محمد مبشر انوار

کھسیانی بلی کھمبا نوچے
محمد مبشر انوار
پاک بھارت حالیہ کشیدگی ،گو کہ پاکستانی ائیرفورس کی واضح برتری پر ختم ہوئی،جس کا اعتراف ساری دنیا نے کیا ہے ،ٹرمپ کی جانب سے آخری لمحات کہ جن کے بعد معاملات انتہا تک پہنچنے کا قوی امکان تھا،میں جنگ بندی کروائے جانے کے باوجود،تاحال حالات پرسکون نہیں اور نہ ہی بھارتی اقدامات سے ان کا اشارہ مل رہا ہے۔ بھارت ایک طرف پاکستان کا پانی ،غیر اخلاقی و غیر قانونی روکنے کے درپے ہے تو دوسری طرف ہنوز بھارتی جنگی جنون ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور شنید ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے ،بھارتی مسلح افواج کو ہنگامی طور پر چالیس ہزار کروڑ کے ہتھیار خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں! یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ امریکی کارگو طیاروں کی بھی بڑی نقل و حرکت بھارتی فضائی ٹھکانوں پر دیکھی گئی ہے،اگر یہ خبریں مبنی بر حقیقت ہیں تو کسی بھی غلط فہمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ایک طرف امریکی انتظامیہ نے حالیہ کشیدگی پر پاکستان اور پاکستانیوں کی شان میں زمین آسمان ایک کئے ہیں تو دوسری طرف منافقانہ طرز عمل دکھاتے ہوئے،بھارت کو مزید مضبوط بنارہی ہے۔ اس امریکی طرز عمل سے خطے میں امن کی کوششیں نہ صرف بری طرح متاثر ہوں گی بلکہ اس خطے میںجنگ کے بھڑکنے والے شعلے،امن عالم کو اپنے حصار میں لے لیں گے،یا تو امریکہ کا مطمع نظر ہی یہی ہے کہ وہ اس خطے میں رہنے والوں کے لئے ایسی آگ دہکا کر نہ صرف پاک و ہند بلکہ اپنے دیرینہ حریف روس او ر موجودہ حریف چین کو بھی عالمی منظر نامے میں پیچھے دھکیل دے۔بہرکیف ایسی صورت اس وقت بپا ہوگی جب پاک و ہند کے درمیان معاملات کسی بھی طور سلجھنے کی بجائے مزید بڑھ جائیں،تلخی اس قدر بڑھ جائے کہ پاکستان کو اپنی بقاء کی خاطر ،روایتی جنگ سے ہٹ کر غیر روایتی جنگ اختیار کرنی پڑے،جو تقابلی حالات میں بہت حد تک ممکن بھی ہے کہ اس سے عزت کی موت ہی نصیب ہو گی،یہ وہ سوچ ہے جو پاکستانی جنگ کے حوالے سے رکھتے ہیں،تاہم موقع پر کیا صورتحال ہو گی،اس کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہی ہے۔ حالیہ کشیدگی میں ،بھارتی وزیر خارجہ کے بیان سے قبل تک تو معاملات ساری دنیا میں ایسے ہی دیکھے جا رہے تھے کہ پاکستان نے انتہائی بہادری و جرآت سے اپنے دشمن کا وار نہ صرف روکا بلکہ اسے دندان شکن جواب بھی دیاکہ بھارتی ابھی تک تلملا رہے ہیں اور ان کے لئے یہ ہزیمت برداشت کرنا ممکن نہیں ہو رہا۔ جس طرح کا رویہ بھارت نے پہلگام واقعہ کے بعد اپنا رکھا تھا اور جیسے دعوے بھارتی حکمران کررہے تھے،ان میں ناکامی کو ہضم کرنا کاروارد ہے،کہ بھارت اپنے تئیں ،اس سارے معاملے میں،خود کو خطے کی ایسی طاقت سمجھ رہا تھا کہ وہ کسی بھی پڑوسی کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرلے،اسے جواب نہیں ملے گا اور اس طرح وہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر اپنی اس حیثیت کو مستحکم بنا سکتا تھا۔
کشیدگی کے ابتدائی دنوں میں دیکھیں تو بظاہر ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان واقعتا دبائو کا شکار ہے اور کسی بھی صورت بھارت کے ساتھ،کسی بھی میدان میں پنجہ آزمائی نہیں کرنا چاہتا،خواہ میڈیا کا میدان ہویا سفارتی میدان ہو یا میدان جنگ ،پاکستان نے انتہائی صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور جواب دینے سے گریز کیا ۔ دوسری طرف بھارتی رویہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جارحانہ ہوتا گیا اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بجائے بھارت نے دباؤ مسلسل بڑھانے کی پالیسی اپنائے رکھی،جو اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ درحقیقت بھارت اول روز سے ہی اپنے منصوبہ میں واضح تھا تاہم اس عرصہ میں وہ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرتا رہا۔ گو کہ بھارت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عالمی رائے عامہ کو ہموار نہیں کر سکا اور دنیا اسے صبرو تحمل کی تلقین کرتی رہی تاہم پس پردہ ممکنہ طور پر اس کی رائے/سوچ پر اس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی بھی کراتی رہی کہ اس کے بغیر بھارت اتنا بڑا قدم اٹھانے کی غلطی نہ کرتا۔ اس حقیقت سے تقریبا ساری دنیا واقف ہے کہ جب سے اسرائیل نے ،غزہ میں ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں، اسرائیل کے یارغار بھارت کے سر میں بھی یہی خناس سمایا دکھائی دیتا ہے کہ وہ بھی کسی بہانے مسلمانوں کا خون بہانے سے گریز نہ کرے،خواہ وہ خون بھارت کے اندر ہو یا باہر۔ اسی طرح بھارت اقلیتوں کے حقوق کی پامالی میں کسی بھی حد سے گذرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہا کہ اسے بخوبی علم ہے کہ دنیا اس وقت دوسرے مسئلوں میں بری طرح الجھی ہوئی ہے لہذا عالمی قوانین کی خلاق ورزی کرنے کا اس سے بہتر وقت ہو ہی نہیں سکتا اور اسی اعتماد کے بھروسے بھارت،بھارت کو ایک انتہا پسند ملک بنانے پر تلا ہے ۔ ہندوستان کو صرف ہندو دیش بنانے کے علاوہ،اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب سے بی جے پی کے انتہاپسندحکمران کبھی بھی نہیں نکلے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو کسی سے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے لیکن کیا وہ اکھنڈ بھارت یا ہندوستان صرف ہندوؤں کے لئے ،کے عزم میں کامیاب ہو پائیں گے؟
ایک طرف بھارتی حکمرانوں کے یہ عزائم ہیں اور دوسری طرف دس مئی سے قبل تک کے حالات ایسے تھے کہ پاکستان ،بھارتی حملوں کے بعد سے خاموش تھا اور یکطرفہ طور پر اس کوشش میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح معاملات یہاں رک جائیں۔ معاملات کو یہیں تک روکنے کے لئے ،پاکستان کے اہم ترین،ن لیگ کے وفاقی وزرائ، کے بیانات تک میڈیا کی زینت بنے ،یعنی اگر بھارت مزید کوئی کارروائی نہیں کرتا تو پاکستان بھی جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔ ایک طرح سے ایسے بیانات کا مقصد واضح طور پر بھارت کی بالا دستی کو تسلیم کرنا تھا ،اسے یہ حق فراہم کرنا تھا کہ اگر خدانخواستہ مستقبل میں بھی بھارت اپنے ملک میں پہلگام جیسا کوئی فالس فلیگ آپریشن کرتا ہے،اس کاا لزام پاکستان پر دھرتا ہے، ’’ گرم تعاقب‘‘ کا حق استعمال کرتے ہوئے،پاکستان کی سرحدوں کی پامالی کرتا ہے،تو پاکستان خاموش رہے گا۔