پانی اور نئی نہریں

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
کرہ ارض پر زندگی برقرار رکھنے کے لئے روشنی، ہوا اور پانی لازمی ہیں، جن کے بغیر کرہ ارض پر زندگی ممکن ہی نہیں، جبکہ پانی کی اہمیت کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے، جو زندگی کے لئے ازحد ضروری ہے۔ اس کے باوجود نبی آخرالزماں ؐ کی پانی کے متعلق انتہائی واضح ہدایات ہیں کہ پانی کا استعمال انتہائی احتیاط کے ساتھ کرو، وضو جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے بھی ،پانی کو بلاوجہ ضائع نہ کروبلکہ دریا کے پانی سے بھی وضو کرتے ہوئے ،محتاط رہنے کی ہدایات بلکہ احکام ہیں۔ حتی کہ ماضی میں جنگی منصوبہ بندی کرتے وقت یا میدان جنگ منتخب کرتے وقت اس امر کا بطور خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ فوج کے لئے ہمہ وقت پانی کی دستیابی یقینی ہو،اور چشموں یا کنوئوںپر قبضہ قبل ازوقت ممکن بنایا جاتا تھا ،دریا کا پاٹ محفوظ کیا جاتا تھا تا کہ افواج کو پانی کی تنگی محسوس نہ ہو۔اسی طرح دورحاضر میں ،ترقی یافتہ ممالک ،کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ پانی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے تا کہ اس سے ضروریات زندگی کو پورے سال بلاتعطل نہ صرف عوام الناس کی ضروریات کو پورا کیا جائے بلکہ اس کے دیگر استعمال میں بھی خود کفیل رہا جا سکے۔ لمحہ موجود میں سب سے اہم افادیت کہ اس سے انتہائی سستی ترین بجلی/توانائی کا حصول ممکن بنایا جائے،جو صنعتی پہیہ کو متحرک رکھے تو دوسری طرف اس سارا سال کاشتکاری کے لئے استعمال کیا جا سکے ۔ ان دو بنیادی مقاصد کے لئے ،وسائل سے بھرپور ریاستوں نے بڑے بڑے آبی ذخائر بنا کر ،پانی کو محفوظ کر رکھا ہے تا کہ وہ ہمہ و قت اس پانی سے مستفید ہو سکیں اور اپنی عوام کے لئے اس کی دستیابی کو ممکن بنا سکیں۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے ،پانی بنیادی ضرورت ہے تا کہ اس کی زرخیز زمینیں ہر موسم میں لہلاتی رہیں،کاشتکاروں کو وافر پانی میسر ہو اور وہ زمین کا سینہ چیر کر اس سے اجناس حاصل کرتے رہیں،لیکن صد افسوس کہ
پاکستان میں پانی کی روانی اپنے ابتدائی کے برعکس انتہائی کم ہوچکی ہے اور یہاں کا نہ صرف کاشتکار بلکہ عوام الناس دن بدن،پانی کی کمیابی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بالخصوص پنجاب،جسے ’’ پنج آب ‘‘ ان پانچ دریائوں کی وجہ سے ہی کہا جاتا تھا،یہاںبہنے والے دریائوں میں کبھی ٹھاٹھیں مارتا پانی ہوتا تھا ،اورعوام ان دریائوں کے کنارے بیٹھ کر نہ صرف لطف اندوز ہوتے تھے بلکہ میٹھے پانیوں سے مچھلی کا شکار بھی کیا جاتا تھا ،آج ان دریائوں کا پانی ،ہندوستان سندھ طاس معاہدے کے تحت،مقبوضہ کشمیر میں ہی محفوظ کر چکا ہے۔