روشن لعل
ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی دو بدنام زمانہ سیاسی اصطلاحات ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح امریکہ سے برآمد ہوئی تو لوٹا کریسی کا منبع ہمارا اپنا وطن عزیز ہے۔ انیسویں صدی کے دوران امریکہ میں گھوڑوں کی خرید و فروخت عروج پر تھی اور اس تجارت میں گھوڑوں کی نسل اور دیگر خصوصیات کے متعلق جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا استعمال بھی انتہاﺅں پر تھا۔ گھوڑوں کی تجارت میں دھوکہ دہی کے عام چلن کا سماج پر یہ اثر ہوا کہ وہاں ہونے والی عمومی ہیرا پھیری کے لیے بھی ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ مختلف امریکی اداروں میں موجود منتخب عوامی نمائندوں نے جب دولت کے عوض اپنا ووٹ کسی کے حق یا مخالفت میں استعمال کرنا شروع کیا تو پھر ایسا کرنے والوں کی اس حرکت کو بھی ہارس ٹریڈنگ ہی کہا گیا۔ امریکہ میں گھوڑوں کی تجارت کے عروج کا زمانہ ختم ہونے کے ساتھ ہی اس شعبے اور زندگی کے دیگر معاملات میں دھوکہ دہی کے لیے تو ہارس ٹریڈنگ کا استعمال ختم ہو گیا مگرجو اصطلاح گھوڑوں کی تجارت سے برآمد ہوئی تھی وہ پارلیمانی سیاست کے ساتھ ایسی لف ہوئی کہ آج بھی اگر کسی پارلیمنٹ میںکوئی پیسوں کے عوض اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے تو اس عمل کو ہارس ٹریڈنگ کا مرہون منت کہا جاتا ہے۔
لوٹا کریسی کا پس منظر یہ ہے کہ تقسیم ہند سے قبل شہر لاہور میں ڈاکٹر عالم نام کا ایسا سیاستدان تھا جس کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی عادت کی وجہ سے اس کے متعلق کوئی بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آنے والے کل میں وہ کانگریس، یونینسٹ پارٹی یا مسلم لیگ میں سے کس کی نمائندگی کر رہا ہوگا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے سبب اسے اس لیے لوٹے کا لقب دیا گیا کیونکہ کسی الیکشن میں اس کا انتخابی نشان لوٹا تھا ، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر عالم کو اس لیے لوٹا کہا گیا کیونکہ بے پیندے کا لوٹا ایک جگہ نہیں ٹھہرتا اور اپنا رخ تبدیل کرتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر عالم کو لوٹا کہنے کی وجہ جو بھی تھی مگر اس کے آئے روز پارٹیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے اس کے ساتھ لوٹے کا لفظ ایسا جڑا کہ اس کے بعد یہاں اس جیسی حرکتوںکے حامل ہر سیاست دان کے لیے لوٹے کا لفظ اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
ترقی یافتہ دنیا میں ” لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ“ کی مثالیں تلاش کرنے کی کوشش کریں تو پون صدی پہلے کا دور کھنگالنے پر بھی کم از کم ترقی یافتہ ملکوں میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ جہاں تک وطن عزیز کا تعلق ہے تو زیادہ محنت کیے بغیر ماضی بعید سے ز مانہ حال تک ایسے نمونے، روایات اور مثالیں کثیر تعداد میں دستیاب ہوجائیں گے جنہیں بغیر کسی تردد کے لوٹا کریسی یا ہارس ٹریڈنگ کہا جاسکتاہے۔ ترقی یافتہ دنیا میںلوٹا کریسی اورہارس ٹریڈنگ کی روایات کوعرصہ پہلے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں یکے بعد دیگرے سیاستدانوں کی کئی منتخب حکومتیں لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے تحت ختم کی گئیںمگر حیرت انگیز طور پر اس طرح کے الزامات لگانے والوں میں وہ لوگ پیش پیش رہے جنہوں نے نہ صرف خود لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اس معاملے میںچوری اور سینہ زوری کرتے ہوئے بھی پائے گئے۔
