چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

صفدر علی حیدری
پاکستان میں پچھلے کوئی تین عشروں سے مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ بھی اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے متوسط طبقے تک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہماری حکومتوں کو شاید اس طبقے سے ذرا برابر بھی ہمدردی نہیں۔ ورنہ اب تک تو یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ نہ تو وہ سنجیدہ ہیں اور نہ ان کے پاس ایسی پالیسیاں ہیں کہ جن کی مدد سے وہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کر سکیں۔
ہم اکثر چائنا چائنا کرتے رہتے ہیں۔ افیون کھانے والی اس قوم نے تھوڑے سے عرصے میں ستر کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا ہے۔ اس بے مثال کامیابی کے پیچھے پر عزم قیادت اور محنت کا جذبہ کار فرما ہے۔ چینی لوگوں نے قوم کو بھکاری نہیں بننے دیا۔ نہ امداد کے نام پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بھیک دی ہے۔ نہ روشن کے نام پر چیک تقسیم کیے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے پاس ایک فلسفہ ہے جو کہتا ہے
’’ مچھلی پکڑ کر نہ دو، مچھلی پکڑنا سکھا دو‘‘
اس فلسفے کو جب جذبے کی مدد حاصل ہوئی تو ستر کروڑ لوگ خط غربت سے باہر نکل چکے تھے، ہماری تو کل آبادی ہی پچیس کروڑ ہے۔ گویا ہمارے ہاں خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد چائنا کے مقابلے میں چار گنا کم ہے۔ سو ہمارا اوپر اٹھنا چائنا کی نسبت کہیں آسان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو کیا کچھ نہیں دیا۔ چار موسم، دریا، سمندر، پہاڑ، سنا اگلتی زمینیں، معدنیات، کثیر تعداد میں نوجوان، محنت کش عوام۔ افسوس ہمیں رہنما کام نہیں ملے۔ کوئی ایسی سیاسی قیادت نہیں ملی جو واقعی قیادت کی اہل ہو۔ سو نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں فیاضی سے نوازا ہے اور ان ظالموں نے بڑی بے دردی سے لوٹا ہے۔ اور ملک و قوم کو ادھ موا کر ڈالا ہے۔ غریبوں کو بنیادی ضرورت کی اشیاء پکڑائی نہیں دیتیں۔ انھیں معمولی معمولی چیزوں کے لیے غیر معمولی محنت اور انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ویسے تو پورے ملک کی حالت ناگفتہ بہ ہے، لیکن فی الحال اس ملک کے سب سے بڑے اور بدقسمت کی بات کرتے ہیں۔ پچھلے ایک سال کی حکومتی کارگزاری یہی بتاتی ہے کہ ایک بھی کام ڈھنگ سے ہو نہیں پایا۔یہ اور بات ہے کہ اپنی بے مثال کارکردگی گنوانے کے لیے سپلیمنٹس چھپوائے گئے اور دولت دونوں ہاتھوں سے لٹائی گئی۔ ظاہر ہے جب سب مصنوعی ہو گا تو پھر چرچے کے لیے خرچہ تو ہو گا۔
کہتے ہیں
زبان خلق نقارہ خدا
خلق کی آواز اگر یہ لوگ سن لیتے تو کبھی ایسی حرکتیں نہ کرتے جو برکت سے خالی ہوتی ہیں۔