گو کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق،ہندوستان صرف اپنے دریائوں کا پانی ہی محفوظ کر سکتا تھا لیکن مخصوص مدت گزرنے کے بعد،اور پاکستان کی اس حوالے سی مجرمانہ غفلت،کیا آمر اور کیا سول حکمران،ہندوستان کو یہ حق حاصل ہو چکا کہ وہ پانی کے زیاں کو روکنے کا حقدار ٹھہر چکاتاہم کسی بھی دریا کا رخ موڑنے کا اختیار بہرطور بھارت کو نہیں لیکن بدقسمتی سے دھونس یا بدمعاشی جو بھی کہیں، بھارت ،غالبا دریائے نیلم پر کثیر سرمایہ خرچ کرکے اس کا رخ موڑ چکا ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں تقریبا تین سو،ذرائع ابلاغ کے مطابق،چھوٹے بڑے آبی ذخائر تعمیر کر چکا ہے اور ان دریائوں کا بیشتر پانی اپنے قبضہ میں لے چکا ہے،جس کا ثمر ایک طرف وہ انتہائی سستی بجلی کی صورت وصول کر رہا ہے تو دوسری طرف اس کی زمینوں سے اگلنے والے سونے کی صورت ہے کہ مشرقی پنجاب کا کاشتکار بھارت کی غذائی ضرورت کا نصف یا اس سے بھی زیادہ پورا کررہا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1993کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں غلام مصطفیٰ کھر کو وزیر پانی و بجلی بنایا گیا تو انہوں نے آبی ذخائر کی اہمیت و افادیت پر زور دیتے ہوئے بیان دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی آبی ضروریات پورا کرنے کے لئے فوری ذخائر تعمیر کرنے ہونگے بصورت دیگر پاکستان کے لئے شدید آبی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ گو کہ پاکستان نے اپنے ابتدائی ایام میں ہی دو بڑے آبی ذخائر تعمیر کر لئے لیکن بعد ازاں،اس معاملے کو جیسے بندشوں نے جکڑ لیا اور پاکستان مزید کوئی بڑا ذخیرہ تعمیر نہ کر سکا،تسلیم کہ اس میں شفاف طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا،متاثرین کو حقوق بہم نہیں پہنچے تو اس میں قصورواروں کو سزائیں ملنی چاہئے ،جو آج تک نہیں ملی بلکہ انہیں اعزازات سے ہی نوازا گیا ہے۔ اسی دور میں توانائی/بجلی کی قلت کو پورا کرنے کے لئے،نجی بجلی گھروں کے منصوبوں نے ،اشرافیہ کے لئے جیسے سونے کی کان کا راستہ کھول دیا اور آبی ذخائر سے اشرافیہ مکمل طور پر دستبردار ہو گئی،جس سے ایک طرف عوام کے لئے مہنگی بجلی بننا شروع ہوئی تو دوسری طرف کاشتکار کے لئے پانی دن بدن ناپید ہوتا گیا۔ کاشتکار کے لئے مزید مشکل یہ ہوئی کہ پیٹر انجن یا ٹیوب ویل چلانے کے لئے بھی اسے مہنگی بجلی خریدنا پڑی ،لوڈ شیڈنگ کا عذاب الگ اور ڈیزل کی قیمت بھی دن بدن مہنگی اور کاشتکار کی پہنچ سے دور ہوتی گئی،نتیجہ یہ نکلا کہ کاشتکاری نہ صرف مہنگی ہوتی گئی بلکہ اس سے کاشتکار کی شرح منافع بھی کم ہوتی گئی۔بڑے گھروں اور فارم ہاؤسز کے شوق نمائش سے شہروں سے متصل لہلاتے کھیتوں کو ہڑپ لیا تو بلڈرز نے سوسائٹیز کی آڑ میں سونا اگلتی زمینوں کو ریت،سیمنٹ سریہ سے ڈھانپ لیا،پھلوں کے باغوں اور گندم کے خوشوں سے لہلاتے کھیتوں کی جگہ رہائشی کالونیوں نے لے لی اور ملک سے زراعت و کھیتی سمٹ گئی۔حکمرانوں کی بے حسی کہیں یا ان کی ہوس و لالچ کہ سرسبز کھیتیوں کی بجائے، انہیں رہائشی کالونیوں میں بننے والے پلاٹس سے راتوں رات ملنے والی کمائی ،زیادہ عزیز ہوئی،اپنے سیاسی کارکنان کو بھی کھلی چھٹی دی کہ جس کا جہاں زور چلے،رہائشی کالونیاں بنا کر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹے۔ کئی ایک رہائشی کالونیوں کے مالکان نے ابتداء میں دھوکہ دہی اور فراڈ سے بھی عوام سے دولت لوٹی لیکن بعد ازاں شرح منافع دیکھتے ہوئے،صنعتکاروں نے بھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا مناسب سمجھا۔
