Column

ایشیا کا سب سے زیادہ قید کاٹنے والا قیدی … حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

بھارت کی مودی حکومت نے کشمیر کی پوری قیادت کو اس وقت جیلوں میں قید کر رکھا ہے۔ بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی طویل عرصہ تک گھر میں نظر بند رہے۔ سخت بیماری کے باوجودانہیں نہ تو رہا کیا گیا اور نہ ہی صحیح معنوں میں طبی سہولیات فراہم کی گئیں جس پر وہ چند ماہ قبل دوران حراست ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔حریت رہنما محمد اشرف صحرائی گزشتہ برس کوٹ بھلوال جیل میں کرونا انفیکشن کا شکار ہوئے ، انہیں ہسپتال منتقل نہ کیا گیا اور وہ جیل میں ہی شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ میرواعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، سیدہ آسیہ اندرابی اور دوسرے کشمیری لیڈر بھی جیلوں میں قید ہیں، معروف حریت پسند کشمیری لیڈر مسرت عالم بٹ جنہیں بزرگ قائد سید علی گیلانی کی وفات کے بعدآل پارٹیز حریت کانفرنس کا چیئرمین منتخب کیا گیا ، وہ بھی تہاڑ جیل میں قید انتہائی نارواسلوک کا سامنا کررہے ہیں۔
اکیاون سالہ مسرت عالم کی ساری زندگی مظلوم کشمیریوں کے حق میں اور غاصب بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہ ایک باہمت، نڈر اور مخلص رہنما ہیں۔ قید کے دوران بھارتی فورسز کی طرف سے انہیں بار بار ذہنی و جسمانی طور پر سخت ٹارچر کیا جاتا رہا مگر ان کے عزم و استقلال اور جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ غاصب بھارت کے خلاف کشمیریوں کی ایک مضبوط اور توانا آواز سمجھے جاتے ہیں ۔ بھارتی حکام کے ظلم و جبر اور دہشت گردی کے سامنے جس طرح بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی ہمیشہ کوہ گراں ثابت ہوئے، اسی طرح مسرت عالم بٹ بھی تحریک آزادی کشمیر کے بے لوث سپاہی ہیں اور انہیں شروع سے ہی سیاسی و مذہبی تناظر میں دو ٹوک اور جرا ¿ت مندانہ رویہ اختیار کرنے والالیڈر تصور کیا جاتا ہے۔کشمیریوں پر مشکل وقت اور آزمائشوں کے دوران وہ ہمیشہ ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے ۔ ان کا یہی وہ کردار ہے جس سے ہندوستانی فوج اور ایجنسیاں ہمیشہ خائف رہے اوران کی آواز کوہر موقع پر دبانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ نوے کی دہائی میں انہیں پہلی مرتبہ 19برس کی عمر میں گرفتار کیا گیا،وہ گیارہ ماہ جیل میں رہے اورپھر بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد میں شریک ہو گئے۔ دوسال بعد دوبارہ پانچ سال کے لیے گرفتار ہوئے اور تب رہائی کے بعد انہوںنے سیاسی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ جموں کشمیر کے نام سے سیاسی تنظیم بنا کر اس کے چیئرمین بن گئے ۔مقبوضہ کشمیر میں جب بھارت سرکار کی طرف سے ہندو ادارے امرناتھ شرائن بورڈ کو آٹھ سو کنال سرکاری اراضی زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی تو پورے کشمیر میں زبردست احتجاج شروع ہو گیا۔ اس موقع پرجموں کشمیر مسلم لیگ نامی یہ تنظیم ابھی نئی بنی تھی تاہم مسرت عالم بٹ نے شرائن بورڈ کے خلاف کئی ماہ تک پوری قوت صرف کرکے ایسی زبردست تحریک چلائی اور بالآخر اسی احتجاجی تحریک کے نتیجہ میں کشمیری لیڈر غلام نبی آزاد کی کٹھ پتلی حکومت ختم ہو گئی۔

