کینال معاملے پر کوئی کنفیوژن نہیں !

تحریر : شاہد ندیم احمد
پاکستان میں ایک طرف پا نی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں تو دوسری جانب نہروں کے پا نی کی تقسیم پر تنازعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ایک طرف پیپلز پارٹی دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالے جانے کے معاملے پر مسلسل تحفظات کا اظہار کر رہی ہے تو دوسری جانب چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت متنازعہ نہری منصوبہ ختم کرنے کا اعلان نہیں کرتی ہے تو ہم حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں گے، وزیراعظم شہباز شریف اور سربراہ مسلم لیگ ( ن ) میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کو معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ہدایت کی ہے، اس کی روشنی میں رانا ثنااللہ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت اور مشاورت ہی معاملے کا حل ہے ، لیکن کیا یہ معاملہ کچھ لے دے کر حل ہو پائے گا َ؟ اس بارے قبل از وقت کچھ کہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
اس ملک کی رویت رہی ہے کہ یہاں پر بند کمروں میں منصوبے بنتے ہیں اور بند کمروں میں ہی منظور ہوکر چل پڑتے ہیں ، اس پر کم ہی آواز اُٹھائی جاتی ہے ، لیکن اگر آواز اُٹھ بھی جائے تو دبا دی جاتی ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، ایک طرف نہری منصوبے پر آواز اُٹھائی جارہی ہے تو دوسری جانب مذاکرات کے نام پر آواز دبائی جارہی ہے، یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوا ہے اور ملی بھگت سے ہی حل کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ، حکومت نے سندھ حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے ، رانا ثنا اللہ کا شرجیل انعام میمن سے رابطہ اس بات کا غماز ہے کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتی ہے ،یہ مذاکرات نہ صرف پانی کے مسئلے کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، بلکہ بین الصوبائی اعتماد کی بحالی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ صرف تکنیکی نہیں ہے بلکہ سیاسی بن چکا ہے، صوبوں کے درمیان اعتماد کی فضا کا فقدان اکثر اوقات تکنیکی معاملات کو بھی سیاست کی نذر کر دیتا ہے ،بہرحال نہری پانی کی تقسیم ایک حساس اور اہم قومی معاملہ ہے، اس پر سیاست سے بالاتر ہو کر سنجیدہ مکالمہ ہونا چاہیے، حکومت کی جانب سے مذاکرات کا عندیہ ایک مثبت پیشرفت ہے ،اگر یہ عمل خلوص نیت سے جاری رہتا ہے تو نہ صرف موجودہ کشیدگی کم ہو سکتی ہے، بلکہ مستقبل میں بھی ایسی شکایات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے ، جو کہ تنازعات کا باعث بن سکتی ہیں، اس وقت پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں ہے، بلکہ قومی اتحاد، زرعی خود کفالت اور اقتصادی خوشحالی کا ضامن ہے، اگر اسکے منصفانہ اور شفاف استعمال کو یقینی بنا یا جاسکے تو پاکستان پائیدار اور خوشحال مستقبل کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
اس نازک موقع پر ملک کسی آبی تنازعات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے، کیو نکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پہلے ہی دہشت گردی اور بدامنی سے دوچار ہیں، اس دوران سندھ اور پنجاب میں پانی کا تنازع سماجی استحکام کے حصول کو بہت پیچیدہ کر سکتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھا جائے اور سندھ حکو مت کے ساتھ نہ صرف دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، بلکہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بھی جلد از جلد بلایا جائے، تاکہ عوامی نمائندوں کو اپنے حلقوں کے خدشات کے اظہار کا منصفانہ موقع دیا جا سکے، سیاسی حلقوں کو بھی آبی مسائل پر سیاست کے بجائے درپیش حقائق کا ادراک کرنا چاہیے، سیاسی قیادت کو چاہیے کہ پانی کے مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور کسی متفقہ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ، اگر نہری منصوبہ قومی مفاد میں ہے تو اسے سیاست کی نظر کر نے کے بجائے گرین پاکستان کیلئے ضرور بنانا چاہئے۔
پاکستان کا نام دنیا کے بہترین نہری نظام کے حامل ممالک میں سرفہرست آتا ہے، لیکن اہل قیادت کی عدم توجہی کے باعث زرعی شعبہ جدید ٹیکنالوجی سے محروم ہے اور رہی سہی کسر موسمی تغیرات اور پانی کی کمی نے پوری کردی ہے، اس ملک کے مفاد کا معاملہ کسی طور مصلحتوں کی نذر نہیں ہونا چاہئے اور اس کا حل باہمی بات چیت میں ہی تلاش کیا جانا چاہئے، لیکن ہمارے ہاں مل بیٹھنے، سر جوڑنے یا موسمی اثرات کے تمام حقائق سامنے رکھ کر بات کرنے کی روایت دھول بن کر اڑ چکی ہے، فصلی بٹیروں کی سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ مجمعوں میں آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے کو للکاریں اور ہر حل طلب مسئلے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیں، سندھ نہری منصوبے پر کنفیوژن بڑھ رہی ہے، جبکہ اب تو وہ دریا ہی نہیں رہے ہیں، جو کہ پہلے بہتے تھے اور جو ایک دو بہہ رہے ہیں، انہوں نے بھی ایک دن ان باہمی جھگڑوں کے ہی نظر ہو جانا ہے، اب تو بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ جو بہہ رہے ہیں، وہی سدا بہتے رہیں اور ان پر نہری منصوبے بغیر کسی کنفیوژن چلتے رہیں۔