پاپیادہ مسافر

پاپیادہ مسافر
تحریر: ڈاکٹر محمد صغیرخان (راولا کوٹ)
یہ ان بھلے وقتوں کی بات ہے جب آپ کا اور میرا راولاکوٹ ایک چھوٹا سا ’’ بازار نما‘‘ تھا۔ گنتی کی چند کچی پکی دکانیں، ناک کی سیدھ میں بنی مارکیٹیں، سادہ اور کم کم چلتا بیوپار، تھوڑے سے لوگ جن میں سے اکثر ایک دوسرے تو کیا سب کے کف قبیلے تک کو جانتے تھے۔ خالص ’’سردارانہ‘‘ مزاج و انداز، یہ محدود سی دنیا، تب بھی اپنے اندر ایک جہاں سموئے ہوئے ہوتی تھی۔ سیاست یہاں کے لوگوں میں ہی نہیں بلکہ زمین کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وقت کے لحاظ سے آگہی بھی وافر اور شعور بھی خاصا۔ اسی کارن نصف صدی۔۔۔۔۔۔ جی ہاں نصف صدی قبل جب مقبول بٹ شہید اور ان کے ساتھی اپنی آزادی و وقار کی سوچ لئے یہاں پہنچے تو ذرا بھی مایوسی نہ ہوئی۔ یہاں وہاں کے لوگ، ان کے پاس آتے ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔ انہی ابتدائی لوگوں میں وہ بھی شامل تھا۔ نیم ناٹا قد، لمبوترا سا چہرہ، گندم گوں رنگ، چھدرے سا بال جو تب سے اب تک اسی طرح اکڑے بگڑے ہیں جیسے تب تھے۔ چال میں ٹھہرائو، مزاج میں تلخی، گفتگو شیرینی و ترشی کا آمیزہ، حد سے پڑھا اعتماد جو کہیں کہیں خود پسندی کی حدوں سے جا ملتا تھا’’ جی ہاں ’’ بندہ‘‘ جب ’’ کھڑک‘‘ کا ہو تو مکمل ’’ لالہ‘‘ نہ بھی ہو، کھڑاک آمیز تو ہو گا ہی، انہی ساری بلکہ مزید کہی ان کہی خصوصیات کو لئے سموئے وہ لڑکپن میں مقبول بٹ شہید کے قافلے میں جا شامل ہوا۔ یہ ایک اعزاز تھا جو اس کے حصے میں آیا اور یہ بھی سچ ہے کہ آج نصف صدی بعد ہم اس کے آلے دوالے کے لوگ دیکھیں، سوچیں تو یہ دراصل ایک ’’ عذاب‘‘ بھی تھا، جو اس کے لئے چنا گیا اور ازاں بعد اُس سمیت ہم ساروں، سادوں مرادوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ویسے درست اندازہ نہیں کہ، وہ ہمارے حوالے ہوا یا ہم اس کے حوالے کر دئیے گئے، لیکن حوالگی کے باب میں وقت نے بہت کچھ اس کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ نظریہ، کردار، جدوجہد اور تحریک سبھی کچھ آج موجود سبھوں میں سے اس کے حصے میں نسبتاً زیادہ بلکہ بہت زیادہ آیا ہے۔ اس نے اس سب کو کتنا سنیتا، سنبھالا، یہ تو وہی جانتا ہے، لیکن اگر دور دور سے نظارہ کیا جائے اور Handle with careکے اُصول کے عین مطابق دیکھا بھالا جائے تو متذکرہ بالا ’’ حوالگی‘‘ میں وہ سبھوں سے کئی آگے رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس ابتدائی وقوعے بہت سے اور بھی ہوئے ہوں گے بلکہ یقینا تھے، لیکن میں قمر شریف اور شفاعت اکرم کو ہی زیادہ جانتا ہوں۔