ان دنوں بھی یہاںایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ آج یہاں وہ لوگ ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی کے خلاف سب سے زیادہ واویلا کرتے نظر آرہے ہیں جن کے اپنے دامن پر ان غلاظتوں کے ایسے بدنما داغ موجود ہیں جو چھپائے نہیں چھپتے ۔ بلاشبہ ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی منفی سیاسی اصطلاحات ہیں مگر کوئی کیسے بھول سکتاہے کہ جب اپوزیشن اراکین کی سینیٹ میں اکثریت کے باوجود حکومتی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی کے عمل کے لیے کس نے ضمیر جاگنے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ وہ لوگ جنہوں نے کل کسی عمل کو ضمیر کا جاگنا قرار دیا وہ آج چاہے اسی طرح کے عمل کو ہارس ٹریڈنگ قرار دے کر جتنا بھی واویلا کریں ان کے قول و فعل کے تضاد کو کوئی بھی باشعور انسان نظر انداز نہیں کر سکے گا۔کسی کے قول و فعل کے تضاد کی کہانی جو بھی ہومگر شعور کا تقاضا یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ چاہے کوئی بھی کر ے اس عمل کو ہر گز درست اور جائز تصور نہ کیا جائے۔
شعور جہاں یہ کہتا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کو درست نہ سمجھا جائے وہاں یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ اگر کبھی خاص طور پر خود ہارس ٹریڈنگ جیسی غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے لوگ دوسروں پر اس علت میں ملوث ہونے کا الزام لگائیں تو ان کے الزام پر آنکھیں بند کر کے یقین نہ کر لیا جائے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ یہاں ہارس ٹریڈنگ کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے مگر ہارس ٹریڈنگ کے امکان کے باوجودبھی کسی پرلگائے گئے الزامات پر کسی طرح بھی ثبوتوں کے بغیر یقین نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ جیسے کاموں کے ثبوت کوئی کہاں چھوڑتا ہے تو وہ یاد رکھے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے کسی پر اپنی پہلی حکومت کے خلاف ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے تھے تو انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے ایسے پختہ ثبوت فراہم کیے تھے کہ بریگیڈئر امتیاز بلا(ر) اور میجر (ر) عامرکو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ بے نظیر بھٹو جب پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو ان کے اختیارات آج کے وزیر اعظم عمران خان کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھے ۔ عمران خان کے مقابلے میں کم ترین اختیارات کے باوجود اگر بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے خلاف ہارس ٹریڈنگ کی سازش بے نقاب کر دی تھی تو بہت زیادہ اختیارات کے حامل عمران خان اور ان کے ساتھی ہارس ٹریڈنگ کا واویلا کرنے کی بجائے ثبوتوں کے ساتھ اپنے خلاف ہونے والی مبینہ سازش کا پردہ کیوں چاک نہیں کررہے۔؟
عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے خلاف مبینہ ہارس ٹریڈنگ کی سازش کو بے نقاب کرنے کی بجائے صرف اس کا واویلاکرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کا خزانہ ہارس ٹریڈنگ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ آج کے دور میں ثبوتوں کے بغیر اس طرح کے الزامات کو صرف بچگانہ حرکت ہی کہا جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت کو ملنے والے فنڈز کے خاص مالیاتی ڈسپلن کے تحت خرچ کیے گئے ایک ایک پیسے کا آڈٹ اپنے اختیار کے مطابق وفاقی حکومت کرتی ہے ، اگر سندھ حکومت نے اپنے خزانے سے ہارس ٹریڈنگ کے لیے اربوں کھربوںنکالے ہیں تو موجود ہ مالیاتی ڈسپلن کے مطابق ان پیسوں کے خزانے سے باہر آنے سے پہلے ہی وفاقی حکومت کے پاس اس کے ثبوت آجانے چاہئیں۔ اگر عمران خان اور ان کے ساتھی ثبوتوں کے بغیر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے اور صوبائی خزانہ لوٹنے کا الزام لگا رہے ہیں تو ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی کے الزامات کی زد میں پہلے سے موجود ان لوگوں کے دوسروں پر لگائے گئے الزامات پرکوئی کیسے یقین کر سکتا ہے ۔