امرناتھ شرائن بورڈ کے خلاف یہ مقامی کشمیریوں کی زبردست تحریک ہی تھی، جس کے سبب مسرت عالم بٹ مقبوضہ کشمیر میں ایک بڑے لیڈر کے طور پر ابھرے اورمحض چند برسوں کے دوران ہی وہ کشمیر میں بھارت مخالف سیاسی مزاحمت کا مضبوط چہر ہ بن گئے ۔ اس دوران انہیں بار بار نام نہاد کالے قانون پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا جاتا رہا اور ابھی تک ان کے خلاف چار درجن کے قریب مقدمات درج ہیں جن میں سے پینتیس ایسے ہیں جن میں ان پر نام نہاد کالا قانون پی ایس اے لاگو کیا گیا ہے۔بھارتی حکومت نے پی ایس اے قانون میں یہ شق شامل کر رکھی ہے کہ اگر عدالت کسی کو بری کر دے تو پولیس اسی شخص کو دوبارہ اسی قانون کے تحت گرفتار کر سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی جرم کے جیل میں ڈالنے پر مقامی عدالتیں انہیں رہا کرنے کا فیصلہ سناتی رہیں لیکن بھارتی پولیس انہیں بار بار گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالتی رہی اور یوں ان کی زندگی کادو تہائی سے زائد حصہ مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان کی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے گزر گیا ہے۔مسرت عالم بٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سنگا پور کے ڈاکٹر چائی تھائے پوش کے بعد ایشیا میں طویل عرصے تک قید رہنے والی دوسری سیاسی شخصیت ہیں۔ آخری مرتبہ انہیں 2015میں گرفتار کیا گیا۔قبل ازیں جب انہیں جیل سے رہائی ملی تو انہوںنے پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرنے کے ساتھ ساتھ حافظ محمدسعید سے رشتہ کیا، لاالہ الااللہ کا نعرہ بھی بلند کیا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو مودی سرکار کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انہیں فوری طور پر دوبارہ گرفتار کرلیا گیاجس کے بعد سے وہ اب تک تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ مسرت عالم بٹ بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی سے والہانہ لگاﺅ اورانہی جیسا دو ٹوک موقف رکھتے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تو بزرگ قائد کی طرح انہوںنے بھی اس کی کھل کر مخالفت کی اور مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بعد ازاں ان کی تنظیم حریت کانفرنس جموں کشمیر کا باقاعدہ حصہ بن گئی اور اسی پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔
حریت کانفرنس کے نئے چیئرمین انتہائی ایماندار اور عام کشمیری گھرانے سے تعلق رکھنے والی شخصیت ہیں۔ ان کی بیوی اور معذور بہن آج بھی دوکمروں کے اسی مکان میں رہتے ہیں جس میں خود انہوں نے پرورش پائی ہے۔مذکورہ لیڈر کو چیئرمین منتخب کیے جانے پر ہندوانتہاپسند تنظیموںنے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور سید علی گیلانی کا جانشین قرار دے کر ان کے خلاف نعرے بازی کی جاتی رہی۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کرتے ہوئے بھارتی میڈیا نے خاص طور پر یہ بات کہی کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف پتھراﺅ شروع کرنے کا آئیڈیا مسرت عالم بٹ کا تھا اور انہی کی تحریک پر مختلف علاقوں میں اس عمل کا یوں آغاز کیا گیا کہ بھارتی فوج اور حکومت اس سے زچ ہو کر رہ گئے اور ہندوستانی آرمی چیف نے یہاں تک دھمکی لگائی کہ جو پتھر برسانے سے باز نہیں آئے گا بھارتی فوج اس پر گولی چلانے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ بھارتی فوجی سربراہ اور حکومتی ذمہ داران کئی بار اس نوعیت کی دھمکیاں دے چکے ہیں لیکن ان کے یہ بیانات پرعزم کشمیری عوام کی راہ میںرکاوٹ نہیں بن سکے اور آج بھی جہاں کہیں ضرورت پیش آتی ہے کشمیری عوام پتھراﺅ کر کے بھارتی فوج کو بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

تحریک آزادی کشمیر کے بے لوث سپاہی ہیں اور انہیں شروع سے ہی سیاسی و مذہبی تناظر میں دو ٹوک اور جرا ت مندانہ رویہ اختیار کرنے والالیڈر تصور کیا جاتا ہے۔ اپنے اسی سخت گیرموقف اور غاصب بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے سبب انہیں گزشتہ ربع صدی سے جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر عالمی اداروں نے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو لاقانونیت کی بدترین مثال قرار دیا ہے لیکن ریاستی دہشت گردی میں ملوث بھارت سرکار کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگی اور ابھی تک اس قانون کو کشمیری قیادت کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بھارت مخالف مظاہروں کی پاداش میں جب ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا اور پی ایس اے قانون کا بے دریغ استعمال کیا گیا تو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ہر دلعزیز حریت لیڈر کو عوام سے دور رکھنے کے لیے اکتوبر 2010ءسے 2015ءکے دوران قید رکھا گیاہے۔2015ءمیں بھارتی سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا تو ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر مسرت عالم کی ممکنہ رہائی کو قومی غصے سے تعبیر کیا اور پھر رہائی کے فوری بعدپاکستان کے حق میں نعرے لگانے کے جرم میں دوبارہ گرفتار کرکے تہاڑ جیل میں قید کر دیا گیا، بہرحال ذہنی وجسمانی تشدد ،قیدوبند کی صعوبتیں اور نظربندیاں مسرت عالم کے اعصاب نہیں توڑ سکیں۔انہوںنے کئی مرتبہ جیل کو چھوٹی جیل اور وادی کشمیر کو بڑی جیل کا نام دیا کہ آزادی کی تحریک میں فرق نہیں پڑتا کہ حریت پسندبڑی جیل میں ہے یا چھوٹی جیل میں۔ بھارت کی مودی حکومت نے جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت والی دفعات ختم کرنے کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ختم کرنے کے لیے سب حربے آزما لیے لیکن کامیاب نہیں ہو سکی۔کشمیریوں کی تحریک آزادی پوری قوت سے جاری ہے اور غاصب بھارت کو جلدان شاءاللہ جنت ارضی کشمیر سے نکلنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button