قمر شریف، قمر تو تھے لیکن شریف ہرگز نہ تھے، لیکن یہ تب کی بات تھی۔ اب تو سب کچھ ہونے جاننے کے بعد وہ اتنے ’’ چپ چپیتے‘‘ سے ہو گئے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ میری ممانی ان سے کسی اور بات پر لڑیں بھڑیں نا بھی تو ان کے ’’ سم سوز‘‘ ہونے پر ضرور چیختی ہوں گی۔ رہی بات شفاعت کی تو وہ ابتداء سے ہی عجیب شخص تھا۔ ہمارے بچپن میں وہ ہمیں وہ ادق نظریات بناتا سناتا تھا جو اللہ کے خاص کرم کے باعث مجھ ایسے ’’ گوال گدرے‘‘ آج بھی نہیں سیکھ سمجھ سکتے۔ شفاعت نمبردار تھا اور نمبردار ہے، لیکن وہ اب بھی کسی اور جہاں کا باسی ہے۔
ہاں تو بات اس کی ہو رہی تھی، نظریہ، خودمختار کشمیر مقبول بٹ شہید اور انقلابی فکر سے اس کی شناسائی کا وافر سامان ’’ گھر‘‘ میں موجود تھا۔ اس کے عمزاد بڑے بھائی صدیق ایڈووکیٹ بھی یہ ’’ مال متاع‘‘ گھر میں سنبھالے رکھتے تو لالہ حمید جو لالہ تو تھے مگر روایتی جالا اور دوشالہ اوڑھنے والے نہیں بلکہ ان سے مختلف اور منفرد لالہ حمید، بے حد خوش مزاج، پکے مزاخی، ہنسوڑ مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے جو ربّ کی خاص عطا کے باعث اس کے بڑے بھائی، سرپرست اور سبھی کچھ تھے۔ گھر خاندان میں پھوٹتے ان نظریاتی سوتوں نے اسے بچپن سے ہی ذرا ’’ وکھرا‘‘ سا بنا ڈالا تھا۔ مزید نکھار یا بگاڑ اس وقت پیدا ہوا جب ہائی سکول راولاکوٹ کا طالبعلم ہوتے ہوئے مقبول بٹ شہید کی موجودگی میں اس قافلہ سخت جاں کا حصہ بنا جو کھنڈے تیشے سے نہر کھودنے کے کام تک تُلا جُتا ہوا تھا۔ اس کی ذات بات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’ تخم تاثیر‘ سے ہوتا ’ مجلس تاثیر‘ تک آیا اور وہاں سے ایک ایسا ’ مجلس ساز‘ بن گیا کہ مجلس محفل کے بجائے طوفان اژدھام اکٹھا کرنے پر تل بیٹھا۔
وہ سب کچھ ہے مگر ‘ اسم باسمیٰ‘ ہرگز نہیں کہ نام کا تو وہ صغیر ہے مگر کام کے لحاظ سے ’ کبیر‘ بلکہ اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ ویسے وہ ’ چیز‘ کیا ہے؟ یہ تو اسے خود بھی نہیں پتا اندازہ، مجھ ایسے دور درانڈے رہنے بسنے والوں کو کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ہے کیا؟
وہ سردار ہے، مگر سردار نہیں، البتہ ’ سردار‘ ضرور ہے۔ وہ صغیر ہے مگر وہ یہ بھی نہیں بلکہ ایک بھرا پورا کشمیر ہے۔ کہنے کو وہ ’ وکیل‘ ہے لیکن سچ میں وہ ’ وکیل‘ بھی نہیں۔ وہ ’ خاص‘ ہے لیکن اسے ملا دیکھا جائے تو وہ بہت عام ہے، تو کیا وہ واقعی ’ عام‘ ہے؟؟، نہیں نہیں وہ ہرگز ’ عام‘ نہیں۔ سیاسی زندگی اور حوالوں سے وہ بے حد اہم ہے لیکن ذاتی معاملے میں وہ عام اور اہم کے درمیان جھولتا ایک ’ پینڈولم‘ ہے۔ ایک ایسا پنڈولم جس سے کوئی تجربہ نہیں کیا جاسکتا۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سے ہوتا، پی این پی میں ذرا سی ’’ تھپکی‘‘ لیتا وہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تک آیا تو محنت بلکہ مشقت، غربت و عسرت، نظریاتی بالیدگی اور جدوجہد کے ’ پچاس سال‘ گزر گئے، پورے پچاس سال، پوری نصف صدی۔۔۔۔ذرا سوچئے، ایک غریب گھر کا ذمہ دار بندہ، جو سہولتوں نہیں بلکہ ضرورتوں سے بھی تہی ہو، پورے پچاس سال، دن رات دیکھے بغیر، آرام سختی سے لاتعلق پاپیادہ ایک مشکل راستے پر مسلسل چل رہا ہو، ایک ایسے راستے پر جہاں کوئی کہکشاں نہیں، تو کیا یہ کمال اور اعزاز نہیں؟، یہ حقیقت ہے وہ ہی نہیں اس جیسے لاتعداد دوسرے بھی انہی حالات اور کیفیات کا شکار، اسی راہ پر مدتوں سے چل رہے، سو سچ یہ ہے یہ سبھی انوکھے اچھوتے لوگ مختلف اور منفرد ہیں۔ہاں تو بات اس کی ہورہی تھی تو وہ وہ ہے جس کے لئے اس کے ذاتی اور نظریاتی دشمن بھی پلاتامل گواہی دیتے ہیںکہ وہ ہر حال میں اپنی جگہ ’ ڈٹا‘ رہا ہے۔ وہ واقعی ڈٹا رہا ہے۔ ’ ڈٹنا‘ اس کی فطرت ثانیہ ہے، وہ تو وہاں بھی ڈٹا رہتا ہے جہاں ڈٹے رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسا اس لئے ہے کہ وہ اپنے مزاج کا بندہ ہے۔ اس کے مزاج میں خوبیاں بھی ہیں اور یقینا خامیاں بھی ہوں گی کہ وہ فرشتہ نہیں انسان ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وقت، اس کی انتھک محنت اور حالات نے لوگوں کی اس سے توقعات کچھ ایسی لگا بڑھا دی ہیں کہ اس سے اس کے مزاج کے سوا، رہنمائی و کردار کا تقاضا کیا جا سکتا ہے اور شاید یہ حق بھی ہے، لیکن اس ’ عوامی‘ و قومی تقاضے پر کوئی تقاضا سامنے آ جائے تو اس کا کیا کہا جا سکتا ہے؟۔
شعوری طور پر پختہ، فکری لحاظ سے راسخ جدوجہد کے حوالے سے سراپا مشقت، مزاجاً تلخ شیریں سی قوس قزح لئے مسلسل محو سفر سردار صغیر ایک آوازہ بھی ہے اور استعارہ بھی۔ پتہ نہیں کیوں؟ استعارہ سے مجھے یاد آیا کہ میں اسے کہوں کہ وہ ’’ استخارہ‘‘ کرے اور وقت، تحریک، نظریے اور جدوجہد کو نئی جہت دے کہ وہ اس کی استطاعت بہرحال رکھتا ہے۔ ’’ استخارہ‘‘ پر شاید کوئی چونکے کہ وہ تو ترقی پسندانہ نظریات کا رکھوالا ہے۔ جی ہاں بالکل ایسا ہے، لیکن وہ دل کا وہ مومن ہے جس کی نماز اور دُعا میں انہماک و عاجزی مجھ ایسے کٹھور کی آنکھوں میں بھی نمی لے آتی ہے۔ اپنی ذاتی زندگی میں وہ ’ بے حد سادہ‘ سا بندہ ہے۔ ایسا سادہ جو چھوٹے سے کھوکھے پر ’ قہوے میں چینی کم‘ کا آوازہ لگاتا ہے اور یوں جانے کیوں خود بھی کڑکا قہوہ پیتا ہے اور ساتھ والوں کو بھی یہ زہر پینے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ خوش خوراک ہرگز نہیں بلکہ دیسی پردیسی کھانوں کی ’’ کاک ٹیل‘‘ بنا کر وہ کھاتا ہے۔ وہ ذاتی تعلق میں بے حد ’ رفیق القلب‘ ہے۔ جن باتوں پر لوگ بھاگ ہنستے ہیں وہ ان پر بھی رو دیتا ہے۔ سو اس سے مزاج انداز کے اختلاف کے باوجود دوری ممکن نہیں۔
ذرا سوچئے! نصف صدی ننگے پائوں، زخمی جثہ، لہولہان وجود، کرچی کرچی سوچیں لئے گرتا پڑتا مسلسل چلتا مسافر، تلخ نوا بھی ہو تو اسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟۔
وہ ایک ایسا مسافر ہے جس نے سامان زیست پایا ہی نہیں کہ کھوتا۔ وہ لیرلیر دامن لئے آغاز سے جیسے چلا تھا۔ اب تک اسی انداز میں محو سفر ہے۔ اس سفر میں بہت کچھ ایسا ہوا ہو گا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہوا ہو گا جو بہت ضروری تھا۔ سو فائدے خسارے کی بحث کو ایک جانب رکھ کر، مشقتوں بھرے سفر اور پاپیادہ مسافر کی ستائش اور اس کے لئے دلی دُعا اس کا حق ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے محسوس کرنا چاہیے کہ وہ ’ صغیر‘ ہے لیکن اب ’ صغیر‘ نہیں ہے اسے وہ توقیر ملی ہے کہ وہ ابن کشمیر سے ہوتا ایک پورا ’ کشمیر‘ بن چلا ہے، لہٰذا اسے ضرور اپنے آپ کو اپنے سفر کو اور جواز سفر کو دیکھنا جانچنا چاہیے کہ یہ منصب اسے وقت نے دیا ہے اور وقت کی آواز نہ سننا کوئی صائب عمل نہیں۔ لیکن یاد رہے کہ بے حد مشکل حالات میں مسلسل جادہ پیمائی ایک قابل لحاظ امر ہے اور ہنر بھی جسے تاریخ ہر حال میں سراہتی ہے۔ راولاکوٹ بازار میں اظہر کیانی و جنت سے مخول کرتا خلیل و تصدق سے ٹپے مارتا یہاں وہاں بحثیں کرتا جاوید کی ہمراہی میں چلتا موقع بے موقع کڑھتا جلتا مفلسی کی ردا اوڑھے مخلصی کا عصا تھامے مسلسل محو سفر کردار کا دھنی سردار صغیر ہمارا وہ اثاثہ ہے جس کا احساس ہماری ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری اساس کی ابتدا ہے۔ سردار صغیر اور اس جیسے سبھوں سے کلی جزوی اختلاف کے باوجود ان کو سوچنا۔۔۔ جی ہاں سوچنا نوچنا نہیں۔۔۔ ایک بر محل عمل ہوگا کہ یہ لوگ پا پیادہ ہمارے لیے مدتوں سے چلتے مصائب جھیلتے آ رہے ہیں ۔۔۔۔ اور شاید سردار صغیر تادم واپسیں یہی کرتا رہے گا کہ وہ وکھرے مزاج کا بندہ ہے جو اپنی سوچوں و آدرشوں سے بندھا ہوا ہے۔ نصف صدی ایک ہی مدار و معیار میں چلنے والا سردار صغیر ۔۔۔۔۔۔۔ صغیر۔۔۔ نہیں ہے۔۔ کاش یہ حقیقت وہ خود بھی جان پائے اور ہم بھی سمجھ سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈ اکٹر محمد صغیر خان