بہرکیف برسبیل تذکرہ،ان حالات کا بھی ذکر ہو گیا جو بہرطور موجودہ صورتحال کے ایک عنصر کے طورپر غیر متعلق بھی نہیں۔1993ء سے ہی یہ سنتے آئے ہیں کہ زیر زمین پانی کی سطح گرتی جارہی ہے اور میٹھے پانی کا حصول دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے،جس سے ایک طرف کاشتکاری ممکن نہیں ہو رہی تو دوسری طرف زمین بھی اپنی زرخیزی کھو رہی ہے۔ بہرکیف مزیدآبی ذخائر نہ بننے میں ایک طرف تو اشرافیہ و ریاستی مشینری کا نااہلی کا عمل دخل ہے تو دوسری طرف وفاقی اکائیوں کے تحفظات اپنی جگہ ہیں کہ وہ وفاقی اکائیاں نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر متفق نہیں ہو رہی۔ متفق نہ ہونے میںاہم ترین عنصر،پانی کی تقسیم ہے کہ اکائیوں کو وفاق پر اعتبار نہیں اور اکائیاں سمجھتی ہیں کہ ان آبی ذخائر کی تعمیر سے ’’ پنجاب‘‘ ان کی حق تلفی کرے گا تو دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس ناچاقی کے باعث ماضی کے بنے ہوئے ذخائر کی نہ صرف میعاد ختم ہو رہی ہے بلکہ ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد بھی کم ہو رہی ہے۔یوں اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے پاس پانی کی مقدار ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے اور جب تک مزید آبی ذخائر نہیں بنتے ،تب تک میسر پانی مزید کم ہوتا جائیگا اور اکائیوں کے لئے پانی کا حصول مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گالیکن اس کے باوجود سیاسی قیادتیں اس حقیقت سے نظریں چرائے،اپنے عوام کو قائل کرنے کی بجائے،حالات کے دھارے کے ساتھ مقبول بیانئے کی سیاست کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعا مشکل نہیں کہ اس وقت قومی سطح کی سیاسی قیادت ناپید ہے،جو مستقبل قریب کے مسائل کو سمجھتے ہوئے،عوام الناس کے تحفظات دور کرکے،دوررس نتائج کے فیصلے کرکے پاکستان کا مستقبل بچا لے۔ کھربوں ڈالر کا پانی،تقریبا ہر سال ،آبی ذخائر کی عدم موجودگی میں ،املاک کے ساتھ ساتھ کھڑی فصلوں کو برباد کرتے ہوئے ،سمندر میں جاگرتا ہے لیکن سیاسی جماعتیں،چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کی خاطر دوررس نتائج کے حامل فیصلے کرنے سے قاصر ہیں،جو ان سیاسی جماعتوں کی سیاسی بصیرت و اہلیت پر سوالیہ نشان ہیں؟سیاسی جماعت کے شریک قائد بطور صدر چولستان کی ریتلی زمینوں کی آباد کاری کے لئے ،نئی نہروں کی منظوری دیتے ہیں،واللہ اعلم پس منظر میں کس مفاد کے تحت یہ منظوری دی گئی،لیکن آج ان کی سیاسی جماعت سندھ میں ان نہروں کے خلاف احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہے،نقطہ نظر میں اس قدر تضاد یا وعدے وعید پورے نہ ہونے کا خدشہ کہ سیاسی کارکنان کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا؟بہرکیف حقیقت یہی ہے کہ جب تک پاکستان کے پاس آبی ذخائر نہیں ہوں گے،پانی کی قلت مزید بڑھتی جائیگی،ترجیحات کا رونا کیا رویا جائے کہ اب لکیر پیٹنے کے مترادف ہے کہ جب وقت تھا کہ سرسبز کھیتوں کی موجودگی میں،نہ صرف ان کو بچایا جاتا،رہائش کے حوالے سے دور رس پالیسی مرتب کی جاتی،بروقت نئے آبی ذخائر تعمیر کر کے وافر پانی کو یقینی بنایا جاتاتاکہ ریتلی و بنجر زمینوں کوساتھ ساتھ آبادکیا جاتا،تب مجرمانہ غفلت برتی گئی اور آج جب پانی آباد زمینوں کے لئے دستیاب نہیں،چولستان کے لئے نئی نہروں کی منظوری کے متعلق بات کرتے پر جلتے ہیں۔