Column

بزدل اسرائیل پر سجیل بھاری پڑ گیا

بزدل اسرائیل پر سجیل بھاری پڑ گیا
تحریر : سی ایم رضوان

ایک طرف جہاں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا سلسلہ روز بروز کم ہو رہا ہے تو دوسری طرف ایرانی عسکری قیادت نے بجا طور پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ہلاکت تک اسرائیل پر حملے جاری رکھنے کا جو اعلان کر رکھا ہے۔ اس سے صیہونی فوج کی گھبراہٹ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پانچ روز قبل ایران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس بار اسرائیل پر حملے فیصلہ کن نوعیت کے ہوں گے اور ناجائز ریاست کے عسکری اور سیاسی دہشت گردوں کو چھپنے کیلئی کوئی جگہ میسر نہیں ہو گی۔ اس کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں اور ڈورنز کی بارش شروع کر دی تو عالمی میڈیا جو ایک روز قبل ایران کی کمزوری اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا رونا رہا تھا اسے اپنے تجزیات کا خلاصہ بدلنا پڑا گیا اوپر سے ایران نے ان حملوں میں مزید اضافے کا اعلان کر کے عالمی میڈیا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو بھی خاصا پریشان کر دیا ہے۔ اسرائیلی اخبار ہارٹیز کا کہنا ہے کہ ایران اپنی قیادت کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے اس بار نیم جوہری ہتھیار اسرائیل پر آزما سکتا ہے۔ نیتن یاہو اور وزیر دفاع کاٹز قلعہ بند ہیڈ کوارٹر سے حملے کی نگرانی کرتے رہے۔ جبکہ آپریشن کی ذمہ داری موساد کی جانب سے انجام دی گئی۔ یہ امر طے شدہ ہے کہ بزدل اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوجی ہلاکتوں کی وجہ سے ہونے والی ناکامی چھپانے اور حکومت کو بچانے کے لئے ایران پر حملہ کیا تھا۔ اس کائونٹر سٹرائیک میں اسرائیل کو امریکی، برطانوی اور ایران کے اندر سے بھی معاونت حاصل تھی۔ جنہوں نے ایران کے اعلیٰ کمانڈرز اور نامور سائنس دانوں کے ٹھکانوں کے حوالے سے ٹھوس معلومات فراہم کیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس حملے میں اسرائیلی فضائیہ کو امریکہ نے اپنے جدید ترین جیٹ اور بی ایف ٹو بمبار طیارے مہیا کیے تھے۔ جن کی تعداد دو سو سے زائد تھی جبکہ اس آپریشن کا نام پیپل لائک لائنز رکھا گیا۔ ان فضائی چھاپوں میں جیٹ طیاروں نے مختلف گروپوں کی شکل میں تہران سمیت دیگر ایرانی شہروں کی ملٹری اور نیوکلیئر سائٹس کو نشانہ بنایا۔ جس میں ہزاروں ٹن وزنی وار ہیڈز کا آزادانہ استعمال کرنے کے ساتھ امریکی ڈورنز بھی استعمال کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ابتدا میں اسرائیل نے جمعہ کی صبح ایران کی تین سو سائٹس کو نشانہ بنایا۔ ایرانی میڈیا نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل نے دوپہر کے وقت بھی شمال مغربی ایران میں تبریز ایئرپورٹ کے قریب ایک نیا حملہ کیا۔ جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سینٹرل ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد، ایٹمی سائنسدان فریدون عباسی، ایٹمی سائنسدان مہدی تہرانچی، نیوکلیئر انجینئرنگ کے پروفیسر احمد رضا ذوالفغاری، پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی اور ایرانی چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری شہید ہوئے جبکہ دیگر اہم کمانڈرز کی شہادت کی بھی اطلاعات ہیں۔ تاہم اس حوالے سے تادم تحریر ٹھوس معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔ اسرائیل نے ایران کے رہائشی علاقوں پر بھی تباہ کن بمباری کی تھی۔ جس میں سینکڑوں افراد کے زخمی اور شہید ہونے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ صوبہ کرمان شاہ پر اسرائیلی حملوں میں ہلاکتیں ہوئیں۔ کرمان شاہ کے علاقے قصر شیرین سے زخمیوں کو نکالنے کیلئے آپریشن کیا گیا۔ اسرائیلی میزائلوں سے علاقے میں سماجی بہبود کی عمارت پر دو مرتبہ حملہ کیا گیا۔ تہران کے شمال میں نوبونیاڈ کے علاقے پر اسرائیلی حملے میں 35بچوں اور خواتین سمیت 50شہری زخمی ہوئے۔ اس نقصان کے حوالے سے ایرانی حکومت کی جانب سے تردید کی گئی۔ تاہم بعض ایرانی میڈیا آوٹ لیٹس نے اعلیٰ ایرانی فوجی اور سائنسی قیادت کی شہادت کی تصدیق کی۔ دوسری جانب ایران نے اسرائیل پر فیصلہ کن حملے کرنے کیلئے کمر کس رکھی ہے۔ ایران نے ٹروپرامس تھری آپریشن لانچ کر دیا ہے۔ جس کے ابتدائی حملے میں ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب پر 100ڈرون لانچ کیے۔ جبکہ ان کو روکنے کے لئے اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹم فعال ہو چکا ہے۔ دوسری جانب حسین سلامی کی شہادت کے بعد ایرانی سپریم لیڈر کے حکم سے پاسداران انقلاب کے کمانڈر کے طور پر میجر جنرل احمد واحدی کی تقرری کی تصدیق کی گئی جبکہ حبیب اللہ سیاری کو ایران کی مسلح افواج کا عبوری چیف آف اسٹاف مقرر کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی حملے کا جواب سخت اور فیصلہ کن ہو گا۔ جوابی کارروائی کے دائرہ کار اور وقت کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر مشاورت کی جا رہی ہے۔ ایران کا سب سے بڑا ٹارگٹ نیتن یاہو اور اسرائیل کی سیاسی و عسکری قیادت کو براہ راست ٹارگٹ کرنا ہے۔ جو اس وقت زیر زمین چلے گئے ہیں۔ ایرانی مسلح افواج کے ترجمان جنرل ابوالفضل شکرچی نے کہا کہ اسرائیل کو سخت جواب دیا جائے گا۔ جبکہ الزام لگایا کہ امریکہ نے اس حملے میں کردار ادا کیا۔ صیہونی دشمن جس نے یہ کارروائی امریکہ کی حمایت سے کی ہے اور رہائشی علاقوں پر حملہ کیا ہے، اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی ایک انتباہ دیا تھا کہ اسرائیل کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دشمن کے حملوں میں کئی کمانڈر اور سائنسدان شہید ہو چکے ہیں۔ انشاء اللہ ان کے جانشین اور ساتھی بلاتاخیر اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ صیہونی حکومت کو درد ناک انجام کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ادھر ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے نیوز ویک کو بتایا تھا کہ انٹیلی جنس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران نے 15جوہری بم بنانے کی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں۔ جو اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ایرانی حکومت کی طرف سے ہزاروں کلو گرام افزودہ یورینیم تیار کیا گیا ہے۔ جو حکومت کو مختصر مدت کے اندر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ادھر ایرانی جوہری توانائی کی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وسطی ایران کے شہر اصفہان میں نتنز جوہری تنصیب پر حملے کے نتیجے میں اس کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچا جبکہ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ تنصیب کے باہر تابکار یا کیمیائی آلودگی کا کوئی اخراج نہیں ہوا۔ ایران اور اسرائیلی جنگ کے حوالے سے عسکری ماہر میجر جنرل فیاض الدویری کا کہنا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پہاڑوں کے اندر گہرائی میں واقع ہیں۔ جس کے سبب ان کو نشانہ بنانے اور تباہ کرنے کا مشن پیچیدہ ہے۔
ایرانی جوہری پروگرام سے صیہونی فوج کا خوف تو اپنی جگہ ابھی تو ایران کے سجیل میزائل کا مقابلہ کرنا بھی اسرائیل کے لئے مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اس وقت جنگی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ ایرانی جدید ترین میزائل سجیل کو تباہ کرنا صیہونی دفاعی نظام کے لئے ناممکن ہو گیا ہے۔ سجیل میزائل کے پیچیدہ ترین نظام اور تیز رفتاری کی وجہ سے صیہونی آرمی کا دنیا کا جدید ترین دفاعی نظام بھی سجیل میزائل کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ واضح رہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں پہلی مرتبہ سجیل میزائل استعمال کرکے تل ابیب میں تباہی مچادی ہے۔ پاسداران انقلاب کی فضائیہ نے کئی سال پہلے بحیرہ ہند کے شمال میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سجیل کا تجربہ کیا۔ دیکھا گیا ہے کہ 1800کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل سجیل بحیرہ ہند میں تعینات امریکی بحری کشتی سے 100میل کے فاصلے پر اپنے ہدف کو جا لگا۔