کبھی ان لوگوں کو سولر پینل دینے کا خواب آیا۔ یہ اسکیم کتنی کامیاب رہی، اس بارے کچھ زیادہ غور و فکر کی ہرگز ضرورت نہیں کہ کسی ایک بندے بشر کو کوئی پلیٹ تو کیا کوئی اسٹینڈ تک نہیں ملا۔ پھر انھیں خواب آیا کہ انھیں اسکول کے بچوں کو دودھ پلانا چاہیے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن بچے انتظار کر رہے ہیں کہ کب ان کی قسمت کھلے گی اور دودھ نصیب ہو گا۔ بجلی کے بلوں کا معاملہ یہ تھا کہ جب کوئی بل بھرنے جاتا تو اسے یہ کہہ کر حیران کر دیا جاتا کہ حکومت تو کب کا آپ کا بل ادا کر چکی ہے۔ اس بات کے سچ ہونے کا پہلے بھی یقین نہیں تھا اور پھر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ بھی ایک سیاسی وعدہ تھا، کہتے ہیں کنجوس آدمی خود تو کسی کو کچھ دیتا نہیں، کوئی دوسرا دے تو اسے اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ پچھلی حکومت نے جو صحت کارڈ، لنگر خانے وغیرہ جیسی سہولیات دے رکھی تھیں، وہ بھی موجودہ حکومت نے ختم کر دیں۔ کچھ دن پہلے خبر آئی کہ پنجاب حکومت کسانوں کو گندم کے حوالے سے اربوں روپے کے فنڈز دے گی۔ کسان کو یہ بات سن کر خوشی نہیں ہوئی۔ اسے تو اپنی گندم کی فکر ہی جسے حکومت خریدنے سے انکاری ہے۔ آج کسان کو جو گندم پینتیس سو فی من پڑی ہے، اس سے اکیس بائیس سو میں خریدیں جا رہی ہے۔ مارکیٹ میں اس کے دام گر رہے ہیں۔ فصل پوری طرح کٹ گئی تو شاید یہ دو ہزار فی من بھی نہ بکے۔ ایک آخری چیز جس کا سن کر یہ کالم لکھا جا رہا ہے ، وہ بھی ذرا پڑھ لیجے ’’ پنجاب کے محنت کشوں کے لیے بڑی خوشخبری آ گئی۔ وزیر اعلیٰ نے صوبے کی تاریخ کے سب سے بڑے ماہانہ راشن کارڈ پروگرام کا فیصلہ کر لیا۔ذرائع کے مطابق صنعتی مزدوروں کے لیے 40ارب روپے مالیت کا راشن کارڈ منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے، جس کے تحت پنجاب بھر کے 12لاکھ 50ہزار صنعتی محنت کشوں کو راشن کارڈ فراہم کیے جائیں گے۔ یہ منصوبہ یکم مئی کو لانچ کیا جائے گا۔ راشن کارڈ بینک آف پنجاب کے ذریعے جاری کیے جائیں گے جبکہ اس کارڈ کے ذریعے ماہانہ کتنی رقم فراہم کی جائے گی اس کا حتمی فیصلہ پنجاب کابینہ کرے گی۔ حکومت اس اقدام کے لیے باقاعدہ قانون سازی بھی کرے گی۔ راشن کارڈ گھرانے کے سربراہ کو جاری کیا جائے گا، جس سے مجموعی طور پر 84لاکھ سے زائد افراد مستفید ہوں گے‘‘۔ یہ یقیناً ایک اچھی خبر ہے۔ مجھے اس خبر سے خوشی اس لیے بھی ہوئی کہ کچھ عرصہ قبل میں نے راشن کارڈ کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ بے نظیر اسکیم ، یوٹیلیٹی اسٹورز اور دیگر تمام ذرائع عوام کو ریلیف پہنچانے سے قاصر رہے ہیں۔ ان سب کو ختم کر کے اس کا فنڈ اسی راشن کارڈ فنڈ میں جمع کیا جائے۔ میری تجویز یہ ہے کہ پندرہ ہزار روپے تک کے راشن کارڈ پر چالیس فیصد ریلیف دیا جائی۔ اس لحاظ سے پندرہ ہزار کے روشن پر چھ ہزار، دس ہزار کے روشن پر چار ہزار اور پانچ ہزار کے راشن پر دو ہزار تک ریلیف ملے گا، یہ ایک انقلابی منصوبہ ہے۔ اس پر اگر ایمان داری سے عمل کیا جائے تو غریب کو دو وقت کی روٹی نصیب ہو پائے گی۔ مجھے اگرچہ اس پروگرام کی شفافیت پر کچھ زیادہ یقین نہیں ہے مگر پھر بھی اس پروگرام کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ لیکن اگر اس پروگرام پر بھی دیگر منصوبوں کی طرح عمل نہ ہوا تو میں محسن نقوی کا مشہور شعر کہے بنا نہیں رہ پائوں گا
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں