نظر آتا ہے کہ کسی بھی پالیسی میں کوئی نہ کوئی نقطہ اعتراض بہرحال رہتا ہے اور ان تحفظات کی بنیاد پر کوئی بھی متفقہ پالیسی ،پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے بن نہیں پاتی اور یوں ملک کا سب سے مقدس فورم عضو معطل بنا نظر آتا ہے۔
اب تو آئینی و قانونی معاملات پر بھی ہمارے سیاسی قائدین کی بلوغت کا عالم یہ ہے کہ ان معاملات کو حل کرنے کے لیے بھی عوام کو سڑکوں پر گھسیٹ لاتے ہیں ۔ نجانے یہ کیسی سیاسی قیادت ہے کہ آئینی و قانونی معاملات کو متعلقہ فورم پر حل کرنے کی بجائے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیوں کرنے پر تلے ہیں؟اپنی عوامی حمایت کا یوں بے موقع مظاہرہ کرنے سے ”کس کو“متاثر کرنا مقصود ہے؟کس کی حمایت درکار ہے؟یا درپردہ متعلقہ فورم پر اپنی شکست کا یقین رکھتے ہوئے،معاملات کو عوام کے سامنے رکھ کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا مقصود ہے یا عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش؟بھٹو کے جانشینوں نے بھی قانونی جنگ عوامی حمایت کے بل پر لڑنے کی کوشش کی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے پاکستانی سیاست سے بیدخل کر دیا گیا حتی کہ آج یہ صورتحال ہے کہ بھٹو کی عوامی جماعت پنجاب سے قریباً نکل چکی ہے۔ زرداری نے گذشتہ ضمنی انتخابات میں ،جمہور خرید کر جس طرح پارٹی کو پنجاب میں زندہ کرنے کی بھونڈی حرکت کی ،اس نے پارٹی کا رہا سہا عوامی تاثر بھی ملیا میٹ کر دیا ہے کہ کہاں بھٹو کا انقلابی منشور(غلط یا صحیح)اور کہاں ووٹوں کی خرید و فروخت اور اس خرید و فروخت کی وصولی بھی اسی عوام کے خون پسینے یا اس کو گروی رکھ کر کی جانی ہے۔بہرکیف بھٹو کے مقدمہ میں عدالتی تعصب نمایاں تھا لیکن اس کے باوجود بھٹو کی قانونی ٹیم کا مقدمہ کو عوامی رنگ دینے کا فیصلہ کسی صورت میں قابل ستائش نہیں سمجھا جا سکتا کہ اس کے نتائج مقدمہ پر منفی ہی رہے۔
ضیاالحق کے سیاسی جانشین نواز شریف کی حالت بھی کچھ ایسی ہی رہی ہے کہ پانامہ انکشافات میں لوٹی ہوئی دولت سامنے آنے پر جو رویہ نوازشریف نے اپنایا وہ کسی بھی صورت ایک عوامی قائد کا نہیں کہلایاجا سکتا جو قانون کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے،اپنی دولت کے انبار کے ناقابل تردید شواہد پیش کرنے کی بجائے الٹا عدالت کے ججوں پر چڑھ دوڑے اور عوام کے سامنے نعرہ زن ہو کہ ”مجھے کیوں نکالا“اور عوام کو گمراہ کرے۔ مقدمہ عدالت میں ہو اور سیاسی قائد اس کا فیصلہ عدالت کی بجائے عوام کے سامنے پیش کرے تو اس سے صرف ایک ہی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے جو عدالت کا سامنا کرنے سے گریز کیا جا رہاہے۔یہاں یہ بات برمحل ہے کہ ماضی میں عدالتوں کا جو رویہ رہا اس سے خائف ہونا،اس پر تحفظات رکھنا ایک فطری عمل ہے لیکن ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے اور اس پر اثرانداز ہونے کے لیے عوامی اجتماعات سے خطابات بہر طور غیر متعلقہ اور غیر ضروری ہیں۔
لمحہ موجود میں بھی اسی روش کی تقلید جاری ہے اور سیاسی قائدین نے ماضی سے سیکھنا گوارا نہیں کیا اور آج بھی صورتحال ایسی ہے کہ اپوزیشن کے ایک آئینی و قانونی حق کے استعمال پر،حکومت اس کا مقابلہ آئینی و قانونی طریقے سے کرنے کی بجائے عوام کو اس میں گھسیٹ رہی ہے،جس کا کوئی جواز قطعی نہیں ہے۔تسلیم کہ اپوزیشن نے حکومتی اتحادیوں اور اراکین کو ورغلا لیا ، خرید لیا یا ان کا ضمیر جاگ گیا ہے اور پھر عمران خان سے تو یہ توقعات رہی ہیں کہ اعلیٰ اخلاقی معیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے،ایسی بے ضابطگیوں سے گریز کریں گے اور آئینی و قانونی لڑائی،آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے لڑیں گے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عددی اعتبار سے موجودہ اسمبلی کے اندر رہتے ہوئے عمران خان کسی بھی صورت اپنے منشور پر عملدرآمد نہیں کروا سکتے، لیکن اس کے باوجود،وہ خود یا ان کے مشیررفقاءیہ چاہتے ہیں کہ وہ حکومت میں موجود رہیں،سمجھ سے بالا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں اگر حکومت ہاتھ سے چلی بھی جاتی،تب بھی عمران خان کو اس پر ملال نہ ہوتا اور وہ سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے،اس شکست کو تسلیم کرتے،اپوزیشن میں بیٹھتے اور مسلسل عوام کو بتاتے کہ اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما رہے اور ایسے اتحادیوں اور ساتھیوں کی موجودگی میں وہ اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے لہٰذا عوام اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کے نظریاتی نامزد کردہ کارکنانامیدواران کی کامیابی کو یقینی بنائیںتا کہ عمران خان نے جو خواب اس قوم کو دکھارکھے ہیں،ان کی تعبیر حاصل کرنے میں سہولت ہو سکے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت نے ایک ہی روز میں اسلام آباد جلسہ کا اعلان کرکے ،اپنے اپنے کارکنان کے جذبات انگیخت کرکے،منحرف اراکین اسمبلی کو دھمکی دے کر امن و امان کی حالت کو دانستہ خراب کرنے کا عندیہ دیاہے ۔ اس پس منظر میں عین ممکن تھا کہ جذبات سے مغلوب کارکنان کوئی ایسی حرکت کر گذرتے،کسی منحرف رکن اسمبلی کے ساتھ حادثہ پیش آجاتا ،خانہ جنگی کے ایسے حالات کو روکنے کے لیے عدالت عظمی نے ایک درخواست پر فریقین کو ریڈ زون میں جلسے کرنے سے روک دیا ہے اور متوقع خانہ جنگی کے آثار کا بروقت سدباب کردیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button