اس مشق کے دوران مائع اور ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائلوں کا تجربہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ قدر اور عماد میزائل مائع ایندھن اور سجیل ٹھوس ایندھن سے چلتا ہے۔ یہ میزائل انتہائی باریک بینی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سجیل میزائل ایک انتہائی تیز رفتار میزائل ہے۔ اس میزائل کی ایرانی مسلح افواج کے میزائل بیڑے میں شمولیت سے ایران کی دفاعی طاقت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ امریکی جریدے نیشنل انٹرسٹ نے 2017میں ایرانی میزائلوں سے ڈرنے کی وجہ؟ کے نام سے ایک مضمون میں سجیل میزائل کو ایرانی میزائل نظام میں اہم پیش رفت قرار دیا تھا اور خرم شہر میزائل کی رونمائی سے پہلے سجیل ایران کا پیش رفتہ ترین میزائل تھا جو ٹھوس ایندھن استعمال کرتے ہوئے 650کلو گرام وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سجیل ٹھوس ایندھن سے چلنے والے بیلسٹک میزائل سیریز کا پہلا میزائل ہے۔ دفاعی مبصرین کے مطابق ایران نے اس نوعیت کا میزائل بنا کر بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ سجیل 2، سجیل 1کی نسبت زیادہ تیز اور کم وقت میں فائر ہونے والا میزائل ہے۔ فوجی ماہرین سجیل بیلسٹک میزائل کو صیہونی حکومت کے خلاف جوابی کاروائی کے لئے ابتدائی آپشنز میں سے قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس میزائل نے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے کیونکہ ایران اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے درمیان 1300کلومیٹر کا فاصلہ سجیل میزائل 7سے 10منٹ کے مختصر ترین عرصہ میں طے کر سکتا ہے۔ صیہونی مبصر طال عنبر کا ماننا ہے کہ اگر ایران اسرائیل پر سجیل میزائل فائر کرے تو ٹھوس ایندھن اور تیز رفتاری کی وجہ سے اسرائیلی دفاعی نظام کے لئے اس میزائل کو شکار کرنا نہایت دشوار ہو گا۔ گو کہ اسرائیل کے پاس بیلسٹک میزائل کو تباہ کرنے والا جدید ترین نظام ایرو 3 ہے جو سجیل جیسے تیزرفتار ترین میزائل کو روکنے کی کم صلاحیت رکھتا ہے۔ سجیل میزائل تقریبا 13ماخ کی رفتار سے 2000کلومیٹر تک اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اگر کم وزن والا وار ہیڈ استعمال کرے تو یہ فاصلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سجیل کی لمبائی 18میٹر جب قطر 125سینٹی میٹر ہے جو مختلف زاویوں سے فائر کیا جا سکتا ہے۔ موبائل لانچر سے بھی سجیل کو فائر کیا جاسکتا ہے اور عمودی حالت یا گھومتے ہوئے بھی حرکت کرتا ہے۔ مبصرین کے مطابق سجیل شہاب 3کا پیشرفتہ ترین ورژن ہے۔ شہاب مائع ایندھن استعمال کرتا ہے۔ مائع ایندھن زیادہ دیر تک نہیں چلتا تاہم ٹھوس کئی سال تک باقی رہ سکتا ہے لہٰذا اس نوعیت کے میزائلوں کو ذخیرہ کرنا زیادہ آسان ہے۔ اس میزائل کی ڈیزائیننگ میں لانچنگ کے لئے جلدی آمادہ ہونا نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ سجیل میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ میزائل چند منٹ کے اندر لانچنگ کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے اور فائر کرنے کے بعد بھی اس کا انجن جلد وار ہیڈ سے جدا ہوتا ہے جس سے اس کے ناکام ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ تیز رفتاری کے ساتھ لانچنگ کی وجہ سے سجیل کے گرنے کا احتمال بہت کم ہوتا ہے۔ سجیل میزائل زمین کے مدار سے خارج ہونے کے بعد افقی حالت میں حرکت کرتا ہے اور ہدف کے برابر پہنچتے ہی زمین کے مدار میں داخل ہوتا ہے۔ نیز 13ماخ کی رفتار سے حرکت کرنے کی وجہ سے اس میزائل کو فضا میں تباہ کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ میزائل میں موجود پیچیدہ سسٹم کے باعث جدید ترین ریڈار بھی اس میزائل کا سراغ نہیں لگا سکتا۔ میزائل کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ امریکی دفاعی نظام پیٹریاٹ اور صیہونی نظام ایرو 3اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ایرانی میزائل ماہرین نے اس کا رنگ، باڈی اور ریڈار سے بچنے کا پیچیدہ نظام اس میں شامل کر کے میزائل کو منفرد بنا دیا ہے۔ جو کہ اس وقت اسرائیلی فوج پر بھاری پڑ گیا ہے۔
سی ایم رضوان

جواب دیں

Back to top button