تاہم بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹاکے مصداق،بھارت اپنی جنگی طاقت کے زعم اور عالمی برادری کی خاموش حمایت میں ،اپنی حد سے بہت زیادہ بڑھ گیا کہ اسے جواب دینا پاکستان کی مجبوری بن گیا،دس مئی کی صبح جو جواب بھارت کو دیا گیا وہ یقینی طور پر بھارت کو مدتوں یاد رہنے والا ہے تاآنکہ بھارت اگلے چند ہفتوں تک اس کا ازالہ نہیں کر لیتا،جس کے امکانات بہرکیف بھارتی تیاریوں کے پس منظر میں،دکھائی دے رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے،غالبا چھ/سات روزبعد ایک ایسا بیان دیا،جس نے اس ساری کشیدگی کو ایک نورا کشتی ثابت کرنے کی کوشش ہے،جے شنکر کے مطابق بھارت نے میزائل داغنے سے قبل ہی پاکستان کو نہ صرف اس سے مطلع کیا تھا بلکہ ٹارگٹس کی نشاندہی بھی کر دی تھی۔ اگر اس بیان کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نورا کشتی کا مقصد ،سوائے عوام کو بیوقوف بنانے اور فریقین کے اپنی عوام میں گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالا دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھالیکن اس نورا کشتی میں ایسی صورتحال تو ممکن ہی نہ تھی کہ فریقین اپنی اپنی مقبولیت کو بیک وقت یقینی بنا سکتے،لہذا اس بیان کی حقیقت یہی دم توڑ دیتی ہے۔ جبکہ دس مئی سے قبل تک پاکستان کا ردعمل دیکھا جائے تو اس بیان کی صداقت پر یقین کرنے کو دل کرتا ہے کہ پاکستان نے دس مئی کی صبح تک کوئی بھی جوابی کارروائی کیوں نہیں کی؟کرکٹ کے میدانوں کی طرح،میدان حرب میں بھی کیا بھارت کو جتوانے کا ارادہ تھا اور کیا بھارتی خواہشات کی تکمیل میں ہم میدان جنگ میں بھی ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے؟کیا بھارت نے واقعی طے شدہ امور سے دوقدم آگے جاتے ہوئے ،جنگی کارروائی کی،جس کا جواب دینا پاکستان کی مجبوری بن گیا؟یا یہ واقعتا پاکستان کی جنگی حکمت عملی تھی کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو ابھی بھی دنیا پر عیاں کرنے کے لئے تیار نہ تھا اور کسی مناسب موقع کے انتظار میں تھا؟یا نو/دس مئی کی درمیانی شب وہ آخری حد تھی جسے بھارت نے عبور کرکے پاکستان کو جواب دینے پر مجبور کردیا اور اپنے ہتھیاروں کو دنیا کے سامنے آشکار کردیا؟زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ پاکستان نے واقعتا دس مئی تک صبروتحمل کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح نہ صرف معاملات یہیں تک رک جائیں،سلجھ جائیں اور پاکستان کو جوابی کارروائی نہ کرنی پڑے تاہم بھارتی عاقبت نااندیشی کے باعث،پاکستان کو جوابی کارروائی کرنا پڑی۔آج بھارت ساری دنیا میں اپنی جگ ہنسائی کرواکر،ذلت آمیز شکست کھا کربلکہ اپنے حلیفوں کے لئے باعث ندامت بن کر،اگر یہ بیان دے رہا ہے کہ بھارت نے جنگ سے قبل پاکستان کو مطلع کیا تھا،تو بھارت نے اپنی خوداعتمادی،عسکری برتری کا بھانڈا خودبیچ بازار پھوڑکر اپنے ماتھے پر کلنک کا ایک اورٹیکہ سجایا ہے کہ ایسی کون سی جنگ ہے جو دشمن کو مطلع کرکے کی جاتی ہے؟ایسی بات تو جنگ کے بعد، خواہ جیتی جائے یا ہاری جائے، کسی صورت نہیں کی جاتی کہ اس قسم کی بات کرنا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