
تحریر : سی ایم رضوان
عالمی استعماری طاقتوں کی گرمیوں کے موجودہ موسم میں جنوبی ایشیا میں مختلف عسکری و دہشت گردانہ ترجیحات بڑھ گئی ہیں اور پاکستان کی علاقائی اور معدنی اہمیت کے پیش نظر یہاں وسیع تر بدامنی حتیٰ کہ جنگ تک کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ اسی تناظر میں ان دنوں ملک میں دہشت گردی کی غرض سے علیحدگی پسندی اور مختلف منصوبوں کی مخالفت کی آڑ میں خوفناک احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مقام شکر کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز اور ان کی انٹیلی جنس فورسز مکمل طور پر مستعد اور ہر چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ اور تدارک کرنے پر تیار ہیں۔ اسی تناظر میں پچھلے ماہ جاری ہونے والے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی تفصیلات غور طلب ہیں جن کے مطابق دہشت گردی میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آیا ہے اور سال 2024ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں 45فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں 52فیصد کی ذمے دار ٹی ٹی پی ہے۔ بلوچ عسکری تنظیموں نے 2024ء کے دوران 504حملے کیے جن میں 388ہلاکتیں ہوئیں۔2024ء کے دوران داعش اور اس سے منسلک گروہوں نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ حملوں اور ان میں ہلاکتوں کی ذمے دار کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) ہے۔ دہشت گردی کے چیلنجز کے اعتبار سے 163ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان چوتھے سے دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ انڈیکس کے مطابق دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہونے والا ملک برکینا فاسو ہے جس کے بعد پاکستان اور شام بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہ انڈیکس آسٹریلیا میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس ( آئی ای پی) تیار کرتا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 2024ء کے دوران دہشت گردی کے مجموعی طور پر 1099 حملے ہوئے جن میں 1081افراد ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں 2023ء کے مقابلے میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی 2024ء کے دوران پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں سے 52 فیصد کی ذمے دار ہے۔ پاکستان میں 2024ء کے دوران صرف ٹی ٹی پی نے 482 سے زائد حملے کیے ہیں جن میں 558افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم پاکستان میں2024ء کے دوران سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملہ بلوچ علیحدگی پسند عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے کیا۔ نومبر 2024ء میں کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر بی ایل اے کے حملے میں کم از کم 25ہلاکتیں ہوئی تھیں جن میں شہری اور فوجی اہلکار شامل تھے۔ بی ایل اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف) نے پاکستان میں جاری عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔ 2023میں ان گروپس نے 116چھوٹی بڑی کارروائیاں کی تھیں جن میں مجموعی طور پر 88ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ تاہم 2024ء میں بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے 504حملے کیے ہیں اور ان میں ہلاکتیں چار گنا بڑھ کر 388ہوگئیں۔
دہشت گردی سے متعلق دیگر جائزوں میں یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ جی ٹی آئی کے مطابق 2021ء کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ جی ٹی آئی کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی میں ہونے والے حالیہ اضافے کی بڑی وجہ تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کی سرگرمیاں ہیں جو افغان طالبان کی اتحادی تنظیم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں سے درپیش دہرے خطرات کے باعث پاکستان کو 2024ء میں پیش آنے والے ہمہ جہت سکیورٹی چیلنجز کی نشان دہی ہوتی ہے جنہیں حل کرنے کے لئی فوجی، سیاسی، سماجی و اقتصادی شعبوں میں اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی رینکنگ خراب ہونے کی ایک وجہ گورننس کے مسائل تو ہیں ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عراق اور شام جیسے ممالک نے ٹرانزیشن فیز ہونے کے باوجود 75فیصد تک بہتر کارکردگی دکھائی ہے جبکہ پاکستان میں حالات ابتری کا شکار ہوئے ہیں۔ اس صورت حال سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں گورننس کی کمی کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں اور لا اینڈ آرڈر ابھی تک کنٹرول نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں گورننس کے سنجیدہ مسائل موجود ہیں۔ پاکستان میں مختلف گروہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ خطرہ جن دو گروپس سے ہے ان میں پہلے نمبر پر بی ایل اے اور دوسرے نمبر پر ٹی ٹی پی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں موجود عبوری حکومت نے وہاں موجود بہت سی دہشت گرد تنظیموں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ داعش نے بھی اپنا نیٹ ورک بڑھایا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ عرصہ میں انہیں کامیابی ملی ہے جس کے بعد وہ پاکستان اور افغانستان میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت بھی ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لئے طالبان حکومت کو ذمے دار قرار دیتی آئی ہے۔ تاہم کابل کے طالبان حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی کنفیوژ پالیسی کی وجہ سے بھی مسائل ہیں۔ ہمارا فوکس کائنیٹک آپریشن ہیں لیکن انتہا پسندی کے حوالے سے جو دیگر اقدامات اور کوششیں ہونی چاہئیں وہ نہیں ہو رہیں۔ معاشرتی سطح پر بھی دہشت گردوں کے خلاف رائے ہموار نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مقابلے میں یکسوئی نہیں آ رہی ہے۔
دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک برکینا فاسو میں 2024ء کے دوران دہشت گردی کے 111 واقعات میں 1532افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں شام کا نمبر تیسرا ہے جہاں چند سال قبل باغی گروپس نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ کر عبوری حکومت قائم کی تھی۔ 2024ء میں ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا جہاں گزشتہ سال کے دوران کم از کم ایک دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ ایسے ممالک کی تعداد 58سے بڑھ کر 66ہو گئی ہے۔ 2024ء میں سات برس کے دوران پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جن ممالک میں دہشت گردی کی صورتِ حال میں ابتری آئی ہے ان کی تعداد بہتری والے ممالک سے زیادہ ہے۔ یہ بھی توجہ طلب امر ہے کہ سال 2024ء کے دوران 45ممالک میں دہشت گردی کے اثرات بڑھے ہیں جبکہ 34میں بہتری آئی ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ انڈیکس میں دہشت گردی سے متاثر ٹاپ ٹین ممالک میں اسرائیل بھی آٹھویں نمبر پر ہے جہاں 2024ء کے دوران 108حملوں میں 18 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
بہرحال پاکستان میں دہشت گردی کی جہاں بین الاقوامی وجوہات ہیں وہیں کچھ بنیادی اور مقامی و داخلی وجوہات بھی ہیں۔ ان داخلی وجوہات میں ایک بڑی وجہ بدعنوانی اور بااختیار طبقوں اور ذمہ دار افسروں کی بدعنوانی بھی ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانیوں میں ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ عالمی ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے تمام سرویز کے مطابق پاکستان میں پولیس سب سے کرپٹ ترین شعبہ ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جو جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کی گوشمالی کر سکتا ہے مگر ایسا ہو نہیں رہا جس کی وجہ سے ہر بار جب بھی دہشت گردوں کو نکیل ڈالنی ہو تو پاک فوج کو میدان عمل میں آنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کے اپنے کام یعنی سرحدوں کی حفاظت وغیرہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے مسائل کی طرف گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے نشان دہی کی تھی اور ملک کو ہارڈ سٹیٹ بنانے پر زور دیا تھا۔ ہمارے خیال میں ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ابتدا انہی بدعنوانیوں کے خاتمے کو ترجیح دینے سے کرنی چاہئے کیونکہ اس کے خاتمے کے بغیر معاشرے کو خاص طور پر دہشت گردی سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں ہونے والے نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2022 کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں پولیس کے بعد ٹینڈر اور حکومتی ٹھیکوں کا شعبہ جبکہ تیسرے نمبر پر عدلیہ سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ تعلیم ماضی کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہوا ہے اور یہ چوتھا کرپٹ ترین شعبہ ہے۔ کرپشن کی روک تھام کے لئے کام کرنے والے ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ 21برسوں میں چھ مرتبہ یہ سروے کرائے ہیں، جن میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے جن شعبوں کو سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے ان کے بارے میں رائے لی جاتی ہے۔ اس سروے میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے 16سو افراد نے حصہ لیا، ہر صوبے سے چار سو افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ جس کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان میں تمام ادارے گورننس میں تنزلی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت میں شامل افراد کی طرف سے اداروں کو مضبوط بنانے اور ان پر حکومتی اثر و رسوخ کم کرنے سے ہی کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ اسی طرح صوبوں کی سطح پر پاکستان میں کرپشن کو دیکھا جائے تو سروے کے مطابق سندھ میں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر پولیس جب کہ ٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے تیسرے نمبر پر ہیں۔ پنجاب میں پہلے نمبر پر پولیس، دوسرے پر ٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے جبکہ عدلیہ تیسرے نمبر پر کرپٹ سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں بدعنوانی میں عدلیہ سب سے زیادہ کرپٹ سمجھتی جاتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے اور پولیس تیسرے نمبر پر ہے۔ بلوچستان میں ٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے سب سے زیادہ کرپٹ، پولیس دوسرے جبکہ عدلیہ کو تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر 45فیصد لوگ انسداد بدعنوانی کے اداروں کو غیر موثر مانتے ہیں۔ سندھ میں صرف 35فیصد پاکستانیوں نے نیب کے کردار کو بدعنوانی کی روک تھام میں موثر سمجھا۔ پنجاب 30فیصد، خیبر پختونخوا میں 9فیصد اور بلوچستان میں 12فیصد پاکستانیوں نے اس ادارے کو موثر سمجھا۔ قومی سطح پر پاکستانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مختلف خدمات سر انجام دینے والے محکمے بہت زیادہ کرپٹ ہیں۔ ان میں سڑکوں کی تعمیر میں شامل محکموں کے بارے میں 40فی صد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کرپٹ ترین ہیں اور اس میں شامل تمام افراد کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ دوسرے نمبر پر 28فیصد کے ساتھ بجلی کی فراہمی کے محکمے اور تیسرے نمبر پر 17فیصد کے ساتھ پینے کا صاف پانی فراہم کرنے والے محکمے شامل ہیں۔ سروے کے مطابق بدعنوانی کی تین اہم ترین وجوہات ہیں، جن میں سب سے پہلے کرپشن کیسز کے فیصلوں میں تاخیر، حکومت کا ذاتی فائدوں کے لئے ریاستی اداروں کو استعمال کرنا اور حکومتی نااہلی شامل ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ اس رپورٹ کے حوالے سے اب تک حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم حکومت ماضی میں پولیس اور عدلیہ سمیت مختلف اداروں میں بدعنوانی کے خاتمہ کے حوالے سے اقدامات کرنے کا کہتی رہی ہے۔ اب جبکہ ہارڈ سٹیٹ کا نام لیا جا رہا ہے تو اس بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے ہی ہارڈ سٹیٹ کا مقصد پورا ہو گا۔