منحرف ارکان کا مستقبل ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار کی درخواست اور حکومت کی فلورکراسنگ کے مرتکب ارکان اسمبلی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی درخواستوں کی یکجا سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اگرچہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے حکومتی درخواست کی علیحدہ سماعت کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ملک کی سیاسی تاریخ کا یہ اہم موڑ ہے جب کسی جماعت کے ارکان اسمبلی کے منحرف ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوگا۔تعجب تو اس بات پر ہے جب پارلیمنٹ سے کوئی قانون سازی ہوتی ہے تو قانون بنانے والوں کو جن قانونی امور میں ترامیم کرنا ہوتی ہیں قانون بناتے وقت کوئی نہ کوئی ابہام چھوڑ دیا جاتا ہے جیسا کہ آئین کی شق 63 اے بناتے وقت اس کی نوک پلک درست طریقہ سے سنوا ر دی جاتی اور کسی قسم کے ابہام کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی جاتی تو حکومت کو اس قانونی شق کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔درحقیقت انگریز کے بنائے ہوئے قوانین کی نقل کرکے قوانین بنا دیئے جاتے ہیںاگر وزارت قانون میں کام کرنے والے حضرات قانون سازی کرتے وقت قانون میں ترمیمی شقوں کی پوری طرح تشریح کریں تو عدالتوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی لہٰذا اس طرح کے قوانین کو Bad Law کہا جاتا ہے۔
اگرچہ حکومت نے اپنے باغی ارکان کے خلاف عدالت عظمیٰ میں جانے کا درست فیصلہ کیا ہے لیکن اس سے قبل سندھ ہاوس میں جو تماشا لگایا گیا ہے اس نے جمہوری روایات کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔اس کے ساتھ مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے اسلامی ملکوں کے وزراءخارجہ کی کانفرنس کے موقع پر کانفرنس ہا ل میں دھرنا دینے کا جواعلان کیا اور بعد ازاں اسے واپس لینے سے مہمان وزرا کو کوئی اچھا پیغام تو نہیں گیا ہوگا۔ دونوں کا بیان جن جن ملکوں کے وزراءکی نظروں سے گذرا ہوگا اس نے ہمارے سیاست دانوں بارے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہو گا۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حکومت نے اپوزیشن کی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں منحرف ارکان کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرکے آنے والے وقتوں میں اس طرح کی صورت حال سے نپٹنے کے لیے قانونی راہ ہموار کردی ہے جس کے مستقبل کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اب جب منحرف ارکان کے مستقبل کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے 63 اے کی تشریح سے مشروط ہوگیا ہے جس کے بعد نہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کو وفاقی دارالحکومت میں پاور شو کرنے کی ضرورت رہی ہے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے اس قانونی شق کی جو بھی تشریح ہو تاالبتہ یہ امر قابل توجہ ہے اگر باغی ارکان بارے سپریم کورٹ سے آئندہ انتخابات کے حصہ لینے کی نااہلیت کا فیصلہ آنے کی صورت میں حکومت کے وہ ارکان جنہوں نے وزیراعظم کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ان کی اپنی جماعت میں واپسی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔حقیقت تو یہ ہے عدم اعتماد کے اس شور شرابے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اخلاقیات کے پہلوﺅں کو نظرانداز کئے بغیر آئینی اور قانونی طریقہ سے عدم اعتماد کی کامیابی اور اس کا دفاع کرنا چاہیے تھا لیکن دونوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔
جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدم اعتماد سے پہلے سندھ ہاﺅس پر حملہ اور حکومت و اپوزیشن کے جلسوں بارے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ عدالت نے دونوں درخواستوں کو سیاسی تناظر کی بجائے آئین کے مطابق دیکھنا ہے۔ اس ضمن میں عدالت نے مسلم لیگ نون ، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماءاسلام کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں اور انہیں اپنے اپنے وکلاءکے ذریعے عدالت کی معاونت کرنے کا حکم دے دیا ہے۔عدم اعتماد کاوقت قریب ہونے کی بنا امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت عظمیٰ صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار کی درخواستوں کافیصلہ دو تین روز میں کر دے گی۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی ہلچل کے دوران منحرف ارکان اسمبلی کے حلقہ انتخاب کے لوگوں کا ردعمل پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے جو اس امر کاغماز ہے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں۔وہ اپنے نمائندوں کو ووٹ دے کر کامیاب تو کراتے ہیں دوسری صورت میں جب ان کے نمائندے عوامی مینڈیٹ کی توہین کریں تو انہیں عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت عظمیٰ سے منحرف ارکان اسمبلی بارے فیصلہ آنے کے بعد مستقبل قریب میں اپنی جماعت سے بغاوت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کا اپنی جماعت سے بغاوت کرنے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ دوسری طرف وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک مرتبہ پھر یقین دلایا ہے کسی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا۔ انہوں نے اپوزیشن کے خدشات کو مفروضوںپر مبنی قراردیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئینی طریقہ سے عدم اعتماد کا مقابلہ کرے گی۔جے یو آئی نے 25 مارچ کے لانگ مارچ کے لیے دس لاکھ افراد لانے کاٹاسک جے یو آئی کے پی کے کو دے دیا ہے۔ اسلامی وزراءخارجہ کی کانفرنس کے بعد آنے والے دن سیاسی تاریخ کے اہم روز ہوں گے جب حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی پاور شو کا مظاہرہ کریں گے۔شاید عدالت عظمیٰ ممکنہ گڑبڑ کے خدشہ کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو پاور شو کی اجازت نہ دے ۔ بہرکیف دونوں فریقوں کی طرف سے پاور شو کی تیاریاں جاری ہیں۔عوام کی نظریں اب عدالت عظمیٰ پر جمی ہوئی ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے ۔ایک بات تو طے ہے فلورکراسنگ کرنے والے ارکان اسمبلی کے مستقبل کا فیصلہ بہت جلد متوقع ہے جس کے بعد آنے والے وقتوں میں ارکان اسمبلی کے لیے اپنی جماعت سے منحرف ہونا ناممکن اور ساتھ ہی مبینہ طور پر لین دین ختم ہو جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا ہے یا پھر کوئی غیر مرئی قوت جمہوریت پر شب خون مارتی ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